نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ۔۔۔۔۔

سورۃ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے ۔ جن میں سے پہلی تین آیتوں میں الله تعالی کی حمد وثناء ہے ۔ اور آخری تین آیتوں میں  انسان کی طرف سے دُعا اور درخواست ہے ۔ جو الله رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے ۔ اور درمیان والی ایک آیہ میں دونوں باتیں ہیں ۔ کچھ حمد وثناء ہے اور کچھ درخواست اور دُعا 
صحیح مسلم میں ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ۔
حق تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی سورۃ فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ آدھی میرے لئے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے ۔ اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا ۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ جب کہتاہے۔     اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ 
تو الله سبحانہُ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد کی ہے ۔ اور جب بندہ کہتا ہے  ۔ 
اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیم   ۔ تو الله جل شانہ فرماتے ہیں ۔میرے بندے نے میری تعریف اور ثناء بیان کی ہے ۔ ۔ اور جب بندہ کہتا ہے 
 اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ۔  ۔ تو الله کریم فرماتے ہیں ۔ یہ آیۃ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا ۔ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ۔ پھر جب بندہ کہتا ہے ۔ اِھدِناَ الصِّرَاطَ الْمُستَقِیمَ  ( آخر تک ) تو حق تعالی جل شانہ فرماتے ہیں یہ سب میرے بندے کے لئے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ۔ ( 
در حقیقت سورۃ فاتحہ قرآن مجید کا خلاصہ یا دیباچہ ہے ۔ اس سورہ مبارکہ میں مختصر طور پر ان مضامین کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جن کا تفصیل سے ذکر قرآن مجید میں آئے گا ۔
جب ہم سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرتے ہیں ۔ کہ تمام خوبیاں الله تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے ۔ کہ جب وہ ہماری تمام ضرورتوں کا ضامن ہے تو ہمیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے سیدھی راہ سے کبھی بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمیں چاہیے کہ دھوکہ ، فریب ، جھوٹ اور نا جائز ذرائع ہرگز استعمال نہ کریں ۔ جب ہماری ضرورتوں کا پورا ہونا یقینی اور اٹل ہے ۔ تو انہیں غلط طریقہ سے کیوں پورا کیا جائے ۔ 
وہ رحمن ورحیم اپنی بے حساب رحمت سے اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑی سے بڑی ہستی پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے ۔ ہر بُرے بھلے مومن وکافر کی ضرورتوں کو پورا فرماتا ہے ۔ اس کی رحمت کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ ہمیں اس بات کا یقین اپنے اندر اُتارنا ہے ۔ 
وہ حساب و کتاب کے دن کا مالک ہے ۔ 
قیامت کے دن جب تمام انسان اپنے نامہ اعمال اپنے ہاتھوں میں لئے عاجزی سے کھڑے ہوں گے ۔ اور اپنےاپنے کاموں کا بدلہ پائیں گے ۔ ہمیں اس دن کی ہولناکیوں سے ڈرنا چاہئے ۔ اور آخرت کی تیاری کرنی چاہئے ۔ 
جس طرح سورۃ فاتحہ پورے قرآن مجید کا خلاصہ ہے اسی طرح  اِیّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ  سورۃ فاتحہ کا خلاصہ یا راز ہے 
جس میں  ہم اقرار کرتے ہیں ۔ کہ ہم صرف ایک الله کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور ہر کام میں اسی کی مدد مانگتے ہیں ۔  زندگی کی ہر مصیبت اور ہر مشکل منزل پر اسی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ تاکہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے ۔ جس پر چل کر ہم اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جائیں ۔ یہ راہ اس کے کامیاب اور انعام یافتہ لوگوں کی راہ ہو ۔ اور ان لوگوں کی پیروی سے بچائے جن پر اس کا غصہ اور عذاب نازل ہوا ۔ اور ہمیں اس راہ سے بھی محفوظ رکھے جس پر چل کر قومیں گمراہی میں گرفتار ہوئیں ۔ اور تباہ و برباد ہوئیں ۔  آمین  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...