نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورة فاتحہ

سورة فاتحہ 

الحمد لله 

سورة الفاتحہ کی ابتداالحمد لله سے ہوئی ۔  الحمد کا مطلب ہے ہر طرح کی تعریف کیونکہ الله ہی کارخانۂ قدرت کا خالق ہے اور اس نے  جہان رنگا رنگ میں جو بھی چیز پیدا کی اس کی تعریف درحقیقت الله ہے کی تعریف ہے۔ الحمد کا لفظ بھی صرف الله ہی کے لیے خاص ہے۔ الحمد لله  یعنی ہم الحمد للرحمان نہیں کہہ سکتے ۔ 

الرحمٰن الرحیم

 وہ بڑا مہربان ہے اپنی تمام مخلوق پر۔ مخلوق اسے مانے یا نہ مانے ،  اس کی مانے یا نہ مانے ، مخلوق کے معاملات میں اس کی مہربانی بے حد وحساب  ہے جس کا شمار تو کیا مکمل احاطہ بھی ممکن نہیں ۔ البتہ آخرت میں اس کی شفقت مؤمنین کے لیے خاص ہوگی۔ 
قانون فطرت ہے کہ جب کوئی کسی کو نگران بناتا ہے خواہ کسی چھوٹے معاملے میں بنائے یا بڑے میں اس سے حساب ضرور لیتا ہے۔ کبھی ساتھ ساتھ لیتا رہتا ہے اور کبھی یکبارگی۔ الله سبحانہ وتعالی  نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب بنا کر بھیجا تو اس سے حساب بھی لے گا ۔ اس نے اس حساب کے لیے جو دن مقرر کیا اسے یوم الدین کہتے ہیں ۔ قیامت کا دن اس ایک ہی دن میں ایک ہی وقت پر وہ اپنی مخلوق سے حساب لے گا اسی لیے کہا کہ حساب کے دن کا وہی مالک ہے۔ 
اللھم حاسبنا حسابا یسیرا 

ایاک نعبد وایاک نستعین  ۔

 یہ آیت  نصف بندے کے لیے اورنصف اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے ہے۔ عبادت کا مطلب ہے زندگی کے ہر لمحے اور معاملے میں الله کی اطاعت کرنا اوراس کے احکام کو تسلیم کرنا۔ ایاک نستعین سے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے الله ! مان لیا ہے اب اس پر عمل کرنے ، اس کو نافذ کرنے میں ہمارا مددگار ہو اور ہماری استعانت فرما۔ 
ھدایت چار طرح کی ہے۔ 
1- فطری : جو الله تعالی کی طرف سے مخلوق کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی۔ بچہ بھوک لگنے پر روتا ہے ، کھانے کے لیے منہ کھولتا ہے ۔ جانور کا بچہ پیدا ہوتے ہی کھڑا ہوجاتا ہے ماں کے دودھ کی طرف لپکتا ہے۔ اپنی خوراک ،  اپنے دشمن کی پہچان رکھتا ہے۔ شیر کا بچہ کبھی گھاس نہیں کھاتا وغیرہ یہ سب فطری ھدایت کے مظاہر ہیں۔ 
2- کسبی:- یعنی جو ماحول سے ، گھر بار سے ، معاشرے اور حالات سے سیکھی جاتی ہے۔ 
3- عقلی : ایسی ھدایت جس میں عقل کا دخل ہوتا ہے۔ 
4- الہامی : جوھدایت الله کی طرف سے پیغمبروں پر الہام کی گئی۔ 
کسبی اور عقلی ھدایت جب تک الہامی ھدایت کے تابع نہ ہو نافع نہیں ۔ اھدنا میں اسی الہامی ھدایت کی دعا کی گئی۔ 
الله سبحانہ وتعالی ہماری کسبی و عقلی ھدایت کو الہامی ھدایت کے تابع فرمائے۔ 

سورة فاتحہ کی آخری آیت میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا ۔

1. انعام یافتہ :-

یعنی الہامی ھدایت یافتہ ، جن کی کسبی و عقلی ھدایت کی رہنمائی الہامی ھدایت کرتی ہے۔ ان میں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین شامل ہیں ۔  طبقہ صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین ان میں اولیت رکھتے ہیں ۔ جو نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے راستے پر چل کر ھدایت پانا چاہتا ہے اسے صحابہ کی پیروی لازمی  کرنی ہوگی ۔ 

2. مغضوب علیھم :

 یہ وہ گروہ ہے جو عقل سمجھ اور شعور رکھتا ہے لیکن ضد اور تکبر کی وجہ سے حق کو تسلیم نہیں کرتا ۔ صاحبِ علم ہونے کے باوجود ھدایت یافتہ نہیں ۔ یعنی اس کی کسبی و عقلی ھدایت الہامی ھدایت کے تابع نہیں 

3. الضالین:

بے علم ، جاہل اور لاپرواہ لوگ مراد ہیں ۔ جنہیں نا ھدایت کی طلب ہے ، نہ راہ حق کو جاننا چاہتے ہیں اور نہ حق سامنے آجائے تو اس کو پہچاننے اور ماننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 

جس طرح ھدایت کی دعا ضروری ہے اسی طرح ھدایت یافتہ لوگوں کی پہچان ضروری ہے تاکہ ان کی پیروی میں کامیابی و فلاح کی طرف گامزن ہوا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ المغضوب اور الضالین کی پہچان ، ان کے حالات اور ان کی نافرمانیوں سے آگاہی بھی ضروری ہے تاکہ ان کی پیروی سے بچا جا سکے۔ اسی لیے قرآن مجید میں الله سبحانہ وتعالی نے انعام یافتہ لوگوں کا ذکر فرمایا ، ان پر کیے گئے انعامات کا ذکر کیا۔ الله کی الہامی ھدایت پر ثابت قدمی کے صلہ میں ان کے لیے تیار کی گئی نعمتوں کا بھی ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ ہیں سرکش ، گمراہ مغضوب علیھم  اور الضالین کی مثالیں ، واقعات اور ان پر نازل کردہ عذاب کا ذکر فرمایا تاکہ ان کی پیروی سے بچا جا سکے۔
الله سبحانہ وتعالی ہمیں صراط مستقیم کی ھدایت و استقامت عطا فرمائے۔ 
آمین ۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...