ایمان ضائع نہیں جاتا
وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَانَتْ ۔۔۔ لَكَبِيرَةً ۔۔۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔عَلَى
اور بے شک ۔۔۔ ہوئی ۔۔ البتہ دشوار ۔۔ مگر ۔۔ پر
الَّذِينَ ۔۔۔۔۔هَدَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا ۔۔۔ كَانَ
وہ لوگ ۔۔۔ ھدایت دی ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ
اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِيُضِيعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِيمَانَكُمْ ۔۔۔۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔۔ ۔۔۔اللَّهَ
الله تعالی ۔۔۔کہ ضائع کرے ۔۔ تمہارا ایمان ۔۔ بے شک ۔۔ الله تعالی
بِالنَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَرَءُوفٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَّحِيمٌ۔ 1️⃣4️⃣3️⃣
لوگوں سے ۔۔ البتہ شفقت فرمانے والا ۔۔ مہربان
وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ
إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ. 1️⃣4️⃣3️⃣
اور بے شک یہ بات بھاری ہوئی سوائے ان لوگوں کے جنہیں الله تعالی نے ھدایت دی اور الله تعالی ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کرے بے شک الله تعالی لوگوں پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے ۔
اوّل سے آپ کے لئے خانہ کعبہ قبلہ مقرر ہوا تھا ۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لئے امتحاناً بیت المقدس کو قبلہ بنا دیا گیا ۔ اور سب جانتے ہیں امتحان اُسی چیز کا ہوتا ہے جو نفس پر دشوار ہو ۔بیت الله مقدس ترین مقام ہے ۔ دنیا کے عبادت خانوں میں یہ سب سے قدیم اور متبرک ترین جگہ ہے ۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مکی زندگی میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی جاتی تھی ۔ بیت المقدس کو قبلہ بنا دینا قریش اور عربوں پر بھاری اور دشوار تھا ۔
اسی لئے الله تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانا لوگوں کو بھاری اور دشوار معلوم ہوا ۔
عام لوگوں کو تو اس لئے کہ وہ عموما عرب اور قریش تھے اور کعبہ کی فضیلت کے معتقد تھے ۔ ان کو اپنے خیال ، عادت اور رسم و رواج کے خلاف کرنا پڑا ۔ وطن پرست عربوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا ۔ عرب اور قریش دین ابراھیمی کے نام لیوا تھے اس لئے وہ کعبہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے اور بیت المقدس کو قبلہ سمجھنا ان کے لئے ناگوار تھا ۔
الله تعالی نے فرمایا یہ امتحان اور آزمائش ان لوگوں کے لئے بھاری نہیں تھی جنہیں الله جل شانہ نے راہِ ھدایت دکھا دی ۔اور وہ اس کی حکمت سے واقفیت رکھتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ اور بیت المقدس کیونکہ انبیاء سابقین کا قبلہ رہا ہے اس لئے انہیں بیت المقدس کے قبلہ بنا دئیے جانے پر کوئی تعجب نہ تھا بلکہ وہ بلا چون و چرا الله تعالی کے سامنے جھک گئے اور اس امتحان سے بڑی کامیابی سے گزر گئے ۔
جب دوبارہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہودیوں نے کہا اگر کعبہ ہی قبلہ اصلی ہے تو اتنی مدت جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی تھی وہ ضائع ہو گئی ۔ بعض مسلمانوں کو بھی شبہ گزرا کہ وہ تمام نمازیں جو بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے پڑھی گئیں وہ اکارت گئیں ۔ اور خاص طور پر وہ صحابہ تو بہت خسارے میں رہے جو قبلہ تبدیل ہونے سے پہلے فوت ہوگئے ۔
الله تعالی نے ان کے اس شک کو دور کر دیا ۔ اور فرمایا اصل چیز فرمانبرداری ہے ۔ بیت المقدس بھی ہمارے حکم سے قبلہ مقرر ہوا تھا ۔ اس لئے جنہوں نے اُس طرف منہ کرکے نماز یں ادا کیں ان کا ثواب اپنی جگہ قائم ہے ۔ الله تعالی تو انسانوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے ۔ وہ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں