نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ
     میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود 
     اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ 
میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے

اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت تک کے لئے اس پر لعنت کی گئی ۔ 
اب شیطان نے اپنی اس ذلّت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔ سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور اُن کی بیوی کو بہکا کر جنّت سے نکلوا دیا ۔ اور اُس نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ میں قیامت تک آدم کی اولاد کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان ہمارا مستقل دشمن ہے ۔ اس لئے الله تعالٰی نے ہمیں حکم دیا کہ اس طرح الله کے حضور میں دُعا کریں ۔ 
" اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتی/ مانگتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے ۔ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتی / مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان میرے پاس بھی آئے " 
پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ شیطان تمہارے رگ و ریشہ میں اس طرح اثر کرتا ہے ۔ جس طرح کہ خون تمام جسم میں دوڑتا ہے ۔ شیطان آدمی کو دیکھتا ہے مگر آدمی شیطان کو نہیں دیکھ سکتا ۔ نہ اس کے حملہ سے آسانی کے ساتھ بچاؤ کر سکتا ہے ۔ اس لئے ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیطان کے اثر سے پناہ مانگے ۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے ۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ 
یعنی جب تم قراٰن کی تلاوت کرنے لگو تو الله تعالٰی سے پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے 
  قراٰن مجید کی تلاوت کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ تلاوت کی ابتداء میں 
 اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ 
پڑھا جائے ۔ تاکہ الله جلَّ شانُہ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے ۔ اور اس نیک کام میں شیطان کو بہلانےاور پھسلانے کا موقعہ نہ ملے۔
اٰیات کی غلط تاویل سے معنوں کی حقیقت بدل جاتی ہے ۔ الله تعالٰی ہمیں ہر قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...