نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

واحد اور احد میں فرق:

واحد اور احد میں فرق: 

عربی زبان میں واحد کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ایک کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ 
بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے ، جیسے ایک آدمی ، ایک قوم ، ایک ملک ، ایک دنیا ، حتی کہ ایک کائنات ، اور کسی مجموعہ کے ہر جز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے ۔
یعنی کسی قوم کا ایک آدمی 
یا کائنات کا ایک سیارہ ۔

لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ۔

” قل ھو الله احد” میں  لفظ احد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے ۔ 
عام طور پر  یہ لفظ یا تو مضاف یا مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
جیسے 
یوم الاحد ، ہفتے کا پہلا دن ، 
اور فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ اپنے کسی آدمی کو بھیجو 
یا نفی عام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 
جیسے
 ما جاء نی احد۔ میرے پاس کوئی نہیں آیا ۔ 
یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے۔
 جیسے
 ھل عندک احد؟ کیا تمہارے پاس کوئی ہے ؟ 
یا اسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے۔
جیسے
 ان جاء ک احد ، اگر تمہارے پاس کوئی آئے ۔ 
یا پھر گنتی میں بولا جاتا ہے۔ جیسے
 احد ، اثنان ، احد عشر ، ایک ، دو گیارہ ۔
 ان استعمالات کے سوا نزول قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض احد وصف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بولا گیا ہو ، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا ۔

اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالی کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں الہ واحد ، ایک ہی معبود ، یا اللہ الواحد القھار ، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے ، کہا گیا ہے ۔ محض واحد نہیں کہا گیا ، کیونکہ یہ لفظ ان چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں ، 

اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے احد کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے ،

اس غیر معمولی طرز بیان سے خودبخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکتا و یگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے ، موجودات میں سے کوئی دوسرا اس صفت سے متصف نہیں ہے ، وہ ایک ہے ، کوئی اس کا ثانی نہیں کیونکہ وجود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے اور جس کی وحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے ۔


استفادہ :تفہیم القران 



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...