دعا کو ہمنوائے نالۂ شب گیر کرناہے
فغاں کو آشنائے لذتِ تاثیر کرنا ہے
جنوں کو خوئے تسلیم و رضا تعلیم کرنی ہے
بگولوں کو اسیرِ حلقۂ زنجیر کرنا ہے
چھپا بیٹھا ہے اِک دشمن حصارِ ذات کے اندر
شکستِ جسم سے پہلے جسے تسخیر کرنا ہے
وہ آنکھیں جن کو ورثے میں ملی جاگیر نفرت کی
محبت کا سبق اُن کے لیے تحریر کرنا ہے
وہ منظر جو مری چشمِ تصور پر اُترتے ہیں
اُنھیں ہر چشمِ بینا کے لیے تصویر کرنا ہے
ہزاروں خواہشوں کی بستیاں مسمار کرنی ہیں
اِسی ملبے سے پھر اِک جھونپڑا تعمیر کرنا ہے
اُسے اپنا بنانے کی کوئی تدبیر کرنی ہے
مجھے تبدیل اپنا کتبۂ تقدیر کرنا ہے
مرے اجداد نے بھی بیعتِ باطل نہیں کی تھی
مجھے بھی ّاِتباع' سُنتِ ّشبیر کرنا ہے
مرے اسلاف نے اچھے دِنوں کا خواب دیکھا تھا
سو اُن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے
مشتاق عاجز ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں