سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼
اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔
سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں 
یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی الٰہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ۔ 
فضائل سورۃ بقرہ 🌺🌼۔ 🌺🌼
یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ 
مفہوم ۔ سورۃ بقرہ کو پڑھا کرو ، کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے ۔ اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بد نصیبی ہے ۔ اور اہلِ با طل اس پر قابو نہیں پا سکتے ۔ 
 قرطبی نے  حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے نقل کیا ہے ۔ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں ۔ 
یعنی اس سورۃ کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا ۔ ( قرطبی از مسلم بروایت ابو امامہ باہلی ) ۔
اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ کہ جس گھر میں سورت بقرہ پڑھی جائے شیطان وھاں سے بھاگ جاتا ہے ۔ ( ابن کثیر از حاکم ) ۔ 
اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ سورۃ بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے ۔ 
سنام اور ذروہ کسی چیز کے اعلی اور افضل حصہ کو کہا جاتا ہے ۔ اس کی ہر آیہ مبارکہ کے نزول کے وقت اسی ( 80 ) فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوئے ہیں  ( ابن کثیر از مسند احمد ) ۔ 
حضرت ابوھریرہ کی  ایک حدیث میں ہے ۔ اس سورۃ میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے ۔ اور وہ آیۃ الکرسی ہے ۔  (ابن کثیر از ترمذی ) ۔
حضرت عبد الله بن مسعود نے فرمایا ۔  سورۃ بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں ۔ اگر کوئی شخص انہیں رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن ، شیطان گھر میں داخل نہ ہو گا ، اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت ، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی ۔ اور اگر یہ آیات جنون میں مبتلا کسی شخص پر پڑھی جائیں تو فائدہ دیں گی  ۔ 
وہ دس آیات یہ ہیں :  چار آیتیں شروع سورۃ بقرہ کی ۔ ۔۔ تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں  ۔۔۔اور پھر سورۃ بقرہ کی آخری تین آیتیں ۔۔۔

🌺🌼 احکام و مسائل 🌺🌼
ابنِ عربی فرماتے ہیں میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ  سورۃ بقرہ میں ایک ہزار امر  ( احکام )  اور ایک ہزار نہی  ۔ ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار خبر اور قصص ہیں ۔ ( قرطبی و ابن کثیر ) ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے جب سورہ بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ ( 12)  سال خرچ ہوئے۔  اور حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ نے یہ سورۃ آٹھ سال میں پڑھی ۔  ( قرطبی ) ۔
🌺🌼سورۃ بقرہ کا خلاصہ 🌺🌼
اس سورہ میں سب سے پہلے یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن حکیم ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے ۔ جن کے دلوں میں الله تعالی کا خوف اور پرھیز گاری کا مادہ ہو ۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید سن کر تین قسم کے لوگ پیدا ہوں گے ۔ اول مؤمن جو اس پر پورے دل سے ایمان لائیں گے ۔ دوم کافر جو اس کے مخالف ہوں گے ۔ اور سوم منافق جو ظاہری طور پر مانیں گے اور دل سے انکار کریں گے ۔ اس کے بعد سب سے پہلا حکم تمام انسانوں کو الله تعالی کی عبادت کا دیا گیا ہے ۔ اور قرآن کریم کی سچائی ثابت کی گئی ہے 
چوتھے رکوع میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور خلافت ارضی کے مستحق ہونے کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد ایک بڑے خاندان یعنی بنی اسرائیل کی زندگی کا ذکر پانچویں رکوع سے شروع ہوتا ہے ۔ اس خاندان میں سینکڑوں نبی اور رسول پیدا ہوئے ۔ اس خاندان کے حالات الله تعالی نے سبق آموز طریقہ میں بیان کئے ہیں ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اپنی غلط حرکات اور خرابیوں کی وجہ سے یہ قوم خلافت الٰہی کے قابل نہ رہی ۔
پانچویں رکوع سے پندرھویں رکوع تک بنی اسرائیل کی تاریخ کے کئی واقعات بیان ہوئے ہیں ۔ مثلا ان کے عہد وپیمان ۔ کوہ طور پر جلوہ خداوندی ۔ سبت ( ہفتہ کا دن ) کا واقعہ ۔ گائے کا واقعہ ۔ قتل انبیاء کے حالات ۔ سحر اور جادو کی نا پاک کوششیں ۔ انبیاء کی توہین کی نا جائز حرکات ۔ نجات اور بخشش کے غلط عقیدے ۔ وغیرہ 
 سولہویں رکوع سے بنی اسرائیل کے مزید حالات اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی عرب میں پیدائش کا ذکر ہے ۔ ساتھ ہی خانہ کعبہ کاذکر ہے ۔ اور الله کی راہ میں شہید ہونے والوں کے درجات بیان ہوئے ہیں ۔ بیسویں رکوع میں الله تعالی کی قدرت کے نشانات کا ذکر ہے ۔ اور اس کے بعد حلال وحرام کی بحث ہے ۔ 
سورہ بقرہ کے بیسویں رکوع میں ارشاد ہوا حقیقی نیکی کیا ہے ۔ اس کے بعد چھبیسویں  رکوع تک قصاص ، میراث ُ روزہ ُ دُعا  حج ، جہاد اور الله کی راہ میں مالی قربانی کے مسائل اور اس کے احکام مذکور ہیں ۔ 
ستائیسویں رکوع سے معاشرتی اور خاندانی زندگی کے مسائل شروع ہوئے ہیں ۔ یعنی نکاح ، حیض و نفاس ، طلاق ، عدّت ، نکاح ثانی ، بچوں کی تربیت حق مہر وغیرہ  
رکوع نمبر بتیس میں پھر جہاد کا بیان ہے ۔ اور مثال میں حضرت طالوت کا جالوت سے مقابلہ کا ذکر ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا کہ فتح اور شکست ، سامانِ جنگ کی کمی زیادتی پر منحصر نہیں ۔ اکثر چھوٹی فوجیں بڑے لشکروں پر غالب آجاتی ہیں ۔
چونتیسویں رکوع میں آیۃ الکرسی ہے ۔ جس میں الله کا حیّ و قیوم ہونا اور بہت سی دوسری صفتیں مذکور ہیں ۔ اور یہ کہ اسلام کے قبول کرنے میں کسی پر زبردستی نہیں ۔ کیونکہ اس کے دلائل اور خوبیاں واضح ہیں ۔ 
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے چند سبق آموز واقعات مذکور ہیں ۔ انتالیسویں رکوع تک صدقہ وخیرات اور پرھیزگاری کے احکام ہیں ۔ سود کی ممانعت ہے ۔ اور گواہی کے بارے میں ہدایات اور قوانین کا بیان ہے ۔ تجارت کے چند اصولوں کا بھی ذکر ہی ۔
سورت کے آخری یعنی چالیسویں رکوع میں ایمان واسلام کا خلاصہ اور ایک جامع دُعا بیان ہوئی ہے ۔ اس دُعا کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔ فَانْصُرْنَا عَلَی القَومِ الْکَافِرِیْنَ ۔ ہمیں کافروں کی جماعت پر برتری عطا فرما ۔ یہ قرآن کی دعوت کا نتیجہ ہے ۔ 
گویا قرآن مجید کی تعلیم سے جو قوم پیدا ہو گی ۔ اس کے ذریعے سے الله تعالی کا قانون کفر پر غالب آجائے گا ۔ یہاں الله تعالی کو ماننے والی قوم اور نہ ماننے والی اقوام کا انجام بتایا ہے ۔ مؤمن کامیاب ہوں گے اور منکر مغلوب اور نا کام ہوں گے ۔ سورت کا خاتمہ گویا انہی الفاظ پر ہوا ہے ، جہاں سے شروع ہوا تھا ۔ 
یہ بات نہ بھولنی چاہئے ۔ کہ یہ خلاصہ محض مضامین کا ایک تصوّر دلانے کے لئے ہے ۔ ورنہ الله جل شانہ کے کلام کے حقائق اور کمالات و وسعت چند لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ 
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی الله کا نام لے کر اس سورۃ کے احکام پر غور وفکر کریں ۔ اس کی حکمتیں سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور اُن پر عمل کے لئے کمر بستہ ہو جائیں ۔ حقیقت میں اس کا مقصد اپنے آپ کو یاد دہانی ہے ۔ اور اپنے اعمال درست کرنے کی کوشش ہے ۔ الله تبارک وتعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین 
ماخذ ۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں