نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ آل عمران کا تعارف

 سورة آل عمران کا تعارف 


قرآن مجید کی تمام سورتیں جوڑوں کی مانند ہیں سورة بقرہ کا جوڑا سورة آل عمران ہے  
یہ مدنی سورة ہے اس میں دوسو آیات اور بیس رکوع ہیں ۔

سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت 


سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: 

”قرآن پڑھو کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا۔ اور دو سورتیں چمکتی پڑھو سورۂ البقرہ اور سورۂ ال عمران اس لئے کہ وہ میدان قیامت میں آئیں گی گویا دو بادل ہیں یا وہ سائبان یا دو ٹکڑیاں ہیں اڑتے جانور کی اور حجت کرتی ہوئی آئیں گی اپنے لوگوں کی طرف۔ 
صحیح مسلم ۔ 1874
ایک روایت کے مطابق سورة آل عمران کا شان نزول یہ ہے کہ ہجرت کے بعد جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو دین اسلام کی روشنی دور دور تک پھیل گئی ۔ مدینہ کے آس پاس کے یہودیوں نے اسلام کی سچائی کو پہچان کر بھی دین حق کو قبول نہیں کیا۔  عرب کے جنوب میں یمن کے ایک علاقے کا نام نجران ہے اس وقت وہاں عیسائیوں کی آبادی تھی ۔ نجران کے عیسائیوں کی ایک جماعت بحث اور مناظرے کے لیے مدینہ طیبہ آئی ۔ یہ جماعت چودہ بڑے بڑے لوگوں پر مشتمل تھی جن میں تین خاص طور پر مشہور تھے ۔ 
ان کا بڑا سرداراوردولتمند عبد المسیح عاقب 
ماہر سیاستدان ایہم السید 
 مذہبی علوم کا ماہر ابو حارثہ بن عقلمہ 
یہ لوگ مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے تفصیلی گفتگو کی جس کا ذکر سورة آل عمران میں ہے ۔ 

سورة بقرہ میں خاص طور پر بنی اسرائیل کی جانب خطاب تھا سورة آل عمران میں عیسائیوں سے خطاب ہے ۔
سورة آل عمران میں اہل کتاب کواتحاد وتعاون کی دعوت دی گئی کہ کم ازکم توحید کی تعلیم اور تبلیغ و اشاعت میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کریں کہ یہ ہم سب کا متحدہ مقصد ہے ۔ 
تمام انبیاء علیھم السلام دنیا میں پیغام توحید لے کر آئے اور نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم اس سلسلہ کی آخری کڑی ہیں آپ کی امت “خیر امت “ کے شرف وکمال کی مالک ہے  یہ بیان کرنے کے ساتھ اس امت کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ فرمایا اور بتایا کہ ایسے اعمال  سے پرھیز کرو جن کی وجہ سے پہلی امتیں تباہ ہوئیں 

سورة آل عمران کے آخری حصے میں اسلامی تاریخ کے دو اہم واقعات یعنی غزوہ بدر اور غزوہ احد جو ہجرت کے دوسرے اور تیسرے سال  پیش آئے ان کے اسباب اور نتائج کا تجزیہ کیا گیا ۔ جو خصوصی توجہ سے مطالعہ کے قابل ہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...