نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گمراہوں کا راستہ ۔۔۔۔

غَیْرِ۔          ۔     الْمَغْضُوبِ      ۔   عَلْیْ   ۔  ھِمْ ۔   وَ    ۔ لاَ  ۔          الضَّالِیْنَ  ۔ 7⃣
نہ  ۔    غضب کیا گیا ۔      پر    ۔  وہ ۔     اور  ۔    نہ     ۔  گمراہ۔             ۔      
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّا لِیْنَ   7⃣
نہ اُن کا راستہ جن پر غضب کیا گیا  اور نہ ہی گمراہوں کا  ۔ 

سوره فاتحہ میں ہمیں یہ دُعا بتائی گئی ہے۔ کہ " اے ہمارے رب ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔ اُن لوگوں کی راہ پر جو دُنیا اور آخرت میں تیرے انعام کے مستحق ہوئے ۔ جن پر ہمیشہ تیری برکتیں نازل ہوتی رہیں ۔" اس آیہ مبارکہ میں بتایا یہ بھی دُعا کرو ۔ کہ " اے الله کریم ہمیں ان لوگوں کی راہ سے بچا جو مغضوب اور گمراہ ہوئے ۔" 
مَغْضُوبٌ ۔۔۔( غضب سے ہے ) یعنی وہ لوگ جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے ۔ جن پر الله تعالی کا غصہ اور عذاب نازل ہوا ۔ جنہوں نے الله تعالی کے حکموں کی نافرمانی کی ۔ نبیوں کو جھٹلایا ۔ حق کو پہچان لینے کے بعد بھی اُس کو مٹانے کی کوشش کی ۔ جنہوں نے تیرے ڈراوے کی کوئی پرواہ نہ کی ۔اور جان بوجھ کر اپنے کاموں اور حرکتوں کی وجہ سے تیرے غصہ اور غضب کا نشانہ بنے۔ 
الضَّالِّین۔۔۔۔ ( گمراہ) اس سے مراد ایسے لوگ ہیں ۔ جو غلط راہ پر پڑ گئے ۔ یہ گمراہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہدایت کے اسباب تو موجود ہیں ۔ مگر جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کیا جائے ۔ یہ بات کبھی کبھی ذاتی خواہش کی وجہ سے اخلاق اور روحانیت کو چھوڑ دینے سے ۔ کبھی مال ودولت کے لالچ کی وجہ سے ۔ کبھی بُری رسموں اور بُری عادتوں میں پڑ جانے سے اور کبھی بُری صحبت سے پیدا ہوجاتی ہیں ۔ 
مفسرینِ کرام فرماتے ہیں  اَلْمَغْضُوبٌ عَلَیْھِمْ کی پوری مثال یہودی ہیں  جو الله کے غضب کا شکار ہوئے ۔ وہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء علیھم السلام کی توہین کرتے تھے ۔ اور اس ظلم میں اس قدر بڑھ گئے کہ انھیں قتل کرنے سے نہ ڈرتے تھے ۔ یوں یہ آیہ مبارکہ اُن سب کے حق میں عام ہے جو شرارت اور ذاتی بُرائی کی وجہ سے سچائی کی مخالفت جان بوجھ کر کرتے رہے ۔ اور اُن پر الله کا عذاب آیا ۔
اور اَلضَّالِّین کی ظاہری مثال عیسائیوں کی ہے ۔ جو نا واقفیت اور جہالت کی وجہ سے غلط راستے پر پڑ گئے ۔ اور انبیاء علیھم السلام کی تعظیم میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انھیں خُدا ہی بنا لیا ۔ اور شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ ان کے علاوہ جو بھی قوم حق کی راہ سے بھٹکے گی ۔ گمراہ کہلائے گی ۔اور الضَّالّین کی فہرست میں شامل ہو گی 
ہم الله جلّ شانُہٗ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے تمام لوگوں سے بچائے جن پر اُس کا غصہ اور غضب ہوا ۔ جو عملی غلطیوں کا شکار ہؤے ۔ اور جو سیدھی راہ سے بھٹک گئے ۔ اور عقیدے کی خرابی اور عمل کی بُرائی کا شکار ہوئے ۔
 آمین ثمَّ آمین ۔
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...