نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ۔۔۔۔۔۔۔تسمیہ۔۔۔۔۔

ب ۔ اسم ۔ الله ۔ الرَّحمٰنِ ۔ الرَّحیمِ ۔
ساتھ ۔ نام ۔ الله  ۔ بہت مہربان ۔ نہایت رحم کرنے والا۔ 
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  
الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ 

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں ۔ اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔ 
اَللهُ ۔۔۔۔
 الله ایسا نام ہے جو صرف اُسی کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کسی اور کو اس نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ اسے اسم ذات کہتے ہیں ۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ الله واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔ الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ۔زمین بھی اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور آسمان بھی ۔ دریا ، پہاڑ ، نباتات، جمادات ، چاند ، سورج غرض ہر چیز اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ پرندے اُسی کے حکم سے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کی پیداوار اُگاتا ہے ۔ 
رَحْمٰنٌ ۔۔۔۔ ( بہت مہربان )  الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کس مخلوق کو  رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔  یہ اسکی رحمتِ عامہ کا اظہار ہے ۔ کہ وہ سب پر یکساں رحمت فرماتا ہے ۔ اسکی ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور دوسری مہربانیاں  انسان وجانور ، نیک و بد ، کافر و مسلم پر یکساں ہوتی ہیں ۔ اور وہ بن مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔ 
رَحِیْمٌ ۔۔۔۔ ( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وُہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام فرماتا ہے ۔ ایک نیکی کے بدلہ میں ستّر بلند درجے بخشتا ہے ۔ 
 حدیث مبارکہ ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔ 
جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے ۔ کہ میرا دل بالکل پاک ہے ۔ میری نیت میں پورا خلوص ہے ۔ میرا مقصد اعلٰی ہے ۔ میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے ۔ تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ ہمت نہ ہارنی چاہئے ۔ اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہ ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے ۔ تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے ۔ اسی لئے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے ۔ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہ ہو گی ۔ اور اس سے دل کو اطمینان نہ ہو گا ۔ 
ہم درسِ قرآن کی ابتداء اسی کے نام سے کرتے ہیں ۔ اس کی مدد یقیناً ہمارے ساتھ ہو گی اور ہم اپنی زندگی و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...