سورة الشمس کی فضیلت

 ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( مجھے سورۃ ھود ، اور الواقعۃ اور مرسلات اور عم یتساءلون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3297 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو سلسلۃ احادیث الصحیحۃ میں صحیح کہا ہے حدیث نمبر ( 955 ) ۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم نے «سبح اسم ربك الأعلى» اور «والشمس وضحاها» اور «والليل إذا يغشى» کے ساتھ امامت کیوں نہ کرائی؟ 

یہ ان سے اس وقت کہا گیا جب حضرت معاذ نے عشاء کی نماز میں سورة بقرہ پڑھائی جس کی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی۔

 [سنن ابن ماجہ:836،قال الشيخ الألباني:صحیح]


 ‏‏‏‏ سورج کو عربی میں شمس کہتے ہیں  اور اس سورت کی پہلی آیت میں  سورج کی قسم ارشاد فرمائی گئی اس مناسبت سے اسے’’ سورۂ شمس ‘‘کہتے ہیں ۔ 


سورۂ شمس سے متعلق اَحادیث: 

( 1 )… حضرت بریدہ   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں :حضور پُر نور   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  عشاء کی نماز میں     ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘  اور ا س کے مشابہ سورتیں  پڑھا کرتے تھے۔ (  ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی القراء ۃ فی صلاۃ العشائ،  ۱  /  ۳۳۳ ، الحدیث:  ۳۰۹ ) 

( 2 )… حضرت جابر بن سمرہ   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں   :حضورِ اَقدس   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے انہیں  فجر کی نماز پڑھائی تو اس میں   ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘  اور  ’’ وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ‘‘  کی تلاوت فرمائی۔ (  معجم الکبیر، شریک بن عبد اللّٰہ النخعی عن سماک،  ۲  /  ۲۳۱ ، الحدیث:  ۱۹۵۸ ) 

کلمہ طیبہ

 کلمہ طیبہ

کلمہ طیبہ کا مقصد یہ ہے کہ چار لائن کا یقین ہمارے دل کے اندر آجائے .

لاالہ الا اللہ سے دو باتوں کا یقین اور محمدرسول اللہ سے دو باتوں کا یقین .

*لَا الٰہ الا الله سے دو باتوں کا یقین*

1) *لَا اِلٰہ* ۔۔۔۔  یعنی زمین سے لیکر آسمان تک جتنی چیزیں ہیں وہ سب اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں 

2) *الّا الله* ۔۔۔۔  يعنی اللہ تعالی ان ساری چیزوں کے بغیر سب کچھ کرسکتے ہیں. 

*محمدٌ رّسول الله*

3) اگر ہماری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے موجود ہوں دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجائیں گے.

4) اگر ہماری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں برباد ہوجائینگے.

*فضائل*

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے ۔۔۔۔کہ جو بھی بندہ کسی وقت بھی دن میں یا رات میں

 "لا الہ الا اللہ" کہتا ہے تو اعمال نامہ میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں اور انکی جگہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں.

(رواہ ابو یعلیٰ)

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے۔۔۔۔ کہ"  لا الہ الا اللہ " پر پکا یقین رکھنے والوں پر نہ قبروں میں وحشت ہوگی نہ میدان محشر میں. اسوقت گویا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ جب وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے قبروں سے اٹھیں گے. اور کہیں گے کہ تمام تعریف اس اللہ کے لیئے ہے جس نے ہم سے ہمیشہ کے لیئے رنج و غم کو دور کر دیا۔۔۔

 (طبرانی)

 کلمہ طیبہ کا یقین حاصل کرنے کا طریقہ:

 کلمہ کا یقین حاصل کرنے کے لیئے چار باتوں  کی مشق کی جائے .

1) اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سفر و حضر میں کلمہ کی خوب دعوت دی  جائے. اس سے دوسرے کو  دعوت کا فرض ساقط ہوگا اور آپکی اصلاح ہو جائیگی.

2) تعلیم و تعلم کے حلقوں میں بیٹھ کر غور وعظمت سے سنا جائے.

3) خدا کی قدرت پر غور کیا جائے .

 یعنی یہ آسمان بغیر ستنوں کے کیسے کھڑا ہو گیا, بادل سے بارش کیسے برستی ہے, زمین سے غلہ کیسے اگتا ہے , زندہ مرغی سے مردہ انڈہ کا پیدا ہونا پھر اس سے زندہ مرغی کا تخلیق ہونا غرضیکہ کائنات کا ذرہ ذرہ کس کا محتاج ہے؟؟؟ ہر چیز صرف میرے اور آپکے مالک اللہ وحدہ لا شریک کے حکم کی محتاج ہے.

4) رو رو کر اللہ پاک سے کلمہ طیبہ کا یقین و استقامت مانگی جائے. اگر کلمہ ہماری نس نس میں سرایت کرگیا تو ہماری دنیا و آخرت کامیاب ورنہ دنیا متاع غرور یعنی دھوکہ کا گھر ہے.

اللہ کریم  ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور کلمہ طیبہ ہماری شریانوں میں خون کے ساتھ سرایت کر جائے.

 آمین ثم آمین 

الھم تقبل منّا  ...

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین.

سورة البلد: co.

 #سُوْرَةُالبلد

#کلاس نمبر ٢٧

#زرین. رفیق


آج ہم قرآن پاک کی سورت "سُوْرَةُ البلد " کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے لگے ہیں الحمد للہ۔ اللہ پاک اس سورۃ کے تمام الفاظ کو ہمیں سمجھنے اور سمجھانے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین


🌷🌷اَعُوْذُ بِاللّٰه مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم🌷🌷


🌠🌠🌠شان نزول🌠🌠🌠

اس سورت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک شخص کلدہ بن اسید نامی پہلوان تھا. ابالاسد اسکی کنیت تھی. یہ شخص بڑا قوی زور آور تھا اسکی قوت کا یہ عالم تھا کہ گائے کا عکاظی چمڑا یا اونٹ کا چمڑا اپنے پیر کے نیچے دبالیتا اور لوگوں سے کہتا اسکو کھینچو! لوگ کھینچتے تو وہ چمڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا مگر اسکے پیر کے نیچے سے نہ نکلتا. جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسکو اسلام کی دعوت دی اور اُخروی عذابوں سے ڈرایا تو وہ کافر ایمان نہ لایا اور سخت کلامی ہر اتر آیا.  کہا کہ آپ مجھے دوزخ کے ان فرشتوں سے ڈراتے ہیں جن کی تعداد بس

( ١٩)انیس ہے. میں تو انکو بائیں ہاتھ سے دھکیل دونگا. ایسا کون ہے جو میرا مقابلہ کرسکے؟ 

آپ مجھکو ایک باغ (جنت) کا لالچ دیتے ہیں. میں نے شادیوں میں اور دعوتوں میں اتنا کثیر مال خرچ کردیا ہے اگر آپ حساب لگائیں تو وہ آپکے اس باغ, سروسامان, نہروں اور درختوں سے بہت زائد ہے. اسکی ان گستاخانہ باتوں کے جواب میں اللہ نے یہ سورت نازل فرمائی.


🌷🌷بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ o🌷🌷


🌠🌠آیت ١🌠🌠


🌠🌠ﻻَٓ ﺃُﻗْﺴِﻢُ ﺑِﻬَٰﺬَا ٱﻟْﺒَﻠَﺪ°


ترجمہ🌠🌠 قسم کھاتا ہوں میں اس شہر (مکہ) کی. 


🌠🌠تفسیر🌠🌠

حرف لا اس جگہ زائد ہے. اور قسموں میں یہ حرف زائد لانا عرب کے محاورہ میں معروف ہے. اور یہ حرف لا مخاطب کے باطل خیال کی تردید کے لئے شروع قسم میں لایا جاتا ہے. جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو تم نے خیال باندھ رکھا ہے وہ نہیں بلکہ ہم قسم کے ساتھ کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں

🌠اور البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے 🌠


شہر مکہ کی کی قسم کھانا  اس شہر کی بہ نسبت دوسرے شہروں کے شرافت و افضلیت کو بتلانا ہے.  حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہجرت کے وقت شہر مکہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ (خدا کی قسم  ہے کہ تو ساری زمین میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے اور اگر مجھکو یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں تیری زمین سے نہ نکلتا ).


🌠🌠آیت٢


🌠🌠ﻭَﺃَﻧﺖَ ﺣِﻞٌّۢ ﺑِﻬَٰﺬَا ٱﻟْﺒَﻠَﺪ°


ترجمہ🌠🌠. اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو. 


🌠تفسیر🌠

حلٌّ میں دو احتمال ہیں


🌟  ١  .جس کے معنی کسی شیء کے اندر سمانے اور رہنے اور اترنے کے آتے ہیں. اس اعتبار سے حلّ کے معنی اترنے والے اور رہنے والے کے ہونگے. 

🌟اور  مراد آیت کی یہ ہوگی کہ شہر مکہ  خود بھی محترم اور مقدس  ہے خصوصاًً جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس شہر میں رہتے ہیں. اسلئے شہر کی عظمت و حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسمیں مقیم ہونے سے دوہری ہوگئی. 


🌟٢دوسرا احتمال یہ ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونے کے ہیں. اس اعتبا ر سے لفظ حل کے دو معنی ہوسکتے ہیں. 

1⃣.ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ نے حلال سمجھ رکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے ہیں  حالانکہ وہ خود بھی شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے تھے  وہاں انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا قتل و خون حلال سمجھ لیا ہے. 

2⃣.دو سرے معنی حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیلئے حرم مکہ میں قتال کفار حلال ہونے والا ہے جیسا کہ فتح مکہ میں ایک روز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے احکام حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا. 

آیت کے الفاظ میں تینوں معنی کی گنجائش ہے


🌟🌟آیت٣


🌠🌠ﻭَﻭَاﻟِﺪٍ ﻭَﻣَﺎ ﻭَﻟَﺪَ°


ترجمہ🌠🌠اور باپ (یعنی آدم) اور اس کی اولاد کی قسم. 


✨تفسیر✨

والد سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں جو سب انسانوں کے باپ ہیں. 

اور مَا وَلَدَ سے انکی اولاد مراد ہے جو ابتداء دنیا سے قیامت تک ہوگی. اس طرح اس لفظ میں حضرت آدم علیہ السلام اور تمام بنی آدم کی قسم ہوگئی. 


✨آگے جواب قسم مذکور ہے✨


🌟آیت ٤


🌠🌠ﻟَﻘَﺪْ ﺧَﻠَﻘْﻨَﺎ ٱﻹِْﻧﺴَٰﻦَ ﻓِﻰ ﻛَﺒَﺪٍ°


ترجمہ🌠🌠کہ ہم نے انسان کو تکلیف (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے


🌠تفسیر🌠

کَبَد کے لفظی معنی محنت و مشقت کے ہیں. معنی یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمر سے آخر تک محنتوں مشقتوں میں رہتا ہے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابتدائے حمل سے رحم مادر میں محبوس رہا, پھر ولادت کے وقت کی مشقت پھر ماں کا دعدھ پینے پھت اسکو چوسنے کی محنت پھر اپنے معاش اور ضروریات  زندگی فراہم کرنے کی مشقت پھر بڑھاپے کی تکلیفیں پھر موت پھر قبر,  پھر حشر اور اسمیں اللہ تعالی کے سامنے جوا بدہی پھر جزاء و سزا, یہ سب دور اس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں.

دوسرے اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے. 

نعض علما ء فرماتے ہیں کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے. 

✨✨دنیا میں مکمل راحت جس میں کوئی تکلیف نہیں ہو کسی کو حاصل  نہیں ہو سکتی اسلئے انسان کو چا ہیئے کہ مشقت کیلئے تیار رہے✨✨

🌟اس قسم اور جواب قسم میں انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری جو یہ خواہش ہے کہ دنیامیں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے کسی تکلیف سے واسطہ نہ پڑے یہ خیال غلط ہے اسلیئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو دنیا میں محنت و مشقت پیش نہ آئے. 

✨✨آگے  غافل اورآخرت کے منکر انسان کی چند جاہلانہ خصلتوں کا ذکر آرہا ہے✨✨


🌠آیت ٥🌠

🌠🌠 ﺃَﻳَﺤْﺴَﺐُ ﺃَﻥ ﻟَّﻦ ﻳَﻘْﺪِﺭَ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﺃَﺣَﺪٌ°


🌠🌠کیا وہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا. 


🌠آیت ٦🌠

🌠🌠 ﻳَﻘُﻮﻝُ ﺃَﻫْﻠَﻜْﺖُ ﻣَﺎﻻً ﻟُّﺒَﺪًا°


ترجمہ🌠🌠کہتا ہے کہ میں نے بہت سا مال برباد کیا


🌠تفسیر🌠

کافر انسان کی یہ حالت ہے کہ بالکل بھول میں پڑا ہے تو کیا؟  وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کہ اسپر کسی کا بس نہیں چلے گا.  یعنی اللہ کی قدرت سے اپنے آپ کو خارج سمجھتا ہے جو اس قدر بھول میں پڑا ہے. اور کہتا ہے کہ میں نے اتنا زیادہ مال خرچ کر ڈالا. یعنی ایک تو شیخی بھگارتا ہے پہر عداوت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  و مخالفت اسلام و معاصی میں خرچ کرنے کو ہنر سمجھتا ہے پھر جھوٹ بھی بولتا ہے 

کہ اسکو مال کثیر بتلاتا ہے. کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسکو کسی نے نہیں دیکھا نہیں یعنی اللہ نے تو دیکھا ہے اور جانتا ہے پس اسپر سزا دےگا. مزید وضاحت اس سورت کےشان نزول سے سمجھ آجائے گی. 


🌟آیت ٧🌟

 

🌠🌠 ﺃَﻳَﺤْﺴَﺐُ ﺃَﻥ ﻟَّﻢْ ﻳَﺮَﻩُۥٓ ﺃَﺣَﺪٌ°


ترجمہ 🌠🌠کیا اسے یہ گمان ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں.


🌠🌠تفسیر🌠🌠

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بیوقوف یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اعمال بد کو کسی نے دیکھا نہیں اسکو جاننا چاہیئےکہ اسکا خالق اسکے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے. 


🌟آیت٨🌟


🌟🌟 ﺃَﻟَﻢْ ﻧَﺠْﻌَﻞ ﻟَّﻪُۥ ﻋَﻴْﻨَﻴْﻦِ°


ترجمہ🌠🌠بھلا ہم نےاس کو دو آنکھیں نہیں دیں؟


🌠آیت ٩🌠


🌠🌠ﻭَﻟِﺴَﺎﻧًﺎ ﻭَﺷَﻔَﺘَﻴْﻦِ°


ترجمہ🌠🌠اور زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیئے).


🌠تفسیر🌠


ان دو آیات میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہے. ان میں 1⃣پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے, نازک رگیں انمیں قدرتی روشنی, پھر آنکھ کی وضع و ہئیت کہ یہ نازک ترین عضو ہے, اسکی حفاظت کا کیا سامان خود اسکی خلقت میں کیا گیا ہے ,ان پردوں کے اوپر بال کھڑے کردیئے کہ گرد وغبار کو روک لیں, اسکے اوپر بھووں کے بال رکھے کہ اوپر سے آنے والی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہنچے.

2⃣ دوسری چیز زبان ہے اسکی عجیب و غریب تخلیق اور دل کی باتوں کی ترجمانی جو پر اسرار اور خود کا مشین کے ذریعہ ہوتی ہے .اسکے حیرت انگیز طریقہ کار کو دیکھو کہ دل  میں ایک مضمون آیا دماغ نے اسپر غور کیا اسکے لئے عنوان اور الفاظ تیار کئے وہ الفاظ اس زبان کی مشین سے نکلنے لگے. یہ اتنا بڑا کام کیسی سرعت کیساتھ ہورہا ہے کہ سنے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوسکتا کہ ان الفاظ کے زبان پر آنے میں اسکے پیچھے کتنی مشینری نے کام کیا ہے تب یہ کلمات زبان پر آئے ہیں. 

3⃣تیسری زبان کے ساتھ شفتین یعنی ہونٹوں کا ذکر اسلئے بھی فرمایا کہ زبان کے کام میں ہونٹ بڑے مددگار ہیں.آواز و حروف کی ممتاز شکلیں وہی بناتے ہیں. اور اسی لئے بھی قدرت نے زبان کو ایسی مشین بنایا ہے کہ

 آدھ منٹ میں اس سے ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اسکو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچادے جیسے کلمہء ایمان. 

یا دنیا میں دشمن کی نظر میں بھی اسکو محبوب بنادے جیسے پچھلے قصور کی معافی. 

اور اسی زبان سے اتنے ہی وقفہ میں ایساکلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اسکو جہنم میں پہنچادے جیسے کلمہ ء کفر. 

اللہ تعالی نے اس تلوار کو دو ہونٹوں کے غلاف میں مستور  کرکے عطا فرمایا  اور جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اسطرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اسکو روکنے بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں اسلئے اسکے استعمال میں سوچ سمجھ سے کام لے, بے موقع اسکو ہونٹوں کی میان سے نہ نکالے.


🌟آیت ١٠🌟

🌠🌠ﻭَﻫَﺪَﻳْﻨَٰﻪُ ٱﻟﻨَّﺠْﺪَﻳْﻦِ°


🌟ترجمہ🌟

(یہ چیزیں بھی دیں) اور اس کو (خیر و شر کے) دونوں رستے بھی دکھا دیئے. 


🌠تفسیر🌠

نجدین کے لفظی معنی اس راستے کے ہیں جو اوپر بلندی کیطرف جاتا ہو. مراد اس سے کھلا واضح راستہ ہے اور ان دو راستوں میں ایک خیر و فلاح کا اور دوسرا شر اور ہلاکت کا راستہ ہے. یعنی اللہ نے انسان کو خیر و شر اور بھلے برے کی پہچان کے لئے ایک استعداد اور مادہ خود اسکے وجود میں رکھدیا ہے. جیسا قرآن کریم نے فرمایا فَاَلْهَمَهَا فُجُرَهَا وَ تَقْوٰها َیعنی نفس انسانی کے اندر اللہ تعالی نے فجور اور تقوے دونوں کے مادے  رکھدیئے ہیں تو اسطرح ایک ابتدائی ہدایت انسان کو خود اسکے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تاکید کے لئے انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں. 

خلاصہ یہ ہے کہ جاہل اور غافل انسان قدرت حق کے منکر ذرا اپنے ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں غور کرے تو قدرت و حکمت حق کے کمال کا مشاہدہ ہو جائیگا. آنکھوں سے دیکھو پھر زبان سے اقرار کرو.پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو.


🌠🌠آیت ١١

🌠🌠ﻓَﻼَ ٱﻗْﺘَﺤَﻢَ ٱﻟْﻌَﻘَﺒَﺔَ°

ترجمہ🌠🌠مگر وہ گھاٹی پر سے ہو کر نہ گزرا. 


 

🌠🌠 آیت ١٢

🌠🌠 ﻭَﻣَﺎٓ ﺃَﺩْﺭَﻯٰﻙَ ﻣَﺎ ٱﻟْﻌَﻘَﺒَﺔُ°

ترجمہ🌠🌠اور تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا ہے؟


🌠🌠آیت ١٣

🌠🌠 ﻓَﻚُّ ﺭَﻗَﺒَﺔٍ°

ترجمہ🌠🌠کسی (کی) گردن کا چھڑانا


 🌠🌠آیت ١٤

🌠🌠ﺃَﻭْ ﺇِﻃْﻌَٰﻢٌ ﻓِﻰ ﻳَﻮْﻡٍ ﺫِﻯ ﻣَﺴْﻐَﺒَﺔٍ°

ترجمہ🌠🌠یا بھوک کے دن کھانا کھلانا


 🌠🌠آیت ١٥

🌠🌠ﻳَﺘِﻴﻤًﺎ ﺫَا ﻣَﻘْﺮَﺑَﺔٍ°

ترجمہ🌠🌠یتیم رشتہ دار کو


🌠🌠آیت ١٦

🌠🌠 ﺃَﻭْ ﻣِﺴْﻜِﻴﻨًﺎ ﺫَا ﻣَﺘْﺮَﺑَﺔٍ°

ترجمہ🌠🌠یا فقیر خاکسار کو. 


🌠تفسیر🌠

عقبہ پہاڑ کی بڑی چٹان کو بھی کہتے ہیں اور دو پہاڑ وں کے درمیانی راستے کو یعنی گھاٹی کو بھی,  اور دشمن سے نجات حاصل کرنے میں یہ عقبہ انسان کی مدد کرتا ہے کہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر دشمن سے اپنے کو بچالے یا پھر گھاٹی میں داخل ہو کر یہاں سے نکل جائے. اس جگہ طاعات و عبادات کو ایک عقبہ سے تعبیر فرمایا ہے کہ جس طرح عقبہ دشمن سے نجات دلانے کا  سبب ہوتا ہے. اعمال صالحہ  آخرت کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بنتےہیں. پھر ان اعمال صالحہ میں1⃣ پہلے🌠 ﻓَﻚُّ ﺭَﻗَﺒَﺔٍ🌠فرمایا, یعنی کسی غلام کو آزاد کرنا کہ بہت بڑی عبادت اور ایک انسان کی زندگی کو بنا دینا ہے. 

2⃣دوسری چیز ★🌠 ﺃَﻭْ ﺇِﻃْﻌَٰﻢ🌠 ★بیان فرمائی کہ بھوکے کو کھانا کھلانا بہت بڑا ثواب ہے اور کھانا کھلانا کسی کو بھی ہو ثواب سے خالی نہیں مگر بعض کو کھلانا بہت بڑا ثواب بن جاتا ہے. اسی لئے اس بڑے ثواب کو حاصل کرنے کیلئے فرمایا.,


★🌷 ﻳَﺘِﻴﻤًﺎ ﺫَا ﻣَﻘْﺮَﺑَﺔٍ°  ﺃَﻭْ ﻣِﺴْﻜِﻴﻨًﺎ ﺫَا ﻣَﺘْﺮَﺑَﺔٍ°🌷★

یعنی خصوصاً جب کھانا کسی ایسے یتیم کو کھلایا جائے جس کے ساتھ تمھاری قرابت و رشتہ داری بھی ہو تو اسمیں دوہرا ثواب ہوگیا.ایک بھکے کا پیٹ بھرنا  دوسرے رشتہ دار کی صلہ رحمی اور اسکا حق ادا کرنا. 


🌷★ٌ ﻓِﻰ ﻳَﻮْﻡٍ ﺫِﻯ ﻣَﺴْﻐَﺒَﺔٍ★🌷

یعنی باخصوص ایسے دن میں اسکو کھانا کھلانا جس میں وہ بھوکا ہو اور بھی زیادہ موجب ثواب ہے. اسی طرح یتیم رشتہ دار نہ ہو تو ایسا مسکین ہو جس کی مسکنت نے اسکو خاک نشین نبا رکھا ہے. مراد بہت زیادہ مفلس و محتاج ہے, اور جس پر خرچ کیا جائے وہ جتنا زیادہ محتاج ہوگا اتنا ہی خرچ کرنے والے کا ثواب بڑھے گا.


🌠🌠آیت ١٧

🌠🌠ﺛُﻢَّ ﻛَﺎﻥَ ﻣِﻦَ ٱﻟَّﺬِﻳﻦَ ءَاﻣَﻨُﻮا۟ ﻭَﺗَﻮَاﺻَﻮْا۟ ﺑِﭑﻟﺼَّﺒْﺮِ ﻭَﺗَﻮَاﺻَﻮْا۟ ﺑِﭑﻟْﻤَﺮْﺣَﻤَﺔِ°


🌠تفسیر🌠

پھر ان لوگوں میں بھی (داخل) ہو جو ایمان لائے اور صبر کی نصیحت اور (لوگوں پر) شفقت کرنے کی وصیت کرتے رہے. 

🌠🌠اس آیت میں ایمان کے بعد مومن کا یہ فرض بتلایا گیا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرتا رہے.


 🌷🌷صبر سے مراد🌷🌷

نفس کو برائیوں سے روکنا  اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے. 

 🌷🌷مرحمت سے مراد 🌷🌷

دوسروں کے حال پر رحم کھانا, انکی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا., اس میں تقریبا دین کے سارے ہی احکام آگئے.


🌠🌠آیت ١٨


🌠🌠 ﺃُﻭ۟ﻟَٰٓﺌِﻚَ ﺃَﺻْﺤَٰﺐُ ٱﻟْﻤَﻴْﻤَﻨَﺔِ°


🌠تفسیر🌠

یعنی جن لوگوں میں اوپر ذکر کی گئیں اوصاف حمیدہ ہیں وہ یمن و برکت والے ہیں. کیونکہ انکی تاکید صبر و تلقین مرحمت کا فیض انکج حیات میں اور وفات کے بعد بندگان خدا کو برابر پہنچتا رہے گا. بعض علماء نے میمنہ کا مطلب داہنی جانب یعنی داہنا ہاتھ بتایا ہے. اس صورت میں اسکے معنی اصحاب الیمین کے ہونگے. 

یہی لوگ صاحب سعادت ہیں


🌠🌠آیت ١٩

🌠🌠 ﻭَٱﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﻔَﺮُﻭا۟ ﺑِـَٔﺎﻳَٰﺘِﻨَﺎ ﻫُﻢْ ﺃَﺻْﺤَٰﺐُ ٱﻟْﻤَﺸْـَٔﻤَﺔِ°


ترجمہ🌠🌠اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا وہ بدبخت ہیں. 


🌠تفسیر🌠

اسی طرح مشئمہ کے بھی دونوں معنی ہیں منحوس اور نامبارک. اور شمال, بایاں,. 

مومنین کے مقابلے میں کفار کو, 

اہل برکت کے مقابلے میں اہل نحوست کو, 

اور اصحاب الیمین کے مقابلے میں اصحاب الشمال, 

کو ذکر کرنے سے کلام میں اعتدال کی ایک خاص شان پیدا ہوجاتی ہے. 


🌠🌠آیت ٢٠

🌠🌠ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻧَﺎﺭٌ ﻣُّﺆْﺻَﺪَﺓٌۢ°


ترجمہ🌠🌠یہ لوگ آگ میں بند کر دیئے جائیں گے.


🌠تفسیر🌠

اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا ، اور سر بند تہہ بہ تہہ آگ میں جائیں گے ، جس سے نہ کبھی چھٹکارا ملے گا نہ نجات نہ راحت نہ آرام ، اس آگ کے دروازے ان پر بند رہیں گے .حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں روشنی ہو گی نہ سوراخ ہو گا نہ کبھی وہاں سے نکلنا ملے گا ، حضرت ابو عمران جوئی فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا اللہ حکم دے گا اور ہر سرکش کو، ہر ایک شیطان کو اور ہر اس شخص کو جس کی شرارت سے لوگ دنیا میں ڈرتے رہتے تھے ۔ لوہے کی زنجیروں سے مضبوط باندھ دیا جائے گا، پھر جہنم میں جھونک دیا جائے گا پھر جہنم بند کر دی جائے گی ۔ اللہ کی قسم کبھی ان کے قدم ٹکیں گے ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی آسمان کی صورت ہی دکھائی نہ دے گی اللہ کی قسم کبھی آرام سے ان کی آنکھ لگے گی ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی کوئی مزے کی چیز کھانے پینے کو ملے گی ہی نہیں.


🌷🌷🌟🌟مضمون سورت🌟🌟🌷🌷

اس سورت کا مضمون یہ ہے کہ آدمی کو اپنی قوت و زور اور زر و مال پر نازاں اور اپنے جاہ و مرتبہ پر مغرور نہیں ہونا چاہیئے. بلکہ اپنی ابتداء(ولادت) اور انتہا(موت) پر نظر رکھنی چاہیئے.  اپنی اس زندگی کی سختیوں کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیئے. کہ بغیر امداد الہی ان سے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں.اور مال اگر اخروی  مصائب سے چھٹکارا دلوادے تو واقعی وہ مفید چیز ہے. ورنہ تو اسکی چمک دمک ایک دھوکہ ہے اسلئے اپنےمال کو اچھے مصارف میں صرف کرکے مومنین کاملین کے زمرے میں داخل ہوجانا اور اپنے انجام کو درست کرلینا چاہیئے.

ماخذ۔معارف القرآن مولانا شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ 

تفسیر ابن کثیر 

واللہ اعلم بالصواب۔

جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں