نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي   
اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو 
أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ       
میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو 
 عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣
پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان 
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣
اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔ 

فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا ۔ البتہ جب انہوں نے حق کو چھوڑ دیا ۔ شریعت کو بھلا دیا اور نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت اور مقابلہ کیا تو وہ فضیلت بالکل جاتی رہی ۔ اور انہیں " مغضوب علیھم " اور اہلِ ضلاّل کہا گیا ۔ اور امتِ مسلمہ کو *خیر امه* کا لقب ملا ۔ 
اَلْعَالَمِیْنَ ۔ ( تمام جہان ) ۔ اس کا واحد عالم ہے ۔ یہاں عالمین سے مراد دنیا کی تمام اقوام ہیں ۔ 
ایک وقت تھا کہ بنی اسرائیل کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔ جب دنیا کی تمام قومیں گمراہی اور تاریکی میں پڑی بھٹک رہی تھیں ۔ شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھیں ۔ بدعتوں اور بد عنوانیوں میں مست تھییں ۔ تو صرف بنی اسرائیل ہی ایک ایسی قوم تھی جس کے پاس توحید کا تصور تھا ۔ اور ان کو آسمانی ہدایت نامہ میسر تھا ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے ۔ 
رفتہ رفتہ یہ لوگ اپنی کمزوریوں اور بد عنوانیوں کے باعث راہ راست سے بھٹک گئے ۔ اور آسمانی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیا ۔ اس لئے اب انہیں الله کریم اس چیز کی تلقین فرماتا ہے کہ تم اپنے اسی دین کو اصلاح شدہ شکل میں قبول کر لو ۔ اور راہِ راست حاصل کرو ۔ 
تقوٰی اور ایمان کا حصول صبر اور عبادات کے ذریعہ دشوار تھا ۔ اس لئے اس کا آسان اور قابل عمل طریقہ بتا دیا اور وہ ہے شُکر ۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنے منعم اور محسن کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے ۔اسی لئے  الله جل شانہ بنی اسرائیل کو اپنے احسانات اور انعامات جو اُن پر وقتا فوقتا کئے گئے ۔ یاد دلاتا ہے اور ان کی بد کرداریاں بھی ظاہر کرتا ہے ۔ 
بنی اسرائیل کا فضیلت کے اس قدر اونچے مقام سے گر کر غضب الٰہی کے گڑھے میں گر جانااہلِ عالَم کے لئے عبرت کا نشان ہے ان کی اس حالت سے نصیحت پکڑنی چاہئیے اور ان اعمال سے گریز کرنا چاہئیے ۔ جو اُس قوم کی تباہی اور بربادی کا سبب بنے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...