ہار جیت قلت و کثرت پر موقوف نہیں ۔۔۔آیہ ۔249۔ب

ہارجیت قلت و کثرت پر موقوف نہیں

فَلَمَّا ۔۔ جَاوَزَهُ ۔۔۔ هُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    مَعَهُ 
پس جب ۔۔۔ پار ہوا وہ ۔۔ وہ ۔۔۔ اور وہ  لوگ ۔۔۔ ایمان لائے ۔۔ اس کے ساتھ 
قَالُوا ۔۔۔  لَا طَاقَةَ ۔۔۔ لَنَا ۔۔۔ الْيَوْمَ ۔۔۔ بِجَالُوتَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَجُنُودِهِ 
کہا ۔۔۔ نہیں طاقت ۔۔ ہمیں ۔۔ آج ۔۔۔ جالوت کی ۔۔۔ اور اس کا لشکر 
قَالَ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  يَظُنُّونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔     أَنَّهُم ۔۔۔ مُّلَاقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهِ ۔۔۔ كَم ۔۔ مِّن 
کہا ۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ وہ خیال کرتے تھے ۔۔۔ بے شک وہ ۔۔ ملنے والے ہیں ۔۔ الله ۔۔ کتنی ۔۔ سے 
فِئَةٍ ۔۔۔ قَلِيلَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔  غَلَبَتْ ۔۔۔۔۔۔۔  فِئَةً ۔۔۔ كَثِيرَةً ۔۔۔ بِإِذْنِ ۔۔۔ اللَّهِ 
جماعت ۔۔ تھوڑی ۔۔ غالب ہوئے ۔۔ جماعت ۔۔۔ بڑی ۔۔ حکم سے ۔۔ الله 
وَاللَّهُ ۔۔۔ مَعَ ۔۔۔ الصَّابِرِينَ۔ 2️⃣4️⃣9️⃣
اور الله ۔۔ ساتھ ۔۔ صبر کرنے والے 

فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُوا اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

پھر جب طالوت اور اس کے ایمان والے ساتھی پار ہوئے تو وہ کہنے لگے آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلے کی طاقت نہیں   جنہیں خیال تھا کہ ان کو الله سے ملنا ہے کہنے لگے بارہا تھوڑی جماعت الله کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب ہوئی ہے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ 2️⃣4️⃣9️⃣

جَالُوت ۔۔ یہود کے مخالف فلسطینیوں کے لشکر کا سردار تھا ۔ یہ شخص دیو قامت اور کڑیل جوان تھا ۔ توریت میں اس کی قوت و توانائی اور شہ زوری کا ذکر تفصیل سے موجود ہے ۔ قد دس فُٹ بیان کیا جاتا ہے ۔ وہ سر سے پاؤں تک زرہ پہنے رہتا تھا ۔ ایک بھاری ڈھال اس کے ہاتھ میں رہتی تھی ۔ 
حضرت طالوت نے جب جہاد کا اعلان کیا تو جوش میں سب چلنے کوتیار ہوگئے ۔ آپ نے کہا جو کوئی جوان اور بے فکر ہو وہ ساتھ چلے ۔ تقریبا ستر ہزار لوگ ساتھ چلے ۔ پھر طالوت نے انہیں آزمانا چاہا  اور  پہلے ہی خبردار کردیا کہ راستے کی نہر سے چلّو بھر سے زیادہ پانی نہ پئیں ۔ ورنہ ساتھ چھوٹ جائے گا ۔ یہی ہوا ۔ چند ایک کے سوا سب نے جی بھر کر پانی پیا ۔ جنہوں نے ایک چلو پانی پیا ان کی پیاس بجھ گئی اور جنہوں نے جی بھر کر پانی پیا ان کی پیاس اور بڑھی اور چلنے کے  قابل ہی نہ رہے ۔ اور صرف تین سو تیرہ افراد ساتھ رہ گئے ۔ 
یہ قلیل جماعت دشمن کے مقابل پہنچی تو قلتِ تعداد کو دیکھتے ہوئے الله کے یہ بندے کہنے لگے آج اتنے بھاری لشکر سے ہم کیسے مقابلہ کریں گے ۔ مگر کامل یقین اور پختہ ایمان والے ساتھی پکار اٹھے ۔ 
نہیں فتح ہماری ہوگی ۔ تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ قلیل جماعتیں بھاری لشکروں پر الله کے حکم سے کامیاب ہوگئی ہیں ۔ 
ہار جیت کا فیصلہ لشکروں کی تعداد سے نہیں بلکہ الله تعالی کی مدد اور دلوں کی طاقت سے ہوتا ہے ۔ جو صبر و ثبات کا دامن نہ چھوڑے الله سبحانہ وتعالی اس کا ساتھ دیا کرتا ہے ۔ 
ثابت قدمی بہت بڑی طاقت ہے ۔ میدانِ عمل میں ڈٹ جانے والوں کی الله تعالی غیب سے مدد فرماتا ہے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

چہل حدیث ۔۔۔ فضائل جہاد ۔۔۔ جہاد : مولانا مفتی محمد شفیع رحمه الله تعالی



جہاد کے فضائل ومسائل سے متعلق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی روایات حدیث اس کثرت سے منقول ہوئی ہیں کہ ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہو جائے ۔ اس جگہ ان میں سے صرف چالیس حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ۔ اس عدد میں ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں یاد کرکے میری امت کو پہنچا دے ، اس کا حشر قیامت کے دن علمائ مقبولین کے ساتھ ہوگا ۔ اس برکت کو لکنھے والا بھی حاصل کرسکتا ہے اور اس کو چھاپ کر شائع کرنے والابھی ۔ 

حدیث نمبر 1 : (َعَنْ مَعَاذْ بَنْ جَبَل فِیْ حَدِیث طَوِیْل قَالَ 

قَال رَسُولُ اللهِ ِ صلی الله علیہ وسلم 
رَأسُ الَْامْرِ الْاِسْلَامُ وَعَمُودُہُ الصّلوٰةُ

وَ ذروۃ سَنَا مُہ الجِھَادُ 
رواہ احمد والترمذی از مشکوٰۃ ) 
ترجمہ :۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (عنہم) ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ''اصل کام اسلام ہے اور اسلام کا عمود جس پر اس کی تعمیر قائم ہے ، نماز ہے اور اس کا اعلی مقام جہاد ہے"۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی عزّت وقوت جہاد پر موقوف ہے ۔ جب وہ جہاد چھوڑدیں گے ، ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے ۔ 
حدیث نمبر 2:۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ (عنہم) قَالَ

 ُقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَثَل الْمُجَاھِدِیْنَ
فِیْ سَبِیْلِ الله کَمَثَلِ الصّائِٓمِ الْقَائِٓمِ الْقَانِتِ 
بِآیَاتِ اللهِ لاَ یَفترُ مِنْ صِیَامٍ وَّلاَ صَلوٰۃ حَتّٰی 

یَرْجع المُجَاھِدِیْنَ فِی سَبِیلِ اللهِ
۔ ( بخاری ومسلم )
ترجمہ ۔۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے لیے جہادکرنیوالے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مسلسل روزے رکھتا رہے اور رات بھر تہجد کی نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے ۔ نہ کسی دن روزہ میں سستی کرے اور نہ کسی رات نماز میں ، اور مجاہد کو یہ فضلیت اس وقت تک برابر حاصل رہے گی جب تک وہ لوٹ کر اپنے گھر نہ آجاوے ۔

حدیث نمبر :3
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ (عنہم) قَالَ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِ 
رسول صلی اللہ علیہ وسلم بِشَعْبٍ فِیْہِ عَیْنِیةٌ مِنْ مَّأ عُذْبَة
فَاَعْجَبَتْه فَقَالَ لَوْاعتزَلْتُ النَّاسَ فَاَقَمْتُ فِیْ ھٰذَا الشّعْب فَذَکَرَ 
ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسل فَقَالَ لَا تَفْعَلْ فَاِنَّ مَقَام 
اَحَدُکُمْ فِیْ سَبِیْلِ الله اَفْضَلُ مِنْ صَلوٰۃ فِیْ بَیْتِه سَبْعِیْنَ عَاماً 
اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللهُ لَکُمْ وَیُدْخِلَکُمُ الْجَنَّةَ اُغْزُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ 
مَنْ قَاتَلَ فِیْ سَبِیْلِ الله فَوَاق نَاقَة وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةَ
ترمذی 

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ایک پہاڑی درہ میں ایک چشمہ پر پہنچے چشمہ میٹھا اور صاف دیکھ کر ان کو پسند آیا اور دل میں کہا کہ یہ جگہ عبادت کے لیے بہت اچھی ہے۔ میں لوگوں سے الگ ہو کر یہیں قیام کرلوں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس خیال کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ''ایسا نہ کرو ! اس لیے کہ ایک شخص کا اللہ کے راستہ ( جہاد میں کھڑاہونا اپنے گھر میں رہ کر ستر سال کی نماز سے بہتر ہے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ۔ جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے تھوڑی دیر بھی ، اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔'' 
فائدہ :۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ضرورت کے وقت خلوت میں بیٹھ کرعبادت کرنے سے جہاد میں حصہ لینا بدرجہا بہتر ہے ۔

حدیث نمبر 4:۔ عَنْ اَبِیْ ا مَامَۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) وَالّذِی نَفْس مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم بِیَدِہ لغَدْوَۃٌ اَوْرَوْحَۃٌ فِی سَبِیلِ اللهِ خَیْر مّنَ الدُّنْیَا ومَا فِیْھَا ولمَقَام اَحَدِکُمْ فِی الصَّفِّ خَیْرٌ مّن صَلوٰتہ سِتّیْنَ سَنَۃ 
( رواہ احمد ) 

ترجمہ :۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ، اللہ کے راستہ ( جہاد میں ایک مرتبہ صبح یا شام کو نکلنا ساری دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بدر جہا بہتر ہے اور ایک شخص کا جہاد صف میں کھڑا ہونا گھر میں بیٹھ کر ساٹھ برس کی نمازوں سے بہتر ہے ۔ 
حدیث نمبر 5:۔ عن عبدالله بن عَمْرِو بن العاصِ  رضی اللہ عنھما عنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم 
قَالَ قَفْلَةٌ کَغَزْوَۃٍ ۔ 
( رواہ ابوداؤد) 
ترجمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ جہاد سے واپسی کے سفر میں بھی وہی ثواب ملتاہے جوجہا کے لیے جانے کے وقت ملتا ہے ۔ 

حدیث نمبر 6
وعن  ابی موسٰی الاشعری  رضی اللہ عنھم  قال 
قال  رسول اللهِ صلی الله علیہ وسلم ۔ 
اِنَّ اَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ  ظِلاَ لِ السُّیُوفِ ۔
فَقَامَ رَجُلٌ رَثَّ الْھَئیَة فَقَالَ یَا اَبا مُوسیٰ 
أَاَنْتَ سَمِعْتَ رسول الله صلی الله علیہ وسلم  یَقُولُ ھٰذَا ؟  
قَالَ نَعَمْ 
فَرَجَعَ اِلٰی اَصْحَابِه فَقَالَ اَقْرَأُ عَلَیّکُمْ السَّلامَ 
ثُمَّ کَسَرَ جَفْنْ سَیْفِهِ فَاَلْقَاهُ  ثُمَّ مَشَی بِسَیْفِهِ اِلَی الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِهِ حتَیٰ قُتِلَ ۔۔۔۔۔
(رواہُ مسلم ) 
ترجمہ :ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ میں ہیں ۔ 
یہ سن کر ایک خستہ حال آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا
 اے ابو موسٰی ! آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل سے یہ ارشاد سنا ہے ؟ 
انھوں نے فرمایا کہ ہاں ! 
یہ شخص فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا اور ان کو آخری سلام کیا اور اپنی تلوار کی میان توڑ کر پھینک دی۔ ننگی تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑا اور مسلسل لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا۔

حدیث نمبر7 :
وعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ 
اَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلّی اللهُ عَلیْہ وَسلّم قَالَ 
عُرِضَ عَلَیَّ اوّل ثَلاَثَة یَدْخُلُونَ الْجَنَّة
 شَھِیْد وعَضِیّف مُتَعَفَّف وَعَبْد اَحَسَن عِبَادَۃ اللهِ 
وَنصح لمَِوَالِیْہ
رواہ الترمذی 


عن ابى هريرة رضى الله عنه 
انّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال
عُرِض عليَّ أوَّلُ ثلاثةٍ يدخلون الجنَّةَ وأوَّلُ ثلاثةٍ 
يدخلون النَّارَ فأمَّا أوَّلُ ثلاثةٍ يدخلون الجنَّةَ 
فالشَّهيدُ وعبدٌ مملوكٌ أحسن عبادةَ ربِّه 
ونصح لسيِّدِه وعفيفٌ متعفِّفٌ ذو عِيالٍ 

عُرِض عليَّ أوَّلُ ثلاثةٍ يدخلون الجنَّةَ وأوَّلُ ثلاثةٍ يدخلون النَّارَ فأمَّا أوَّلُ ثلاثةٍ يدخلون الجنَّةَ فالشَّهيدُ وعبدٌ مملوكٌ أحسن عبادةَ ربِّه ونصح لسيِّدِه وعفيفٌ متعفِّفٌ ذو عِيالٍ وأمَّا ثلاثةٌ يدخلون النَّارَ فأميرٌ مسلَّطٌ وذو ثروةٍ من مال لا يؤدِّي حقَّ اللهِ في مالِه وفقيرٌ فخورٌ
الراوي:أبو هريرة المحدث:المنذري المصدر:الترغيب والترهيب الجزء أو الصفحة:2/12 حكم المحدث:[إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ تین آدمی پیش کئے گئے (غالباً شبِ معراج میں) جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اور پہلے تین جو جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔اول شہید فی سبیل اللہ۔۔ دوسرا وہ غلام جس نے اللہ تعالٰی کی عبادت بھی خوب کی اور اپنے آقاؤں کی خدمت وخیرخواہی میں بھی کوتاہی نہیں کی۔تیسرا  وہ متقی پرہیزگار ، صاحب عیال جوکوشش کرکے ہر گناہ سے بچتا ہے


ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے وہ تین آدمی پیش کئے گئے (غالباً شبِ معراج میں) جو سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اول شہید فی سبیل اللہ۔دوسرے وہ متقی پرہیزگارجوکوشش کرکے ہر گناہ سے بچتا ہے۔ تیسرے وہ غلام جس نے اللہ تعالٰی کی عبادت بھی خوب کی اور اپنے آقاؤں کی خدمت وخیرخواہی میں بھی کوتاہی نہیں کی۔

حد یث نمبر 8 : 

قال الألباني رحمه الله عن عبد الله بن حُبْشِي الخَثْعَمي :

أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سئل: أيُ الأعمالِ أفضل ؟ قال:
" طول القيام ". قيل: فأيُ الصدقةِ أفضل؟ قال:
" جُهْدُ المُقِل ". قيل: فأيُ الهجرةِ أفضل؟ قال:
" مَنْ هَجَرَ ما حَرمَ اللهُ عليه ". قيل: فأيُ الجهادِ أفضلُ؟ قال:
" من جاهد المشركين بماله ونفسه ". قال: فأيٌ القتلِ أشرفُ؟ قال:
" من أُهْرِيقَ دَمُهُ، وعُقِرَ جوادة ".
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم؛ إلا أن الصواب: الصلاة؛ بدل:
الأعمال؛ كما تقدم (1196) ) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا حَجَّاج قال: قال ابن جريج: حدثني
عثمان بن أبي سليمان عن علي الآزْديِّ عن عبيد بن عمير عن عبد الله بن
حُبْشِي الخثعمي.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، وقد مضما (1196) مختصراً،
وبَينا هناك ما وقع للمصنف رحمه الله تعالى من الخلل في اختصاره.


تر جمہ: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوا ل کیا گیا کہ عبا دت میں سب سے افضل کو ن سا عمل ھے ؟ فرما یا کہ (نفل نما ز میں) طو یل قیا م۔پھر سوا ل کیا گیا کہ صد قہ کو نسا افضل ہے؟تو آپ نے فر مایا کہ مفلس آدمی جو اپنی مزدو ری میں سے خرچ کرے ۔ پھر سوال کیا گیا کہ ہجرت کونسی افضل ہے ؟ تو آپ نے فرما یا اس شخص کی ہجرت افضل ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑدے جس کواللہ نے حرام کیا ہے ۔
پھر سوال کیا گیاکہ جہاد کون سا افضل ہے؟تو فرمایا جس نے اپنی جان اور مال کے ساتھ مشرکین سے جہاد کیا۔پھر سوال کیا گیا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا کون سا افضل واشرف ہے؟تو فرمایا کہ جس شخص کا اپنا بھی خون بھا دیا گیا اور اس کا گھوڑا بھی مار دیا گیا۔
حدیث نمبر9 :عن کعب بن مرۃ رضی اللہ عنہ (عنہم) فی حدیث مرفوع من بلغ العدو بسھم رفعہ اللہ بہ درجہ قال ابن النجار یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما الدرجہ ؟ قال أما انھالیست بعتبۃ امّک ولکن بین الدرجتین مائۃ عام ( رواہ النسانی) 
ترجمہ:۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یاکہ جو شخص دشمن کو ایک تیر مارے گا تو اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کے درجات میں ایک درجہ کا اضافہ فرمادیں گے ۔ ابن بخار رضی اللہ عنہ (عنہم) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! درجہ سے کیا مراد ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے ! درجہ کا مطلب تمھاری ماں کی دہلیز ہونے سے تو رہا ، نلکہ دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے ۔
حدیث نمبر 10 : وعن انس رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم لغدوۃ فی سبیل اللہ وروحۃ خیر من الدنیا وما فیھا ۔ ( مسلم) 
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک صبح کو اللہ کی راہ میں نکلنا اور ایک شام کو اللہ کی راہ میں (جہاد) میں نکلنا ساری دنیا اور اسکی تمام دولتوں اور نعمتوں سے بہترہے ۔ 
حدیث نمبر 1 1 : ۔ 4- وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم بَعَثَ بَعْثاً إلَىَ بَنِي لِحْيَانَ، مِنْ هُذَيْلٍ، فَقَالَ: «لِيَنْبَعِثْ مِنْ كُلّ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا، وَالأَجْرُ بَيْنَهُمَا». أخرجه مسلم.
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاھدین کا ایک لشکر قبیلہ ہذیل کی شاخ بنی لحیان کے مقابلے کے لیے بھیجا اور جہاد کے لیے نکلنے والے صحابہ کرام کو یہ حکم دیا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک مرد جہاد کے لیےجائے ، ایک گھر کی ضرویات وغیرہ کے لیے یہا رہ جائے اور اس طرح کرنے سے جہاد کا ثواب دونوںمیں مشترک ہو جائے گا۔''

شہری دفاع کی خدمت بھی جہاد ہے 
اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جہا د صر ف محا ذجنگ پر جا کر لڑ نے ہی کا نام نہیں، جو لو گ اپنے اور دوسر ے مسلما نو ں کے گھروں کی حفا ظت کے قصدسےشھر میں رہ جائیںوہ بھی مجاھد ہیں۔ کیونکہ محاذ پر لڑنے والے سپاہیوں کی وہ امداد کر رہے ہیں کہ ان کے اہل و عیال اور گھر بار کی حفاظت کر کے ان کو بے فکر کر دیا ہے۔ہمارے ملک میں شہری دفاع کی خدمت انجام دینے والے جو بھی خدمت انجام دیتے ہیں وہ بھی اللہ کے نزدیک مجاہدین کے حکم میں ہیں۔

جہادکی نیّت
حدیث نمبر 12:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُكْلَمُ أَحَدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْكِ ۔  بخارى ومسلم 

ترجمہ: رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی ہو جائے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا ہے،تو وه قيامت كے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہ رہا ہوگا۔وہ صورت میں تو خون ہوگا مگر اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔
فائدہ:اس حدیث میں جو یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوا۔اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس شخص کی نیت ،نام و نمود اور شہرت کی یا کسی اور دنیوی مفاد کے لیے لڑنے کی ہو اور زخمی ہو جائے،وہ اللہ کی راہ میں زخمی نہیں ہوا۔اس کو یہ فضیلت نہیں ملےگی بلکہ یہ فضیلت خاص اس شخص کا حق ہے جواسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور اسلامی ملک سے دشمنانِ دین کی مدافعت کی نیت سے لڑتا ہے۔

حدیث نمبر13: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِي اللَّهم عَنْهم قَالَ قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ مَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۔۔۔بخاری ومسلم

ترجمہ: ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی آیااورعرض کیا(جہادمیں لوگ مختلف نیّتوں سےشریک ہوتےہیں)ایک شخص اس نیت سےجہادمیں شریک ہوتاہےکہ مالِ غنیمت میں حصہ ملےگا۔ایک شخص اس لیےجہادکرتاہےکہ دنیامیں اسکاچرچاہوگااورتاریخ میں یادگارباقی رہےگی۔ایک شخص اس لیےجہادکرتاہےکہ دنیاکےلوگ یہ محسوس کرلیں کہ یہ اسلام کابڑاخدمت گزارااورجانثارہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اللہ کی راہ میں جہادکرنےوالاان میں سےصرف وہ ہےجواس نیت سےجہادکرےکہ اللہ کاکلمہ بلند ہواوراُس کےدشمن زیرہوں۔

رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت 
حدیث نمبر14:عن سهل بن سعد رضي الله عنه : أن رسول 
الله صلى الله عليه وسلم قال  رِبَاطُ يَوْمٍ فِي 
سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا ۔بخاری ومسلم)

ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ ایک دن کارباط ''یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کاکام ساری دنیااور جو کچھ اس میں ہے،ان سب سےبہتر ہے۔
حدیث نمبر15:عن فَضَالَةَ بْنُ عُبَيْدٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُولِ اللهِ 

صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : ( كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ 
إِلاَّ الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللهِ ، فَإِنَّهُ يُنْمَى لَهُ 
عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ، وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ القَبْرِ ) 

رواه الترمذي (1621) ۔
ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ ہرمرنےوالےکےعمل پرمہرلگادی جاتی ہے۔مرنےکےبعداس کےعمل میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ،بجزاس شخص کےجواللہ کی راہ میں کسی سرحدکی نگرانی کرتےہوئےمرگیاتواس کاعمل قیامت تک اس کے اعمال نامےمیں بڑھایاجاتارہےگااورقبرکےسوال و جواب سےبھی آزادرہےگا۔
حدیث نمبر 16 :عَنْ سَلْمَانَ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي كَانَ يَعْمَلُهُ وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ ) رواه مسلم (1913) .
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن رات کا رباط یعنی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی خدمت انجام دینا ایک مہینے کے مسلسل روزے اور ساری رات نماز تہجد سے افضل ہے اور جو شخص اس حال میں یعنی کسی اسلامی سرحد کی حفاظت کی حالت میں مرجائے تو قیامت تک اس کے تمام نیک عمل ، جو وہ روزانہ کیا کرتا تھا ، برابر اس کے نامئہ اعمال میں لکھےجاتے رہیں گےاور اس کا رزق للہ کی طرف سے جاری رہے گا اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ 
حدیث نمبر 17 :۔عن ابی عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عینان لا تمسھا النار عین بکت من خشیۃ اللہ وعین باتت تحرس فی سبیل اللہ ۔ 
تر جمہ :۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فر مایا کہ دو2 آنکھیں ایسی ہیں کہ انھیں آگ نہیں چھوئے گی۔ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خو ف سے رو ئی ہو ۔دو سری وہ آنکھ جس نے جہا د فی سبیل اللہ میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو۔

رینجرز پولیس کے لئے عظیم الشان بشارت 
آج کل سرحدوں کی حفاظت کرنے والی پولیس جن کو رینجرز کہتے ہے ، ان میں سے بہت سے آدمی اس کو محض ایک نوکری سمجھ کرانجام دیتےہیں،اگروہ رسولٖ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس ارشادکوسامنےرکھیں اوریہ خدمت اس عظیم ثواب کی نیّت سےانجام دیں تو نوکری کےساتھ یہ عظیم الشان دولت بھی ان کوحاصل ہوگی۔ ان کو اپنی اور خانگی ضرورتوں کے لیے ان کو جو تنخواہ ملتی ہےوہ اس ثواب سے ان کو محروم نہ کرے گی ۔ شرط یہی ہے ک اس خدمت کی انجام دہی میں اصل نیت ''رباط'' یعنی اسلامی سرحد کو دشمنانِ دین سے محفوظ رکھنے کی ہو ۔

حدیث نمبر 18 :۔عن ابن عباس رفعہ لا اخبرکم بخیرالناس منزلا قلنا بلیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل اخذ برأس فرسہ فی سبیل اللہ حتیٰ یعود اویقتل الا اخبرکم باالذی یلیہ قلنا نعم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رجل معتزل فی شعب من اشعب یقیم اصلوۃ ویؤتی الزکوۃ ویعتزل الناس شرہ او اخبرکم بشرالناس قلنا نعم یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الذی یسئل با اللہ ولا یعطی بہ (مالک ۔ ترمذی ۔ نسائی)
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ سب انسانوں سے زیادہ اچھا مقام اللہ کے نزدیک کس کا ہے ؟ وہ شخص جو اپنا گھوڑا لے کر اللہ کی راہ میں کسی اسلامی سرحد کی حفاظت میں لگ گیا اور یہی مقیم رہا یہاں تک کہ مرجائے یا قتل کردیا جائے ۔ پھر فرمایا کہ میں تمھیں بتلاؤں کہ اس شخص کے قریب کس کا درجہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور فرمایئے ۔ فرمایا جو کسی پہاڑ کی گھائی جا کر مقیم ہو گیا اور نماز اور زکوۃٰ ادا کرتا ، لوگوں کو اپنی ایذاؤں سے بچایا ۔ پھر فرمایا تمھیں سب سے بد ترین آدمی کا پتہ دوں؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوسروں سے اللہ کے نام پر مانگتا ہے مگر جب کوئی اس سے اللہ کےنام پر مانگے تو اسےکچھ نہیں دیتا ۔

شھید فی سبیل الله کا مقام اور اس کے درجات 

حدیث نمبر 19 :۔ عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یدخل الجنۃ یحب ان یرجع الی الدنیا ولہ ما فی الارض من شئی الااشہید یتمنٰی ان یرجع الی الدنیا فیقتل عشر مرات لما یری من الکرامۃ ۔ (بخاری مسلم)

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص جو جنت میں داخل ہوجائے اور پھر اسکو یہ کہا جائے کہ تو لوٹ کر دنیا میں چلا جا ، ساری دنیا کی حکومت ودولت تجھے دے دی جائے گی تووہ کبھی جنت سے نکل کر دوبارہ دنیا میں آنے پرراضی نہ ہوگا ، بجزشہید کے جو یہ تمنا ظاہر کرے گا کہ مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ میں پھر جہاد کرکے شہید ہوں ۔ اسی طرح دس مرتبہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجا جاؤں ، پھر شہیدہوکر آؤں ۔ کیونکہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا بڑے اعزاز و اکرام کا مشاہدہ کرے گا ( جو کسی اور عمل کا نہیں ہے) ۔
حدیث نمبر 20 :۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لو ددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی اقتل ثم احیی ثم اقتل ۔ ( بخاری و مسلم )
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر مجھے زندہ کیا جا ئے ، پھر قتل کیا جا ؤں ، پھر زندہ کردیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ، پھر زندہ کر دیا جائے ، پھر قتل کیا جاؤں ۔ 
شہید کے تین درجے 
حدیث نمبر 21 :۔عن عقبہ بن عبد السلمی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القتلی ثلثہ مؤمن جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ فاذا لقی الحدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہ فذالک الشھید الممتحن فی خیمۃ اللہ تحت عرشہ لا یفضلہ النبیون الا یالنبوۃ ومؤمن خالط عملا صالحاً وآ خر سیئاً جاھد بنفسہ وما لہ فی سبیل اللہ اذالقی العدو قاتل حتی یقتل قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم مصمصۃ محت ذنوبہ وخطایاہ ان السیف محاء للخطایا واد خل الجنۃ من ای باب شاء ومنافق جاھد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللہ اذا لقی العدو وقاتل حتی یقتل فذلک فی النار ان السیف لا یمحو النفاق۔ ( دارمی از مشکوۃٰ) 
ترجمہ:۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جہادمیں قتل ہونےوالےتین طرح کےآدمی ہیں۔ایک وہ شخص ہےجوخودمؤمن کامل،صالح ہے۔اس کےساتھ اس نےاللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہادکیااورجب دشمن سےاس کامقابلہ ہوا تو ڈٹ کرلڑایہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کےبارےمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ یہی وہ اصل شہیداورامتحان میں کامیاب ہےجوقیامت کےدن عرشِ رحمنٰ کےنیچےخیمہ میں ہوگااورانبیاء سےاس کامقام صرف اتناہی کم ہوگاجودرجئہ نبوّت کاتقاضاہے۔ دوسراوہ شخص ہےجومؤمن مسلمان توہےمگرعمل میں کچھ نیک کام کیے،کچھ برُےکیے،پھراس نے اپنی جان ومال سےاللہ کی راہ میں جہادکیااوردشمن کےمقابلےمیں لڑا،یہاں تک کہ قتل کردیاگیا۔اس شخص کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ اس کاجہادمصمصہ(یعنی سینگ کی طرح چوس کرفاسدمادہ نکالنےوالا)ہےجس نےاس کے سب گناہوں کومٹادیا۔اورتلوارسب خطاؤں کومٹادینےوالی ہے۔یہ شخص جس دروازےسےچاہےجنت میں داخل ہوسکےگا۔تیسرا وہ منا فق ہے جس نے اپنی جان و ما ل سے جہا د کیا اور دشمن سے لڑ کر مقتو ل ہو گیا (مگرنیت خا لص اللہ کےلیے نہیں تھی) یہ جہنم میں جا ئےگا ، کیو نکہ تلوا ر کفر ونفا ق کو نہیں مٹا سکتی۔

مجاہد اپنی موت مر جائے تو بھی شھید ہے 

حدیث نمبر 22 :۔عن ابی سھل بن حنیف قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سأل اللہ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہادۃ وان مات علیٰ فراشہ (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالٰی سے شہید ہونے کی دعا مانگے تو اس کو اللہ تعالےٰ شہیدوں ہی کے مرتبے پر پہنچادے گا ، اگر چہ وہ اپنے بسترپر مرے۔
حدیث نمبر 23 :۔ عن ابی مالک الاشعری قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من فصل فی سبیل اللہ فمات اوقتل او وقصہ فرسہ او لعبیرہ او لد غتہ ھامۃ اومات علیٰ فراشہ بای حتف شاء اللہ فانہ شہیدو ان لہ الجنۃ ۔ (ابوداؤد)
ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ جو شخص جہاد کے لیے نکلا ، پھر اسکو موت آگئی یا کسی نے قتل کردیا ،یا سواری سے گر کر مر گیا ،یا کسی زہریلےجانور نے کاٹ لیا یا اپنے بستر پر کسی مرض میں مر گیا تووہ بھی شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے

مال اور زبان سے بھی جہاد ہوتا ہے 

حدیث نمبر 24 :۔عن انس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال جاھدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم (رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی )

ترجمہ :۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین کے خلاف جہاد کرو اپنے مالوں سے ، اپنی جانوں سے اپنی زبانوں سے۔ 
مال کا جہاد تو یہ ہے کہ جہاد کے کاموں میں مال صرف کیا جائے ،اور زبان کا جہاد یہ کپ لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے کر اس پر آمادہ کریں اور جہاد کے احکام بتلائیں اور یہ بھی کہ پنی گفتگو اور تقریر سے دشمن کو مرعوب کرے ۔ ایسی نظمیں جن سے مسلمانوں میں جذبہ جہاد قوی ہو ، یا جن سے دشمنوں کی تذلیل ہو ، وہ بھی اس جہاد میں شامل ہیں ۔جیسے حضرت حسان ثابت رضی اللہ عنہ (عنہم) جو شعرائے صحابہ میں سے ہیں ، ان کی نظمیں جو مشرکین مکہ کے مقابلہ پر کہی گئی ہیں ، ان کو جہاد قرار دیا گیا ہے ،
اور قلم سے لکھنا بھی زبان سے بولنے کے قائم مقام ہونے کے سبب اسی حکم میں ہے ۔

جہاد کے لئے مال خرچ کرنے کا ثواب عظیم 

حدیث نمبر 25 :۔عن حزیم بن فائتک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من انفق نفقۃً فی سبیل اللہ کتب لہ بسبع مائۃ ضعف ۔ (الترمذی والنسائی )

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں کچھ مال خرچ کرتا ہے تو سات سو گنا لکھا جاتا ہے ۔ یعنی ایک روپیہ خرچ کرے تو سات سو روپیہ خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ 
حدیث نمبر 26 :۔ وعن ابی الدرداء وابی ھریرہ وابی امامہ وعبد اللہ بن عمر وجابر بن عبد اللہ وعمران بن حصین رضی اللہ عنہ (عنہم) کلھم یحدث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال من ارسل نفقۃ فی سبیل اللہ واقام فی بیتہ فلہ بکل درھم سبع مائۃ درھم ومن غزا بنفسہ فی سبیل اللہ وانفق فی وجھہ ذٰلک فلہ بکل درھم سبع مائۃ الف درھم (ابن ماجہ)
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جہاد کے لیے کچھ مال خرچ کیا مگر خود جہاد میں نہیں گیا اس کو ایک درہم پر سات سو درہم کے برابر ثواب ملے گا اور جس نے خود جہاد بھی کیا اور اس میں اپنا مال بھی خرچ کیا تو اس کے ایک درہم کا ثواب سات لاکھ درہم کے برابر ہوگا ۔ 
حدیث نمبر 27 :۔ عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (عنہم) سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ای الصدقۃ افضل قال اخدام عبد فی سبیل اللہ او اظلال فسطاط فی سبیل اللہ (ترمذی)

ترجمہ:۔ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ سب سے افضل صدقہ کونسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد کے لیے کو ئی غلام دے دینا یا مجاہدین پر سایہ کرنے کے لیے کوئی خیمہ بطورِ عاریت کے دے دے۔

ہندوستان پر جہاد کی خاص اہمیّت اور فضائِل
حدیث نمبر28: عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال وعدنا النبی صلی اللہ علیہ وسلم عزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی ومالی فان قتلت کنت افضل الشہداء وان رجعت فانا ابوھریرۃ المحرر (نسائی)
ترجمہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ہندوستان کے جہاد کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اگر میں نے اپنی زندگی میں اس کو پا لیا تواپنا سارا زور اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا، پھر اگر میں قتل کردیا گیا تو افضل الشہداء ہو جاؤں گا اور اگر زندہ لوٹا تو میں جہنم سے آزاد ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) ہوں گا۔
فائدہ: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) کے بیان سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کے جہاد میں شریک ہونے والوں کے لیے یہ عظیم الشان خوشخبری دی ہے کہ جو شخص اس جہاد میں شریک ہو جائیگا وہ افضل الشہداء ہوگا اور جو زندہ واپس آجائےگا وہ عذاب الہی سےآزاد قراردیا جائےگا۔
ہندوستان کے جہاد کی خاص فضیلت کا بیان جیسے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) کی اس حدیث میں ہے اسی طرح ایک دوسری حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا متن یہ ہے:

حدیث نمبر29:و عن ثوبان رفعہ عصابتان من امتی اجارھم اللہ من النار عصابۃ الغزوۃ الہند و عصابۃ تکون مع عیسٰی ابن مریم( اوسط، طبرانی) 

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو جماعتیں میری امت میں ایسی ہیں جن کے لیے اللہ تعالٰی نے جہنّم سے نجاد لکھ دی ہے۔ ایک وہ جماعت جو ہندوستان پر جہاد کرےگی۔دوسری وہ جماعت جو آخر زمانہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نازل ہونے کے بعد ان کے ساتھ ہوگی۔

ہندوستان کے جہاد سے کونسا جہادمراد ہے ؟ 
ان دونوں حدیثوں میں جو فضائل غزوہ ہند کے ارشاد فرمائے گئے ہیں اس میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان پر جہاد تو پہلی صدی ہجری سے لیکر آج تک محتلف زمانوں میں ہوتے رہیں ہیں، اور سب سے پہلا سندھ کی طرف سے محمد بن قاسم کا جہادہے جس میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور اکثر تابعیں کی شرکت نقل کی جاتی ہے۔ تو کیا اس مراد پہلا جہاد ہے یا جتنے جہاد ہوچکے ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب اس میں شامل ہے؟

الفاظ حدیث میں غور کرنے سے حاصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث عام ہیں۔ اس کو کسی خاص جہاد کے ساتھ مخصوص و مقیّدکرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے جتنے جہاد ہندوستان میں محتلف زمانوں میں ہوتے رہے وہ بھی اور پاکستان کا حالیہ جہاد بھی اور آئندہ جو جہاد ہندوستان کے کفار کے خلاف ہوگا وہ سب اس عظیم الشان بشارت میں شامل ہیں۔
والله سبحانہ و تعالی اعلم 

ترک جہاد کی وعید اور دنیا میں اس کا وبال 

حدیث نمبر 30 :۔عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من مات ولم یغزو لم یحدث بہ نفسہ مات علےٰ شعبۃ من النفاق (رواہ مسلم )

ترجمہ :۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ اپنے دل ہی میں جہاد کا ارادہ کیا وہ ایک قسم کی نفاق پر مرے گا ۔
حدیث نمبر 31 :۔ وعن ابی امامۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من لم یغزو او یجھز غاز یا او یخلف غاز یانی اھلہ بخیر اصابہ اللہ بقارعۃ قبل القیامہ (رواہ ابوداؤد )
ترجمہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نہ کبھی جہاد کیا ، نہ کسی مجاہد کو سامانِ جہاد دیا ، اور نہ کبھی کسی مجاہدِ فی سبیل اللہ کی یہ خدمت انجام دی کہ اس کے اہل وعیال کی نگرانی بلا کسی غرضِ دنیوی کے پوری طرح کی تو قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالٰی اس پر عذاب نازل فرمائیں گے ۔
ترکِ جہاد مصائب کو دعوت دینا ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جہاد میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور لے۔ اگر محاذ پرجا کر لڑنے کی قوت و قدرت نہیں تو مجاہدین کو سامان فر ہم کرنے میں حصہ لے ، اور یہ بھی نہ ہوسکے تو مجاہدین کے اہل وعیال کی خدمت خالص اللہ کے لیے دنیوی اغراض سے پاک ہوکر کرے اور جو لوگ جہاد کے کسی کام میں حصہ نہ لیں وہ خدا کے عذاب اور مصا ئب کو دعوت دیتے ہیں 
کچھ عجب نہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کو جو اللہ تعالٰی نے جہاد میں حصہ لینے کایہ موقع عطا فرمایا ہے ،اگر ہم اس کی اہمیت کو محسوس کر کے آگے بھی جہاد کی تیاری کو نہ چھوڑیں تو ہم پر جو آفات ومصائب طوفانوں اور دوسرے صورتوں سے آئے دن مسلط رہتے ہیں اس کی برکت سے اللہ تعالٰی پورے پاکستان کو ان سے نجات عطا فرمائیں ۔
حدیث نمبر 32 :۔ وعن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لقی اللہ اثر من جہاد لقی اللہ وفیہ ثلمۃ ( رواہ الترمذی وابن ماجہ )
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قیامت کے روز اللہ کے سامنے اس طرح حا ضر ہوگا کہ اس کے بدن پر کوئی نشان جہاد کا نہ ہو تو وہ ایک عیب کے ساتھ اللہ سے ملے گا ۔ 
جہاد کے لیےاسلحہ اور جنگی سامان بنانا اور مہیا کرنا بھی جہاد ہے
حدیث نمبر 33 :۔ عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو علی المنبر یقول واعدّ وا لھم ما استطعتم من قوۃ الاان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی ۔ (رواہ مسلم ) 
ترجمہ:۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے پایا کہ قرآنِ کریم کی آیت میں جو مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلے کے لیے قوت بہم پہنچانے کا حکم ہے ، یہ قوت تیر اندازی ہے ۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ مکرر کرکے فرمائی ۔ 
فائدہ:۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چونکہ جنگ ہی تیر اور تلوارکی تھی اس لیے تیر اندازی اور نشانہ کی مشق واستعداد ہی کو قوت فرمایا ۔ مگر اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب جنگ توپوں اور بموں کی ہو توان کے استعمال کے طر یقے ہی جنگی قوت قرار دئیے جائیں گے اور حکم قرآنی کی تعمیل انھی طاقتوں کی فراہمی سے ہوگی۔

حدیث نمبر 34 :۔ عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احتبس فرساً فی سبیل اللہ ایمانا باللہ وتصدیقا بوعدہ فان شبعہ وریہ وروثہ وبولہ فہ المیزان یومالقیامہ ۔ (رواہ البخاری) 

ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کی راہ میں کوئی گھوڑا جہاد کے لیے وقف کردیا اللہ پر ایمان اور اس سے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے ، تو اس گھوڑے کا کھانا پینا ، لیداور پیشاب کرنا سب کا ثواب قیامت کے دن اس کی میزانِ عمل میں رکھا جائے گا ۔ 
حدیث نمبر 35 :۔عن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ (عنہم) قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اللہ یدخل بالسھم الواحد ثلث نفرفی الجنۃ صانعہ یحتسب فی صنعتہ الخیر والرامی بہ ومنبلہ فارمواوارکبو او ان ترمو ااحب الی من ان ترکبوا (ترمذی)
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ایک تیر کی خاطر تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا ۔ اول اس کا بہ نیت ثواب وجہاد بنانے والا، دوسرا اس کو جہاد میں استعمال کرنے والا، تیسرا اس کی نوک اور بھال کو درست کرنے والا۔ اس لیے تیر اندازی کیا کرو اور گھوڑے کی سواری کی مشق کرو، اور میرے نزدیک تیر اندازی کی مشق گھوڑے کی سواری کی مشق سے زیادہ بہتر ہے ۔ 
کسی غازی کو جہادکے لیے سامان دینا یا
اس کے گھر کی خبر گیری
کرنا بھی جہادہے
حدیث نمبر 36 :۔ عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (عنہم) وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للغازی اجرہ وللجاعل اجرہ واجرالغازی۔ (رواہ ابو داؤد) 
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غازی کو تو اس کے غزوہ اور جہاد کا ثواب ملتاہےاور جس شخص نے اس کو مال دےکر جہاد کے لیے بھیجا ہے ، اس کو اپنے مال کا ثواب بھی ملے گا اور غازی کے عمل کا بھی ۔
دفاعی فنڈمیں چندہ کا ثوابِ عظیم
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کرنے والے فو جیوں کی تنخواہ یا دوسرے سامان کے لیے مال خرچ کرنے والے بھی ان مجاہدین کے جہاد کا ثواب پاویں گے ۔ 
حدیث نمبر 37:۔ وعن زید بن رضی اللہ عنہ (عنہم) خالد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من جھّز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزی ومن خلف غازیا فی اھلہ فقد غزی ۔(بخاری و مسلم )
ترجمہ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی غازی کو جہاد کا سامان دے دیا اس نے بھی جہاد کیا اور جو شخص کسی غازی کے گھر والوں کی نگرانی اور خبر گیری میں لگا رہا اس نے بھی جہاد کر لیا ۔ 
جہاد سے ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے مگر قرض اور
امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی 
حدیث نمبر 38 :۔وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ (عنہم) القتل فی سبیل اللہ یکفر الذنوب کلھا الامانۃ والامانۃ فی الصلوۃ والصوم والا مانۃ فی الحدیث واشد ذٰلک الوداع (کبیر طبرانی )
ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا سب گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے مگر امانت میں خیانت معاف نہیں ہوتی ، پھر فرمایا کہ صرف مال ہی میں نہیں بلکہ نماز ، روزے اور کلام میں بھی ہے ۔ البتہ ان سب میں زیادہ سخت وہ امانت ِ اموال ہے جو کسی کے سپرد کی گئی ہو۔ 
حدیث نمبر 39 :۔عن عبد اللہ بن عمربن العاص ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال القتل فی سبیل اللہ یکفر کل شی الاالدین ۔
ترجمہ:۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں مگر جو کسی کاقرض اس کے ذمہ ہے وہ معاف نہیں ہوتا (اس کو یا خود ادا کرے یا وصیت ادا کرنے کی کسی معتمد کو کردے )۔

بحری فوج کے لیے عظیم سعادت !
حدیث نمبر 40 :۔عن انس رضی اللہ عنہ (عنہم) قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من حرس لیلۃ علی ساحل البحر کان افضل من عبادۃ فی اھلہ الف سنۃ (رواہ الموصلی بلین) 
ترجمہ:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک رات سمندر کے کنارے پر پہرہ دے تو اس کا یہ عمل اپنے گھر میں ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے ۔

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں