نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورة یوسف ، روابط ، مضامین کا خلاصہ


سورة یوسف
روابط سورة یوسف
اسمی ربط:
سورة ھود کا سورة یوسف سے اسمی ربط یہ ہے کہ سورة ھود میں جس مسئلے کا ذکر کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ یوسف علیہ السلام نے جیل میں بھی اس کی تبلیغ و اشاعت کو یاد رکھا۔ قید خانے میں دو قیدیوں کو تعبیر دینے سے پہلے ان کو مسئلہ توحید سمجھایا اور انہیں بتایا کہ غیر الله کی عبادت اور پکار پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔
 شرک عقل و نقل کے خلاف ہے اس لیے الله سبحانہ وتعالی نے حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔ 
ربط معنوی:
سورة یوسف کو سورة ھود سے معنوی ربط یہ ہے کہ سورة ھود کا دوسرا دعوٰی تھا۔ الله تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور متصرف و مختار نہیں۔ اب سورة یوسف میں اس دعوٰی پر ایک بڑی نقلی دلیل مفصل ذکر کی گئی ہے۔ سورة ھود کا مقصودی دعوٰی تو پہلا ہی ہے یعنی الله کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ لیکن دوسرا دعوٰی چونکہ پہلے دعوے کے لیے بمنزلہ علت و دلیل ہے اور علت ودلیل کا مضبوط و مستحکم ہونا معلول و مدلول کے ثبوت و استحکام کو لازم ہے اس لیے دوسرے دعوے کو مفصل دلیل نقلی سے مضبوط کیا گیا۔ 
جب یہ ثابت ہوگیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت و پکار کے لائق بھی نہیں۔ سورة ھود میں متعدد انبیاء علیھم السلام کی زبان سے دعوی ذکر کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی نبی ، فرشتہ یا ولی عبادت و پکار کے لائق نہیں۔ 
سورة یوسف میں ایک جلیل القدر پیغمبر جن کا باپ پیغمبر ، دادا پیغمبر اور 
بیٹا پیغمبر یعنی یعقوب علیہ السلام کا واقعہ مفصل ذکر کیا گیا۔ جس کی ایک ایک کڑی سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ وہ نہ غیب جانتے تھے نہ ہی متصرف و مختار تھے۔ اس لیے عبادت و پکار کے بھی لائق نہ تھے۔ وہ اپنے بیٹے کی جدائی میں عرصۂ دراز آزردہ رہے لیکن اس کا حال نہ معلوم ہو سکا اور نہ ہی وہ اس کی جدائی کو وصال میں بدل سکے۔ 



سورة یوسف 
مضامین کا خلاصہ 
سورة یوسف میں چار دعوے مذکور ہیں۔ دو عظیم دعوے اور دو صغیر دعوے 
عظیم دعوے 
وہ جو سورة ھود کے آخر میں آیة : 123 میں ذکر کیے گئے۔

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

 اردو: 

اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم الله ہی کو ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف رجوع کئے جائیں گے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں۔

اصل میں دعوٰی ثانی 

وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ
پہلے دعوے کی علت ہے کیونکہ جب سب کچھ کرنے والا بھی وہ ہے تو سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے۔ 
صغیر دعوے 
دعوٰی اول 
آیة 102 تا 104 
ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔ لِلعالمین ۔
یعنی آپ سچے رسول ہیں اور الله تعالی کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوتی ہے ۔

دعوٰی ثانی 
آیة 108 تا 110

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم ۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔ مجرمین ۔
انبیائے سابقین کی طرح آپ پر بھی مصائب آئیں گے لیکن آخر کامیابی اور فتح مندی آپ کے قدم چومے گی۔ 
اس سورة میں ایک تخویف دنیوی اور جواب و سوال مقدر ہے ۔ 
حضرت یوسف علیہ السلام کے 15 احوال مذکور ہیں جن میں سے ہر حال ان دونوں دعووں کو ثابت کرتا ہے ۔ 
آیة 1 تا 3 
آلرٰ ۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔ اَلغَافلین 

اس کے بعد احوال شروع ہوتے ہیں ۔ 


























تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...