سورة النحل ۔ روابط اور خلاصہ مضامین

سورة النحل 
روابط 
اسمی ربط 
ماقبل سے اسمی ربط یہ ہے کہ آصحاب حجر(قوم ثمود) کا حال تم نے سن لیا کہ انکار وتکبر کی وجہ سے انہیں دنیا ہی میں ہلاک کر دیا گیا۔ تمہیں اس عبرت ناک واقعہ سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ اگر اصحاب حجر سے عبرت حاصل نہیں کرتے تو نحل (شہد کی مکھی) کا حال دیکھ لو شاید وہی تمہارے لیے نصیحت کا سبب ہو۔ یہ معمولی مکھی کس طرح پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر لاتی ہے اور شہد جیسی بے نظیر چیز تیار کرتی ہےاور اپنے چھتے کا راستہ بھی نہیں بھولتی۔ یہ معمولی سا کیڑا اتنا بڑا کام سر انجام دے رہا ہے جو قدرت الہی اور اس کی صفت کا ایک ادنی سا نمونہ ہے ۔ اس سے عبرت حاصل کرو اور مسئلہ توحید کو مان لو۔
معنوی ربط
سورة ابراھیم میں وقائع امم سابقہ بیان کرنے کے بعد سورة الحجر میں فرمایا کہ اب وقت ہے مان لو ورنہ جب عذابِ الہی آگیا تو ہرگز نہ بچ سکو گے۔ اب سورة النحل میں بیان کیا جائے گا کہ اگر تم دعوٰی توحید کو نہیں مانتے اور ضد و عناد کی وجہ سے عذاب الہی کا مطالبہ کر رہے ہو تو عذابِ الہی آیا ہی سمجھو۔ عذاب مانگنے میں زیادہ جلدی نہ کرو۔ 

خلاصہ سورة النحل 

آیة ۔1 
أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
 اردو: 
اللہ کا حکم یعنی عذاب گویا آ ہی پہنچا تو کافرو اس کے لئے جلدی مت کرو۔اور یہ لوگ جو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔
میں سورة الحجر کے ربط وتعلق سے فرمایا اگر سب کچھ جاننے اور سننے کے بعد بھی نہیں مانتے تو تیار ہوجاؤ عذاب الہی آیا ہی چاہتا ہے۔ اب جلدی نہ کرو۔ چنانچہ اہل مکہ اس کے فورا بعد قحط کے شدید عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ جیسا کہ آخر میں اس کا بیان ہے۔
آیة 112.
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
 اردو: 
اور اللہ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو کہ ہر طرح امن چین سے تھی ہر طرف سے اس کا رزق با فراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انکے اعمال کے سبب انکو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا۔
باعتبار مضامین سورة النحل کے دو حصے ہیں ۔ 
حصہ اول: 
ابتدا سورة سے لے کر آیة 12   تک 
اس میں نفی شرک اعتقادی کا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس حصے میں تین بار دعوی سورة مذکور ہے۔ نہ ماننے کی وجہ سے مشرکین پر عذاب آیا۔ توحید پر چھ دلائل عقلیہ ، ایک نقلی دلیل اور ایک دلیل وحی بیان کی گئی ہے۔ ضمنا بطور زجر دو بار نفی شرک فعلی کا ذکر کیا گیا اور مسئلہ توحید کی خاطر ہجرت کی فضیلت بھی مذکور ہے۔ 
حصہ دوم : 
آیة  114:
  فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
 اردو: 
پس اللہ نے جو تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بھی کرو۔ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔
تا 
آیة :119 
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
 اردو: 
پھر جن لوگوں نے نادانی سے غلط کام کر لیا۔ پھر اس کے بعد توبہ کی اور نیکوکار ہو گئے تو تمہارا پروردگار انکو توبہ کرنے اور نیکوکار ہو جانے کے بعد بخشنے والا ہے رحمت کرنے والا ہے۔

اس حصہ میں نفی شرک فعلی کا بیان ہے اور شرک فعلی کی مندرجہ ذیل شقوں کا بیان کیا گیا ہے۔ 
شق اول: تحریمات لغیر الله 
شق دوم: نذرونیاز لغیر الله 

تخویف اخروی اور سوال مقدر کا جواب ، تبشیر اور آخر میں آیة 120 
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
 اردو: 
بیشک ابراہیم لوگوں کے امام اور اللہ کے فرمانبردار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی پر حضرت ابراھیم علیہ السلام سے دلیل نقلی بیان کی گئی ہے۔ 
آیة :123 
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
 اردو: 
پھر اے نبی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
نفی شرک فعلی پر دلیل وحی ہے۔ 
آیة :125 
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
 اردو: 
اے پیغمبر لوگوں کو حکمت اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اسکے راستے سے بھٹک گیا۔ تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔
میں طریقہ تبلیغ کا ذکر ہے۔ اور پھر آیة :127 

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
 اردو: 
اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ سازشیں کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو۔
میں تسلیہ للنبی صلی الله علیہ وسلم ہے۔ 

سورة الحجر ۔ روابط اور خلاصہ مضامین

سورة الحجر 
روابط 
اسمی ربط 
سورة ابراھیم کو سورة الحجر سے اسمی ربط یہ ہے کہ سورة ابراھیم میں وقائع امم سابقہ کے ساتھ جو مسئلہ بیان کیا وہ مان لو وگرنہ پچھتاؤ گے۔ جس طرح اصحاب حجر نے مسئلہ توحید کی تکذیب کی تو انہیں درد ناک عذاب نے ہلاک کر دیا اسی طرح تمہیں بھی ہلاک کر دیا جائے گا ۔
معنوی ربط
سورة ابراھیم میں وقائع بیان کرکے ڈرایا گیا کہ مسئلہ توحید کو مان لیں۔ اب سورة الحجر میں یہ بیان ہوگا کہ مسئلہ توحید کو مانلو ورنہ امم سابقہ کی طرح تم پر بھی عذاب آئے گا پھر پچھتاؤ گے۔ 
خلاصہ مضامین سورة الحجر 
سورة الحجر میں دو عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ایک مفصل اور دوسری مختصر ، تخویف دنیوی کے پانچ نمونے ذکر کیے گئے تین گزشتہ قوموں کے اور دو مشرکین مکہ کے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لیے تین تسلیاں مذکور ہیں۔ یعنی سورة الحجر میں پانچ امور بیان کیے گئے ہیں۔ 

سورة ابراھیم ۔ روابط اور خلاصہ مضامین


سورة ابراھیم 
روابط 
اسمی ربط :
ماقبل سے اسمی ربط یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بیان سن چکے ہو جو انہوں نے جیل میں قیدیوں  کے سامنے دیا نیز رعد اور دوسرے فرشتوں کا حال بھی سُن لی کہ وہ ہر وقت شرک سے الله تعالی کی پاکیزگی بیان کرتے رہتے ہیں۔ اب حضرت ابراھیم علیہ السلام کا حال بھی دیکھ لو وہ بھی اپنے اہل وعیال کو بحکم خدا بے آب و گیاں بیاباں میں چھوڑ کر الله تعالی کی توحید کا اعلان کرتے رہے کہ الله سبحانہ وتعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں۔ 
حضرت ابراھیم نے الله تعالی سے دعا کی تھی۔ 
آیة 35   تا۔  39

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ 
35

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. 
36.

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
37.

رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
38.

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ
39

 اردو: 
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار اس شہر کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھیو۔   اے پروردگار انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جس شخص نے میرا کہا مانا وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ اے پروردگار میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت و ادب والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔ اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھیں سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ انکی طرف جھکے رہیں اور انکو میووں سے روزی دیتے رہنا تاکہ تیرا شکر کریں۔   اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ تو سب جانتا ہے اور اللہ سے کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔    اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ کو بڑی عمر میں اسمٰعیل اور اسحٰق بخشے۔ بیشک میرا پروردگار دعا سننے والا ہے۔


معنوی ربط 
گذشتہ سورة میں مسئلہ توحید کو دلائل عقلیہ ونقلیہ سے واضح کیا گیا یہانتک کہ مسئلہ توحید بدیہی ہو گیا۔ اس کے بعد سورة الرعد میم مزید دلائل بطور تنبیہات ذکر کیے گئے تاکہ شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے لیکن معاندین پھر بھی نہیں مانتے۔ اب سورة ابراھیم میں دلائل کے ساتھ وقائع دنیوی و اُخروی بیان کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ بعض طبائع خوشخبری یا ڈر سن کر راہ راست پر آ جاتی ہیں۔ وقائع سے تخویفات دنیوی و اُخروی مراد ہیں۔ 

خلاصہ مضامین سورة ابراھیم 
اس سورة میں توحید ہر تین عقلی دلیلیں (دو مختصر ، ایک مفصل ) ایک نقلی دلیل اجمالی (تمام انبیاء اور مؤمنین سے) اور ایک نقلی دلیل تفصیلا از حضرت ابراھیم علیہ السلام اور چھ وقعائع  دنیوی و اُخروی ۔ ایک زجر اور عذاب کو ہٹانے کے لیے امورِ ثلاثہ کا بیان ہے۔ 



























سورة الرعد ، روابط اور خلاصہ مضامین

سورة الرعد
روابط
سورة الرعد کا سورة یوسف سے دو طرح کا ربط ہے 
اسمی ربط 
اسمی ربط یہ ہے کہ مسئلہ توحید اس قدر اہم اور واضح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں بھی اس کی تبلیغ کی اور خوبوں کی تعبیر پوچھنے والوں کو پہلے مسئلہ توحید سمجھایا پھر تعبیر بتائی۔ رعد اور دوسرے تمام فرشتے الله کی ہیبت اور خوف سے لرزاں و ترساں ہر وقت اس کی تسبیح اور تحمید میں مصروف رہتے ہیں اور ہر قسم کے شرک سے اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔
معنوی ربط
سورة الرعد کا سورة یوسف کے ساتھ معنوی ربط یہ ہے کہ سورۃ یوسف میں ایک بڑی اور مفصل دلیل نقلی کو ثابت کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی پیغمبر ، کوئی ولی ، کوئی فرشتہ اور کوئی جن وبشر عالم الغیب اور کارساز نہیں۔ سورة یوسف تک یہ دونوں دعوے دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ثابت کر دئیے گئے ہیں یہاں تک کہ اب مسئلہ توحید نظر نہیں رہا بلکہ بدیہی ہوگیا معاندین محض ضد و عناد کی وجہ سے اسے نہیں مانتے۔ اس کے باوجود ان دعووں کی مزید توضیح اور تفہیم کے لیے سورة الرعد میں گیارہ دلائل عقلیہ بطور تنبیہ ذکر کیے گئے ہیں۔ 
خلاصہ سورة لرعد
سورة الرعد میں دونوں دعووں (یعنی غیب دان اور کارساز صرف الله تعالی ہی ہے ) پر بطور تنبیہ گیارہ دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں آٹھ دلائل عقلیہ اور ان کے ثمرہ جات ، دو دلائل وحی اور ایک نقلی دلیل برائے مؤمنین سابقین ہے۔ حسب موقع شکوے ، زجریں ، تبشیریں ، تخویفیں اور تسلیہ للنبی صلی الله علیہ وسلم کا ذکر ہے۔

سورة یوسف ، روابط ، مضامین کا خلاصہ


سورة یوسف
روابط سورة یوسف
اسمی ربط:
سورة ھود کا سورة یوسف سے اسمی ربط یہ ہے کہ سورة ھود میں جس مسئلے کا ذکر کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ یوسف علیہ السلام نے جیل میں بھی اس کی تبلیغ و اشاعت کو یاد رکھا۔ قید خانے میں دو قیدیوں کو تعبیر دینے سے پہلے ان کو مسئلہ توحید سمجھایا اور انہیں بتایا کہ غیر الله کی عبادت اور پکار پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔
 شرک عقل و نقل کے خلاف ہے اس لیے الله سبحانہ وتعالی نے حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔ 
ربط معنوی:
سورة یوسف کو سورة ھود سے معنوی ربط یہ ہے کہ سورة ھود کا دوسرا دعوٰی تھا۔ الله تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور متصرف و مختار نہیں۔ اب سورة یوسف میں اس دعوٰی پر ایک بڑی نقلی دلیل مفصل ذکر کی گئی ہے۔ سورة ھود کا مقصودی دعوٰی تو پہلا ہی ہے یعنی الله کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ لیکن دوسرا دعوٰی چونکہ پہلے دعوے کے لیے بمنزلہ علت و دلیل ہے اور علت ودلیل کا مضبوط و مستحکم ہونا معلول و مدلول کے ثبوت و استحکام کو لازم ہے اس لیے دوسرے دعوے کو مفصل دلیل نقلی سے مضبوط کیا گیا۔ 
جب یہ ثابت ہوگیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق بھی نہیں۔ سورة ھود میں متعدد انبیاء علیھم السلام کی زبان سے دعوی ذکر کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی نبی ، فرشتہ یا ولی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ 
سورة یوسف میں ایک جلیل القدر پیغمبر جن کا باپ پیغمبر ، دادا پیغمبر اور 
بیٹا پیغمبر یعنی یعقوب علیہ السلام کا واقعہ مفصل ذکر کیا گیا۔ جس کی ایک ایک کڑی سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ وہ نہ غیب جانتے تھے نہ ہی متصرف و مختار تھے۔ اس لیے عبادت و پکار کے بھی لائق نہ تھے۔ وہ اپنے بیٹے کی جدائی میں عرصۂ دراز آزردہ رہے لیکن اس کا حال نہ معلوم ہو سکا اور نہ ہی وہ اس کی جدائی کو وصال میں بدل سکے۔ 



سورة یوسف 
مضامین کا خلاصہ 
سورة یوسف میں چار دعوے مذکور ہیں۔ دو عظیم دعوے اور دو صغیر دعوے 
عظیم دعوے 
وہ جو سورة ھود کے آخر میں آیة : 123 میں ذکر کیے گئے۔

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

 اردو: 

اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم الله ہی کو ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف رجوع کئے جائیں گے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں۔

اصل میں دعوٰی ثانی 

وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ
پہلے دعوے کی علت ہے کیونکہ جب سب کچھ کرنے والا بھی وہ ہے تو سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے۔ 
صغیر دعوے 
دعوٰی اول 
آیة 102 تا 104 
ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔ لِلعالمین ۔
یعنی آپ سچے رسول ہیں اور الله تعالی کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوتی ہے ۔

دعوٰی ثانی 
آیة 108 تا 110

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم ۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔ مجرمین ۔
انبیائے سابقین کی طرح آپ پر بھی مصائب آئیں گے لیکن آخر کامیابی اور فتح مندی آپ کے قدم چومے گی۔ 
اس سورة میں ایک تخویف دنیوی اور جواب و سوال مقدر ہے ۔ 
حضرت یوسف علیہ السلام کے 15 احوال مذکور ہیں جن میں سے ہر حال ان دونوں دعووں کو ثابت کرتا ہے ۔ 
آیة 1 تا 3 
آلرٰ ۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔ اَلغَافلین 

اس کے بعد احوال شروع ہوتے ہیں ۔ 


























سورة ھود ۔ روابط سورة ھود ، خلاصہ مضامین سورة ھود

سورة ھود
سورة ھود کا ماقبل سے دو طرح کا ربط ہے۔
اسمی ربط
سورة یونس میں جس طرح مسئلہ توحید کو بیان کیا گیا، شرک اعتقادی ( نفی شرک فی التصرف و نفی شرک فی العلم ) اور شرک فعلی کا جس انداز سے رد کیا گیا جب تم اس کو اسی انداز سے بیان کرو گے تو تم بھی مشرکین کی طرف سے طعنوں اور ملامتوں کا نشانہ بنو گے۔
اسی طرح ھود علیہ السلام کو انکی قوم نے مسئلہ توحید بیان کرنے پر طرح طرح کے طعنے دئیے۔
جیسا کہ سورة ھود کی آیت 53 اور 54 میں مذکور ہے۔

قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ
اردو:
وہ بولے ہود تم ہمارے پاس کوئی دلیل ظاہر نہیں لائے۔ اور ہم صرف تمہارے کہنے سے نہ اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ تم پر ایمان لانے والے ہیں۔

إِن نَّقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
اردو:
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں تکلیف پہنچا کر دیوانہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں الله کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جنکو تم الله کا شریک بناتے ہو۔ میں ان سے بیزار ہوں۔
معنوی ربط
اسکی تین تکریریں ہیں ۔
تکریر اول :
سورة یونس کے آخر میں فرمایا:

وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
اردو:
اور اے پیغمبر تم کو جو حکم بھیجا جاتا ہے اس کی پیروی کئے جاؤ اور تکلیفوں پر 

صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

اب سورة ھود کے شروع میں فرمایا:



الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
اردو:
الٓرا۔ یہ وہ کتاب ہے جسکی آیتیں جچی تلی ہیں پھر یہ کہ الله حکیم و خبیر نازل کرنے والے کی طرف سے بہ تفصیل بیان کی گئ ہیں۔

تکریر ثانی:
سورة یونس میں دلائل عقلیہ سے ثابت کر دیا کہ الله سبحانہ وتعالی کے ہاں کوئی شفیع غالب نہیں اب سورة ھود میں کہا جا رہا ہے کہ جب الله تعالی کے ہاں کوئی شفیع غالب نہیں تو حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب صرف الله تعالی کو پکارو کیونکہ اس کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں ۔ غیر الله کی پکار کا مسئلہ اگرچہ سورة یونس میں بھی مذکور ہے لیکن اس میں زیادہ زور دلائل پر دیا گیا ہے۔ سورة ھود میں زیادہ زور غیر الله کی پکار سے ممانعت پر ہے۔ یعنی غیر الله کی پکار کی نفی سورة ھود کا موضوع ہے۔
ت
کریر ثالث:

سورة یونس میں دعوی توحید پر صرف عقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں اب سورة ھود 

میں دلائل نقلیہ بھی ذکر کیے جائیں گے چنانچہ اس سورة میں دعوی توحید دلائل 
عقلیہ و نقلیہ سے مدلل ہو جائے گا ۔
اور کہہ دیا جائے گا کہ دعوی توحید تو بالکل واضح اور ثابت ہے لیکن مشرکین ضد و عناد کی وجہ سے نہیں مانتے۔

خلاصہ سورة ھود

سورة ھود کے ابتدائی حصے میں چار دعوے مذکور ہیں ۔
دعوٰی اول ؛ 
آیة 2 ,3:

أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔ الخ 
 اردو: 
اس کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو 

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ 
اردو:
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اسکے آگے توبہ کرو 

دعوٰی ثانی ؛ 
آیة:5

أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
 اردو: 
دیکھو یہ اپنے سینوں کو دہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپ جائیں۔ سن رکھو جس وقت یہ اپنے کپڑوں میں لپٹ رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ انکی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے۔ وہ تو دلوں کی باتوں تک سے آگاہ ہے۔

صرف الله سبحانہ وتعالی ہی عالم الغیب ہے اور ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اس پر آشکار ہے۔

دعوٰی ثالث : 
آیة : 12

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
 اردو: 
تو شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو اور اس خیال سے تمہارا دل تنگ ہو کہ کافر یہ کہنے لگیں کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا اسکے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ اے نبی تم تو صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ اور اللہ ہر چیز کا نگہبان ہے۔
مشرکین کے طعنوں سے آزردہ خاطر ہو کر تبلیغ میں کوتاہی نہ کرو۔ 

دعوٰی رابع: 
آیة : 17

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أُولَئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَى رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
 اردو: 
اور اس سے بڑھ کو ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا تھا۔ سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

مسئلہ توحید بالکل واضح اور روشن ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔لیکن معاندین ضد کی وجہ سے نہیں مانتے ۔ 
مذکورہ چاروں دعووں کے درمیان زجریں ، تخویفیں ، تبشیریں حسبِ مواقع مذکور ہیں۔ 

اس کے بعد انبیاء علیھم السلام کے سات قصے بیان کیے گئے ہیں جو بطور لف و نشر مرتب مذکورہ دعووں سے متعلق ہیں ۔ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں