نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.


 "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط..

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی نامہ "جریج بن متی" (یہ نام علامہ منصور پوری نے "رحمۃ للعالمین" ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے.. ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام "بنیامین" بتلایا ہے.. دیکھئے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی" ، ص ۱۴۱) کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب "مقوقس" تھا اور جو مصر و اسکندریہ کا بادشاہ تھا.. نامۂ گرامی یہ ہے..


بسم اللہ الرحمن الرحیم..

اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب..


اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے.. اما بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں.. اسلام لاؤ سلامت رہوگے اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا.. لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا.. اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں.. پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں..


(زاد المعاد لابن قیم , ۳/۶۱.. ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے.. ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے.. زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللہ.. اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط.. دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)


اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا.. وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا.. "(اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا.. اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنا دیا.. پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا , پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا.. لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو.. ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں.."


مقوقس نے کہا.. "ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے.."


حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے.. دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے.. یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے.. میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بشارت دی تھی , اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بشارت دی ہے اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو.. جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں.."


مقوقس نے کہا.. "میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے.. وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں.. میں مزید غور کروں گا.."


مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہر لگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا.. پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا..


بسم اللہ الرحمن الرحیم..

محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے..


آپ پر سلام ! اما بعد ! میں نے آپ کا خط پڑھا اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا.. مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے.. میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا.. میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا اور آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں اور آپ پر سلام..''


مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا.. دونوں لونڈیاں "ماریہ" اور "سیرین" تھیں.. خچر کا نام دُلدل تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے تک باقی رہا.. (زاد المعاد ۳/۶۱)


نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماریہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس رکھا اور انہی کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے..


حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی تھیں , اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں.. حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھا کر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا.. حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تو اسلام قبول کرلیا لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے.. 


حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گو بطور کنیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئی تھیں لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کو باقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے.. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا.. 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بیحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت بہت زیادہ رہتی تھی.. گو وہ کنیز تھیں (جاربات یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھم کی طرح اُن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا.. (اصابہ ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ.....


"قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو.. اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے.. اُن سے نسب کا تعلق تو یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ علیہ السلام) اور میرے لڑکے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)..


(الطبقات الكبرى،ابن سعد:۸/۲۱۴، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)

.


سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..

الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

عامر عبداللہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...