عورت کا غسل میت اور کفن

جب بھی کوئی عزیز اس دنیا سے چلا جائے تو اس کواچھے طریقے سے اور سنت طریقے سے اس دنیا سے رخصت کرنا چاہئیے ۔ اور قریبی رشتوں کا حق ہوتا ہے کہ اس کو خود نہلائیں اور کفن پہنائیں ۔۔۔ جس طرح زندگی کے تمام طور طریقے سیکھے جاتے ہیں اس طرح مرنے کے وقت کے اور بعد میں کیا کیا جائے ۔۔ کی بھی آگاہی ہونی چاہئیے ۔ کیونکہ موت سے تو کوئی گھر خالی نہیں ۔


میت کو غسل دینے کا طریقہ ۔۔۔۔۔۔۔

میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے : 

حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحب زادی (سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا) کو غسل دے رہے تھے ۔

تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے پانی اور بیري کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو یعنی تین یا پانچ بار، اور آخر میں کافور ملا لیں۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔‘‘

(بخاری، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما يستحب ان يغسل وتراً، 1 : 423، رقم : 1196)


میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر میت کو نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین، پانچ یا سات مرتبہ خوشبو سے دھونی دیں۔ 

پھر اس پر میت کو لٹا کر تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوائے لباس ستر کے۔۔۔۔ عام طور پر لباس اتار کر سفید چادر ڈالی جاتی ہے ۔۔۔۔ جس پر پانی ڈالیں تو جسم نظر آنے لگتا ہے ۔۔بہتر ہے کہ پھولدار چادر بڑے سائز کی ڈال لی جائے ۔ ضروری نہیں کہ نئی ہو ۔ پاک صاف دھلی ہوئی کاٹن کی چادر میت پر ڈال لی جائے ۔

پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ پہ کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز جیسا وضو کرائے 

لیکن میت کے وضو میں پہلے گٹوں تک ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اورناک میں پانی چڑھانا نہیں ہے کیونکہ ہاتھ دھونے سے وضو کی ابتدا زندوں کے لیے ہے۔ 

چونکہ میت کو دوسرا شخص غسل کراتا ہے، اس لیے کوئی کپڑا بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ناک کو صاف کیا جائے  ۔ پھر سر  پاک صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں طرف سر سے پاؤں تک بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا پانی بہائیں کہ تخت تک پانی پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ لٹا کر بائیں طرف اسی طرح پانی بہائیں۔ اگر بیری کے پتوں کا اُبلا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔ پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ خارج ہو تو دھو ڈالیں۔ پھر پورے جسم پر پانی بہائے۔ اس طرح کرنے سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ اس کے بعد اگر دو غسل اور دیئے تو سنت ادا ہو جائے گی ان کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو دوسری بار بائیں کروٹ لٹایا جائے اور پھر دائیں پہلو پر تین بار اسی طرح پانی ڈالا جائے جیسا کہ پہلے بتایا گیا۔ پھر نہلانے والے کو چاہیے کہ میت کو بٹھائے اور اس کو اپنے سہارے پر رکھ کر آہستہ آہستہ اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرے۔ اگر کچھ خارج ہو تو اس کو دھو ڈالے یہ دوسرا غسل ہوگیا۔ اسی طرح میت کو تیسری بار غسل دیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی۔ 

پہلے دونوں  غسل نیم گرم پانی بیری کے پتے/ صابن کے ساتھ دیئے جائیں۔ تیسرے غسل میں پانی میں کافور استعمال کی جائے۔ اس کے بعد میت کے جسم کو پونچھ کر خشک کر لیا جائے اور اس پر خوشبو مل دی جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔



عورت کا کفن ۔۔۔۔


 لیلی بنت قانف ثقفی سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: " میں ان خواتین میں شامل تھی جنہون نے ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت ہونے کے بعد غسل دیا تھا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے ہمیں تہہ بند دیا، اسکے بعد قمیص، پھر دو پٹہ دیا، اور آخر میں لفافہ، اور پھر سب سے آخر میں ایک اور کپڑے کے اندر انہیں لپیٹ دیا گیا"، لیلی بنت قانف کہتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے پاس ام کلثوم کیلئے کفن کے کپڑے تھے، آپ ایک ایک کرکے وہ کپڑے ہمیں دے رہے تھے"

( ابو داود )


عورت کے لیے کفن میں پانچ کپڑے سنت ہیں ۔۔۔۔

۱--- لفافہ یعنی چاردر جو میت کے قد سے اس قدر زیادہ ہو کہ دونوں طرف باندھ سکیں ۔۔۔

۲۔۔۔ ازار یعنی تہ بند چوٹی سے قدم تک یعنی لفافہ سے اتنا چھوٹا جو بندش کے لیے زیادہ تھا ۔۔۔۔

۳۔۔۔۔ قمیص جسے کفنی کہتے ہیں، گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو، چاک اور آستین اس میں نہ ہوں۔

 ۴۔۔۔۔ اوڑھنی ۔۔۔۔  اس کی مقدار تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز ہے

۵۔۔۔۔ سینہ بند ۔۔۔  سینہ سے ناف تک اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو 


مرد اور عورت کی کفنی میں فرق ہے۔ 

مرد کی کفنی مونڈھے پر چیریں اور عورت کے لیے سینہ کی طرف یعنی مرد کی کفنی کا گر بیان مونڈھے کی طرف ہوگا اور عورت کی کفنی کا سینہ کی طرف ہے۔



سورۃ آل عمران کا تعارف

 سورة آل عمران کا تعارف 


قرآن مجید کی تمام سورتیں جوڑوں کی مانند ہیں سورة بقرہ کا جوڑا سورة آل عمران ہے  
یہ مدنی سورة ہے اس میں دوسو آیات اور بیس رکوع ہیں ۔

سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت 


سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: 

”قرآن پڑھو کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا۔ اور دو سورتیں چمکتی پڑھو سورۂ البقرہ اور سورۂ ال عمران اس لئے کہ وہ میدان قیامت میں آئیں گی گویا دو بادل ہیں یا وہ سائبان یا دو ٹکڑیاں ہیں اڑتے جانور کی اور حجت کرتی ہوئی آئیں گی اپنے لوگوں کی طرف۔ 
صحیح مسلم ۔ 1874
ایک روایت کے مطابق سورة آل عمران کا شان نزول یہ ہے کہ ہجرت کے بعد جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو دین اسلام کی روشنی دور دور تک پھیل گئی ۔ مدینہ کے آس پاس کے یہودیوں نے اسلام کی سچائی کو پہچان کر بھی دین حق کو قبول نہیں کیا۔  عرب کے جنوب میں یمن کے ایک علاقے کا نام نجران ہے اس وقت وہاں عیسائیوں کی آبادی تھی ۔ نجران کے عیسائیوں کی ایک جماعت بحث اور مناظرے کے لیے مدینہ طیبہ آئی ۔ یہ جماعت چودہ بڑے بڑے لوگوں پر مشتمل تھی جن میں تین خاص طور پر مشہور تھے ۔ 
ان کا بڑا سرداراوردولتمند عبد المسیح عاقب 
ماہر سیاستدان ایہم السید 
 مذہبی علوم کا ماہر ابو حارثہ بن عقلمہ 
یہ لوگ مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے تفصیلی گفتگو کی جس کا ذکر سورة آل عمران میں ہے ۔ 

سورة بقرہ میں خاص طور پر بنی اسرائیل کی جانب خطاب تھا سورة آل عمران میں عیسائیوں سے خطاب ہے ۔
سورة آل عمران میں اہل کتاب کواتحاد وتعاون کی دعوت دی گئی کہ کم ازکم توحید کی تعلیم اور تبلیغ و اشاعت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کریں کہ یہ ہم سب کا متحدہ مقصد ہے ۔ 
تمام انبیاء علیھم السلام دنیا میں پیغام توحید لے کر آئے اور نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم اس سلسلہ کی آخری کڑی ہیں آپ کی امت “خیر امت “ کے شرف وکمال کی مالک ہے  یہ بیان کرنے کے ساتھ اس امت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ فرمایا اور بتایا کہ ایسے اعمال  سے پرھیز کرو جن کی وجہ سے پہلی امتیں تباہ ہوئیں 

سورة آل عمران کے آخری حصے میں اسلامی تاریخ کے دو اہم واقعات یعنی غزوہ بدر اور غزوہ احد جو ہجرت کے دوسرے اور تیسرے سال  پیش آئے ان کے اسباب اور نتائج کا تجزیہ کیا گیا ۔ جو خصوصی توجہ سے مطالعہ کے قابل ہے ۔ 

سورۃ النازعات، آیات: 5,6,7

سورۃ النازعات 


 فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا (5)

پھر جو حکم ملتا ہے اس (کو پورا کرنے) کا انتظام کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچویں صفت:

فرشتوں کا آخری کام یہ ہوتا ہے کہ الله تعالی کے حکم کا انتظام کرتے ہیں جس روح کو ثواب اور راحت کا حکم ہو اس کے لیے راحت کے اسباب جمع کر دیتے ہیں اور جس روح کے لیے تکلیف اور عذاب کا حکم ہو اس کے لیے عذاب کے اسباب  کا انتظام کرتے ہیں۔  

فائدہ:

موت کے وقت فرشتوں کا آنا اور انسان کی روح نکال کر آسمان کی طرف لے جانا پھر اس کے اچھے یا برے ٹھکانے پر جلدی سے پہنچا دینا اور وہاں ثواب یا عذاب اور راحت یا تکلیف کا انتظام کرنا ان آیات سے ثابت ہے۔ یہ ثواب و عذاب، قبر یعنی برزخ میں ہوگا۔ حشر کا عذاب و ثواب اس کے بعد ہوگا۔ صحیح احادیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ 

سوال:

غیر الله کی قسم کھانا جائز نہیں۔ الله تعالی نے خود یہاں غیر الله کی قسم کھائی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ 

جواب: 

(1) الله تعالی کی ذات کسی حکم اور قانون کی پابند نہیں، یہ حکم مخلوق کے لیے ہے۔ مخلوق کو غیر الله کی قسم سے اس لیے منع کیا گیا کہ کہیں قسم کھانے والا اس چیز کو ایسا عظیم اور بڑا نہ سمجھنے لگے جیسا الله  کو سمجھنا چاہیے۔ 

(2) یہاں مضاف محذوف ہے۔ اصل عبارت یوں ہے “ و ربُّ النّٰزِعٰتِ “ روح کھینچنے والے فرشتوں کے رب کی قسم۔

فائدہ :

 بعض مفسرینِ کرام نے فرمایا ہے کہ نازعات سے مراد ستارے ہیں۔ ان کے اس قول کے مطابق ستارے رات کے وقت اپنے آپ کو کھینچ کر لاتے ہیں۔ جس طرح الله کی قدرت انہیں ڈوب جانے کے بعد دوبارہ طلوع اور روشن کر دیتی ہے اسی طرح یہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔  ان مفسرین کے قول کے مطابق ناشطات سے مراد ایسے ستارے ہیں جو چلنے والے ہیں اور السابحات سے مراد وہ ستارے ہیں جو اپنے دائرے میں تیرتے ہیں اور فالسابقات سے مراد ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ستارے ہیں؛ البتہ المدبرات فرشتوں کی صفت ہے ستاروں کی نہیں۔ 

ربط آیات: 6۔ تا۔ 14

 پچھلی آیات میں قیامت کو شروع کرنے والی یعنی موت کا ذکر تھا۔ اب قیامت کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ 


يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ (6)

کہ جس دن بھونچال (ہر چیز کو) ہلا ڈالے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی اے کافرو! تم قیامت کا انکار کرتے ہو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ ضرور زندہ کیا جائے گا۔ ایک ہلا دینے والی چیز سب چیزوں یعنی زمین، پہاڑ ، درخت وغیرہ ہلا دے گی۔ اس وقت یہ حالت ہو گی کہ ہر چیز لرز جائے گی اور آخر کار فنا و برباد ہو جائے گی۔ یہ سب اس وقت ہوگا جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا۔ 


 تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ (7)

پھر اس کے بعد ایک اور جھٹکا آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پہلی دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا۔  جو پہلے سے متصل زمانہ ہوگا۔ یعنی یہ دونوں زمانے یوم واحد ہوں گے۔ دوبارہ صور پھونکے جانے سے تمام انسان و حیوان دوبارہ زندہ ہو جائیں گے اور عدالت الہی میں حاضر ہوں گے۔ 

سوال:

 دو بار  صور پھونکنے کے درمیان کتنا زمانہ ہوگا؟

جواب:

ابن عباس رضی الله عنہ و دیگر مفسرین کا بیان  ہے۔  راجفہ سے مراد پہلا نفخہ ہے اور رادفہ سے مراد دوسرا نفخہ ہے اور ان دونوں کے درمیان چالیس برس کی مدت ہوگی۔ 


سورۃ النازعات: آیات، 2,3,4

سورۃ النازعات 


 وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا (2      

اور جو (مومنوں کی روح کی) گرہ نرمی سے کھول دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری صفت:

اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو مؤمن کی جان نکالنے آتے ہیں۔ فرشتے مؤمنوں کی روح کو نہایت آسانی اور سہولت سے  نکالتے  ہیں، شدت اور سختی نہیں کرتے؛ کیونکہ مؤمن روح کے سامنے برزخ کا انعام اور ثواب ہوتا ہےجسے دیکھ کر وہ جلدی سے ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے  ہوا یا پانی، کسی چیز میں  بند ہو اور اس کا  ڈھکن کھول دیا جائے،  وہ نہایت آسانی  اور تیزی سے باہر نکل جاتی ہے، اسی طرح مؤمن کی روح نکلتی ہے۔ یہاں بھی آسانی سے مراد روحانی آسانی ہے۔ بعض اوقات مؤمن پر موت کی سختی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کو  سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ 


وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا (3)

 پھر (فضا میں) تیرے ہوئے جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری صفت:

اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو انسان کی روح نکالنے کے بعد تیزی سے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص دریا میں تیرتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو تو جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے اسی طرح فرشتے بھی آسانی اور تیزی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ 

 

فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۔ (4)

 پھر تیزی سے لپکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

چوتھی صفت:

اس سے مراد یہ ہے کہ جو روح ان فرشتوں کے قبضے میں ہے اسے لے کر اچھے یا برے ٹھکانے پر تیزی سے پہنچاتے ہیں۔ روح کے بارے میں جو بھی حکم ہوتا ہے یعنی مؤمن کی روح کو جنت کی فضا اور نعمتوں کے مقام پر اور کافر کی روح  کو دوزخ کی فضا اور عذاب کی جگہ پر فوراً پہنچا دیتے ہیں۔ 

فائدہ: قرآنِ کریم میں اصل لفظ، صرف اتنا ہے کہ ’’قسم اُن کی جو سختی سے کھینچتے ہیں‘‘ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے اس کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ اس سے مراد رُوح قبض کرنے والے فرشتے ہیں جو کسی کی (عام طور سے کافروں کی) رُوح کو سختی سے کھینچتے ہیں، اور کسی کی ( عام طور سے مومنوں کی) روح کو آسانی سے اس طرح کھینچ لیتے ہیں جیسے کوئی گرہ کھول دی ہو۔ پھر وہ ان رُوحوں کو لے کر تیرتے ہوئے جاتے ہیں، اور جلدی جلدی اُن کی منزل پر پہنچا کر ان احکام کے مطابق اُن کا انتظام کرتے ہیں جو ﷲ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں دئیے ہوتے ہیں۔

 پہلی چار آیتوں کا یہی مطلب ہے۔


سورۃ النازعات ، اسماء و روابط : آیت۔ 1

سورۃ النازعات 

 اسماء سورة

عم پارے کی دوسری سورة  النازعات کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نام اس  سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة الساھرہ اور سورة الطامہ بھی کہا جاتا ہے۔ مکی سورة ہے اورچھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔ 

روابط 

اس سے پہلی سورة یعنی  “النباء” میں قیامت کے متعلق کفار کے انکار اور سوال کا جواب دیا گیا ہے اور قیامت کے واقع ہونے کو دلائل سے ثابت کرکے منکرین کی سزا اور متقین کی جزا کا بیان کیا گیا۔ اب سورة النازعات میں قسم کے ساتھ،  قیامت کی ابتداء یعنی موت کی کیفیت کا بیان ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی قیامت شروع  ہوجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے “ من مات فقد قامت قیامتہ” (جو شخص مرگیا گویا اس کے لیے قیامت واقع ہو گئی)۔  یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موت قیامت کا ایک سبب ہے اور جس طرح انسان سے اس کی موت زیادہ دور نہیں اسی طرح قیامت بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ 

ربط آیات: ۱ تا ۵

سورت کے شروع میں فرشتوں کی ان پانچ  صفات کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کی موت اور نزع کے عالم سے ہے۔ فرشتوں کی قسم اس لیے کھائی گئی کہ فرشتے اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے الله تعالی کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب دنیا کے تمام اسباب ختم ہو جائیں گے فرشتے ہی الله تعالی کے حکم سے مختلف کام انجام دیں گے۔ 


وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ﴿١﴾


قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (کافروں کی روح) سختی سے کھینچتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی صفت: نازعات کا لفظ “نزع “ سے نکلا ہے جس کے معنی کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں اور غرقاً اس کی تاکید ہے جس کا معنی ہے، ڈوب کر یعنی پوری شدت کے ساتھ۔ 

اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو کافروں کی روح نکالتے ہیں۔ کافر کی روح آخرت کی مصیبتوں سے گھبرا کر اس کے بدن میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، اس لیے فرشتے اس کے بدن میں گُھس کر سختی سے کھینچ کر اس کی روح کو باہر نکالتے ہیں، جس سے اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ 

 بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ کافر کی جان بہت آسانی سے نکل گئی ہے لیکن یہ آسانی صرف  ظاہری ہوتی ہیں اس کی روح کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ الله تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ چنانچہ اس سختی سے روحانی تکلیف اور سختی مراد ہے ، دیکھنے والے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ 


حروفِ مقطعات ۔ حٰم سے شروع ہونے والی سورتیں

حم سے شروع ہونے والی سورتیں

 ایسی سات سورتیں ہیں ۔ جو " حٰم " سے شروع ہوتی ہیں 

اور انہیں " حوامیم کہا جاتا ہے
(1) سورہ غافر
 (2) سورہ فصلت
 (3) سورہ زخرف
 (4) سورہ دخان
(5) سورہ جاثیہ
 (6) سورہ احقاف 
(7) سورہ شوری۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا

وحی کی ابتدا


عروہ بن زبیررحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے فرمایا : 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجو سب پہلے ابتداہوئی  وہ نیندمیں سچی خوابیں تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوبھی خواب دیکھتے وہ روشن صبح کی طرح واقع ہوجاتی ۔

 پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلوت پسند کرنے لگے تووہ غار حراء میں جا کر کئ کئ راتیں عبادت کرتے اوراس کے لیےاپنے گھروالوں سے کچھ کھانے پینے کی اشیاء لے جاتے ۔ 

پھرخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس آتے اوراسی طرح کھانے پینے کی اشیاء لے جاتے ۔

 حتی کہ ان کے پاس اچانک حق (یعنی فرشتہ) آيا تووہ غارحراء میں ہی تھے ۔ اس طرح ان کے پاس فرشتہ آکرکہنے لگا : پڑھو! ، 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں توپڑھا ہوا نہیں 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس فرشتے نے مجھے پکڑکر بھینچا حتی کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئ تواس نے مجھے چھوڑدیا 

اورکہنے لگا : پڑھو! 

میں نے جواب کہا میں توپڑھا ہوانہیں 

اس سے مجھے دوسری بارپکڑ کربھینچا حتی کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئ توچھوڑ دیا 

پھر کہنے لگا : پڑھو ! 

میں نے جواب میں کہا میں توپڑھا ہوانہیں 

اس نے پھرمجھے تیسری بار پکڑکردبایا حتی کہ میں نے تکلیف محسوس کی تواس نے چھوڑ دیا 

پھر کہنے لگا : 

{ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا فرمایا ، جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیدا فرمایا ، توپڑھـ اورتیرا رب بڑے کرم والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا }

 العلق ( 1 - 4 ) ۔ 

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی لیے کانپتے ہوۓ خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس داخل ہوۓ اورفرمانے لگے : 

مجھے چادر اڑھاؤ 

 مجھے چادراڑھاؤ

توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوچادر دی حتی کہ ان سے وہ خوف جاتا رہا ۔ 

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کوفرمانے لگے : 

اے خدیجہ ! مجھے کیا ہے کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ؟ 

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قصہ انہیں بتایا ۔ 

توخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں : 

آپ خوش ہوجائيں اللہ تعالی کی قسم اللہ تعالی آّپ کوکبھی بھی رسوا نہیں کرے گا ۔

اللہ کی قسم آپ توصلہ رحمی اور سچی بات کرتے ہیں ، اورآپ کمزوراور ضعیف لوگوں کا بوجھ اٹھاتے اورفقیر کی مدد کرتے اورمہمان کی مہان نوازی کرتے اور حق کی مدد کرتے ہیں ۔ 

توخدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا انہں لے کر ورقہ بن نوفل ( وہ خدیجہ کا چچا زاد تھا ) کے پاس گئيں جو کہ جاھلیت میں نصرانی ہوگیا تھا اورعربی میں کتاب لکھتا اورجتنا بھی اللہ تعالی چاہے انجیل عبرانی میں لکھتا تھا اوربہت زيادہ بوڑھا اورنابیناہوچکا تھا 

خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا اسے کہنے لگیں : اے چچا کے بیٹے اپنے بھتیجے کی بات سن توورقہ کہنے لگا بھتیجے تم نے کیا دیکھا ؟ 

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ دیکھا اسے سب کچھ بتادیا 

ورقہ کہنے لگا یہی وہ پاکبازناموس ہے جوموسی علیہ السلام پربھی نازل ہوتا تھا ، کاش میں جوان ہوتا ، کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب تیری قوم تجھے یہاں سے نکال دے گی 

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ 

ورقہ بن نوفل کہنے لگا جی ہاں جو بھی اس طرح کی چيزلے کے آیا جس طرح کی آّپ کے پاس ہے اسے تکالیف دی گئيں ، اگر میں اس دن تک زندہ رہا توتیری بہت زيادہ مدد کرونگا ، تو اس کے بعد ورقہ بن نوفل کچھ ہی مدت زندہ رہ کر اس دنیا فانی سے کوچ کرگيا ۔ 

اور وحی کچھـ مدت کے لیے رک گئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوگۓ ۔ 

محمد بن شہاب بیان کرتے ہیں : 

مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ جابربن عبداللہ انصاری رضي اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

 اوروہ وحی کے رکنے کے فترہ کی بات کررہے تھے ) میں چل رہا تھا تواچانک میں نےآسمان سے آواز سنی  تواوپرنظراٹھاکردیکھا تووہ ہی فرشتہ جوغار ِحراء میں آیا تھا آسمان کے درمیان ایک کرسی پربیٹھا ہوا تھا تومیں سے اس خوفزدہ ہوکر واپس لوٹ آیا اورکہنے لگا : 

مجھے چادراڑھاؤ مجھ پرچادر ڈالو ، توان پرچادر ڈال دی گئ 

اللہ تعالی نے اپنا یہ فرمان نازل فرمایا : 

{ اے کپڑا اوڑھنے والے ! کھڑا ہوجا اورآگاہ کردے ، اوراپنے رب کی بڑائياں بیان کر ، اوراپنے کپڑوں کوپاک صاف رکھا کر، اورناپاکی کوچھور دے } 

ابوسلمہ کہتے ہيں کہ اس سے مراد وہ بت ہیں جن کی اہل جاہلیت عبادت کرتےتھے ۔ 

فرماتے ہیں کہ اس کے بعد پھروحی کا سلسلہ چل نکلا اورمسلسل وحی آتی رہی ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4671 )صحیح مسلم حدیث نمبر ( 160 )


نماز کی شرائط

نماز کی شرائط


نماز کی شرطیں نماز کے وہ فرائض ہیں جو نماز سے باہر ہیں اور اُن کے بغیر نماز واجب یا صحیح نہیں ہوتی 
پس نماز کی شرطیں دو قسم کی ہیں

1-: نماز کے واجب ہونے کی شرطیں اور وہ پانچ ہیں

١. اسلام یعنی مسلمان ہونا کافر پر نماز فرض نہیں ہے

٢. صحتِ عقل، بےعقل پر نماز فرض نہیں ہے

٣. بلوغ، نابالغ پر نماز فرض نہیں ہے

٤. نماز سے عاجز نہ ہونا مثلاً عورتوں کو حیض و نفاس سے پاک ہونا وغیرہ

٥.  نماز کا وقت ہونا ۔۔۔۔

2-: نماز کے صحیح ہونے کی شرطیں اور وہ بہت سی ہیں لیکن جو مشہور ہیں اور ہر نماز سے تعلق رکھتی ہیں وہ سات ہیں

۱- جسم کا پاک ہونا 
۲- کپڑوں کا پاک ہونا 
۳- جگہ کا پاک ہونا 
۴- نماز کا وقت ہونا 
۵- قبلہ کی طرف منہ کرنا .
۶-نیت کرنا 
٧. تکبیر تحریمہ
والله اعلم 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں