نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورة النحل ۔ روابط اور خلاصہ مضامین

سورة النحل 
روابط 
اسمی ربط 
ماقبل سے اسمی ربط یہ ہے کہ آصحاب حجر(قوم ثمود) کا حال تم نے سن لیا کہ انکار وتکبر کی وجہ سے انہیں دنیا ہی میں ہلاک کر دیا گیا۔ تمہیں اس عبرت ناک واقعہ سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ اگر اصحاب حجر سے عبرت حاصل نہیں کرتے تو نحل (شہد کی مکھی) کا حال دیکھ لو شاید وہی تمہارے لیے نصیحت کا سبب ہو۔ یہ معمولی مکھی کس طرح پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر لاتی ہے اور شہد جیسی بے نظیر چیز تیار کرتی ہےاور اپنے چھتے کا راستہ بھی نہیں بھولتی۔ یہ معمولی سا کیڑا اتنا بڑا کام سر انجام دے رہا ہے جو قدرت الہی اور اس کی صفت کا ایک ادنی سا نمونہ ہے ۔ اس سے عبرت حاصل کرو اور مسئلہ توحید کو مان لو۔
معنوی ربط
سورة ابراھیم میں وقائع امم سابقہ بیان کرنے کے بعد سورة الحجر میں فرمایا کہ اب وقت ہے مان لو ورنہ جب عذابِ الہی آگیا تو ہرگز نہ بچ سکو گے۔ اب سورة النحل میں بیان کیا جائے گا کہ اگر تم دعوٰی توحید کو نہیں مانتے اور ضد و عناد کی وجہ سے عذاب الہی کا مطالبہ کر رہے ہو تو عذابِ الہی آیا ہی سمجھو۔ عذاب مانگنے میں زیادہ جلدی نہ کرو۔ 

خلاصہ سورة النحل 

آیة ۔1 
أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
 اردو: 
اللہ کا حکم یعنی عذاب گویا آ ہی پہنچا تو کافرو اس کے لئے جلدی مت کرو۔اور یہ لوگ جو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔
میں سورة الحجر کے ربط وتعلق سے فرمایا اگر سب کچھ جاننے اور سننے کے بعد بھی نہیں مانتے تو تیار ہوجاؤ عذاب الہی آیا ہی چاہتا ہے۔ اب جلدی نہ کرو۔ چنانچہ اہل مکہ اس کے فورا بعد قحط کے شدید عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ جیسا کہ آخر میں اس کا بیان ہے۔
آیة 112.
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
 اردو: 
اور اللہ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو کہ ہر طرح امن چین سے تھی ہر طرف سے اس کا رزق با فراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انکے اعمال کے سبب انکو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا۔
باعتبار مضامین سورة النحل کے دو حصے ہیں ۔ 
حصہ اول: 
ابتدا سورة سے لے کر آیة 12   تک 
اس میں نفی شرک اعتقادی کا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس حصے میں تین بار دعوی سورة مذکور ہے۔ نہ ماننے کی وجہ سے مشرکین پر عذاب آیا۔ توحید پر چھ دلائل عقلیہ ، ایک نقلی دلیل اور ایک دلیل وحی بیان کی گئی ہے۔ ضمنا بطور زجر دو بار نفی شرک فعلی کا ذکر کیا گیا اور مسئلہ توحید کی خاطر ہجرت کی فضیلت بھی مذکور ہے۔ 
حصہ دوم : 
آیة  114:
  فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
 اردو: 
پس اللہ نے جو تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بھی کرو۔ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔
تا 
آیة :119 
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
 اردو: 
پھر جن لوگوں نے نادانی سے غلط کام کر لیا۔ پھر اس کے بعد توبہ کی اور نیکوکار ہو گئے تو تمہارا پروردگار انکو توبہ کرنے اور نیکوکار ہو جانے کے بعد بخشنے والا ہے رحمت کرنے والا ہے۔

اس حصہ میں نفی شرک فعلی کا بیان ہے اور شرک فعلی کی مندرجہ ذیل شقوں کا بیان کیا گیا ہے۔ 
شق اول: تحریمات لغیر الله 
شق دوم: نذرونیاز لغیر الله 

تخویف اخروی اور سوال مقدر کا جواب ، تبشیر اور آخر میں آیة 120 
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
 اردو: 
بیشک ابراہیم لوگوں کے امام اور اللہ کے فرمانبردار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی پر حضرت ابراھیم علیہ السلام سے دلیل نقلی بیان کی گئی ہے۔ 
آیة :123 
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
 اردو: 
پھر اے نبی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
نفی شرک فعلی پر دلیل وحی ہے۔ 
آیة :125 
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
 اردو: 
اے پیغمبر لوگوں کو حکمت اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اسکے راستے سے بھٹک گیا۔ تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔
میں طریقہ تبلیغ کا ذکر ہے۔ اور پھر آیة :127 

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ
 اردو: 
اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ سازشیں کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو۔
میں تسلیہ للنبی صلی الله علیہ وسلم ہے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...