مفعول مطلق مصدر ہوتا ہے ۔ وہ مصدر جو مفعول ہو اور اس سے پہلے اسی مصدر سے فعل آیا ہو ۔
مثال ۔۔۔ لَعِبَ حسنٌ لَعْباً
حسن کھیل کھلتا ہے ۔
غور کرو ۔۔لعبٌ مصدر ہے ۔ لَعِبَ ۔۔۔ فعل ماضی ۔۔۔ فعل ۔۔۔ حسن ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ اور
لَعْبًا ۔۔۔۔ اسی مصدر سے مفعول آ رہا ہے
مفعول مطلق کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے ۔
ایک ۔۔۔ فعل کی تاکید کرنے کے لئے ۔۔۔ یَشْرِبُ الطِّفْلَ اللَّبَنَ شُرباً ۔۔۔ بچے نے واقعی دودہ پیا
ضَرَبَ الْخادِمُ العَقْرَبَ ضَرْبَۃً۔ ۔۔۔ خادم نے بچھو کو مار ڈالا
دو ۔۔۔ فعل کس قسم کا ہے یہ بیان کرنے کے لئے ۔۔۔۔ مَشٰی الطِّفْلُ مِشْیَۃ الْوَالد ۔۔۔ یعنی نوعیت بیان کر رہا ہے ۔۔۔ بچہ باپ کی طرح چلا ۔ اور
جَلَسْتُ جَلْسَۃَ القَارِی ۔۔۔ میں پڑھنے والے کی طرح بیٹھا ۔۔۔ جلستُ ۔۔۔ فعل ۔۔فاعل اور جَلْسہ۔۔ مفعول مطلق
تین ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے ۔۔۔ تَدُورُ الْاَرْضُ دَوْرَۃً فِی الْیَوْم ۔۔۔ زمین ایک دن میں کئی چکر لگاتی ہے ۔
ضربْتُ الْفاطمہ ضربۃً ۔۔۔ میں نے فاطمہ کو ایک چپیڑ لگائی
قاعدہ اس کا یہ ہے کہ قسم یا نوعیت بیان کرنے کے لئے " فِعْلَۃً " کے وزن پر ۔۔۔ اور ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے " فَعلَۃً " کے وزن پر مصدر بنایا جاتا ہے
سمجھ میں آیا ۔۔۔ خوب سمجھ لو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں