نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سجدہ ۔۔۔

سجدہ


عن ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :
عبد الله بن عباس رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا 
 أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ 
مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے 
عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ 
سات ہڈیوں پر 
 عَلَى الْجَبْهَةِ
پیشانی پر 
 وَأَشَارَ بِيَدِهِ إلَى أَنْفِهِ 
اور اپنے ہاتھوں سے اپنی ناک کی طرف اشارہ فرمایا 
 وَالْيَدَيْنِ 
اور دونوں ہاتھوں پر 
 وَالرُّكْبَتَيْنِ 
اور دونوں گھٹنوں پر 
 وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ .
اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر 

وَلَا نَكْفِتَ الثِّيَابَ 

اور کپڑوں کو اکٹھا نہ کریں 

وَالشَّعَرَ".

اور نہ بالوں کو 

متفق علیہ 


یہ جو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان اعضاء پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ ناک اور پیشانی زمین پر لگانا فرض ہے بغیر ان کے رکھے سجدہ ادا نہ ہوگا۔ اگر سجدے میں دونوں پاؤں کے پنجے زمین سے بلند ہوں یعنی زمین پر رکھے ہوئے نہ ہوں تو نماز ٹوٹ جائے گی ، ایک پاؤں کا پنجہ زمین پر لگا ئے اور دوسرا بلند رکھے یعنی زمین پر لگا ہوا نہ ہو تو نماز مکروہ ہوجائے گی۔ پاؤں کے پنجوں کی انگلیاں قلبہ شریف کی طر ف ہوں اگر ایک انگلی بھی کعبہ شریف کی طر ف نہ ہو تو جائز نہ ہو گا۔

حدیث بالا سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول  الله صلی الله علیہ وسلم  نے سجدے میں جاتے وقت عادت کے تحت، یا خاک آلود ہونے کی وجہ سے ، کپڑے سمیٹنا منع فرمایا ہے ۔

آجکل  سجدے میں پاؤں رکھتے وقت بہت بے احتیاطی برتی جاتی ہے حالانکہ یہ بے احتیاطی ہی نماز کے فاسد ہونے کا باعث ہے۔ 

 عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 

اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ

سجدے میں اعتدال برتو ۔ 

وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ

اور تم میں سے کوئی فرد اپنے ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔ 

(راوی مسلم)

سجدے میں اپنی پیٹھ کو ہموار، ہاتھوں کو زمین پر، کہنیاں زمین سے بلند اور رانیں پیٹ سے جدا رکھنے کو اعتدال یا طمانیت کہتے ہیں اور یہی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔


براء بن عازب رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے ۔۔۔ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم 

إذَا سَجَدْت فَضَعْ كَفَّيْك 

سجدہ کرتے وقت اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھ 

وَارْفَعْ مِرْفَقَيْك 

اور اپنی کہنیاں زمین سے اٹھا لے 

 رَوَاهُ مُسْلِمٌ


وائل بن حجر رضی الله عنہ سے روایت ہے

’’ قال‘‘

وہ فرماتے ہیں کہ

 رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم

میں نے رسول اکرم  صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا 

اذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ

جب سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ زمین پر رکھنے سے پہلے دونوں گھٹنے زمین پر رکھتے

و اذا نھض‘‘ 

اور جب (سجدے سے ) اٹھتے

    رفع یدیہ قبل رکبتیہ 

تو گھٹنے اٹھانے سے پیشتر دونوں ہاتھ اٹھاتے۔

 (رواہ ابو داؤد و الترمذی ،و النسائی وابن ماجہ و الدارمی) 

عبدالرحمن بن شبل سے روایت ہے

’’ قال نہی رسول  ﷲ صلی  اﷲ علیہ وسلم

 وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم نے منع فرمایا ہے

’’ عن نقرۃ الغراب

 کوے کی طرح ٹھونگے مارنے سے۔

(رواہ ابوداؤد ، و النسائی

ابو داؤد عبداللہ بن اشعری رضی الله عنہ  سے روایت ہے ’’ ان رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رای رجلا 

یہ کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم  نے ایک شخص کو دیکھا 

’’لا یتم رکوعہ

کہ وہ اپنا رکوع پورا ادا نہیں کرتا

 ’’و ینقر فی سجودہ

 اور اپنے سجدے میں ٹھونگے مارتا ہے

وھو یصلی

حالانکہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ 

’’فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم

‘ پس رسو ل اکرم نے ارشاد فرمایا 

 لو مات ھذا علی حالہ ھذا

 اگر اسی حالت پر یہ مرجاؤے 

مات علی غیر ملۃ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم

تو یہ شخص حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ پر نہ مرا۔

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات پایہ ثبوت کوپہنچ چکی ہے کہ نماز میں تعدیل ارکان رکوع، سجود ، قومہ ، جلسہ میں طمانیت کتنی اہمیت رکھتے ہیں اور حضور اکرم  صلی الله علیہ وسلم  کی کتنی اہم سنن ہیں۔

پہلے تو عامۃ المسلمین نماز ہی ادا نہیں کرتے اور اگر ادا کرتے ہیں تو کس بے دردی سے ان سنن مطہرہ سے انحراف برتا جاتا ہے۔

 اس وقت تک ہماری نمازوں میں حظ ، لطف اور مقبولیت پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی یہ نمازیں ہمارے لئے نور ، حجت اور ذریعہ نجات بن سکتی ہیں جب تک کہ ہم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کے مطابق نماز ادا نہ کریں 

حضور اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا ہے۔ 

’’جو شخص میری امت میں فساد کے وقت میری ایک سنت کو بھی زندہ کرے گا تو اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا‘‘

لہٰذا اس پُر فتن و پرآشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ نماز میں اس طمانیت کی سنت کو زندہ کر کے (جو کہ اب مسلمانوں کے ہاتھوں مر چکی ہے) سو (۱۰۰) شہیدوں کا ثواب حاصل کرے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...