زمانہ حج اور اخلاقی حدود
حج اور عمرہ کی قربانی
حج اور عمرہ کی قربانی
فَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَمِنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَن۔۔۔ تَمَتَّعَ ۔۔۔ بِالْعُمْرَةِ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الْحَجِّ
پس جب ۔۔ تم امن میں ہو ۔۔۔ پس جو ۔۔ فائدہ اٹھائے ۔۔۔ تک ۔۔۔ حج
فَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسْتَيْسَرَ۔۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْهَدْيِ ۔۔۔ فَمَن ۔۔۔ لَّمْ يَجِدْ
پس جو ۔۔۔ میسر ہو ۔۔۔ سے ۔۔۔ قربانی ۔۔۔ پس جو ۔۔۔ نہ پائے
فَصِيَامُ ۔۔۔۔۔۔ ثَلَاثَةِ ۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔فِي الْحَجِّ ۔۔۔ وَسَبْعَةٍ
پس روزے ۔۔۔ تین ۔۔ دن ۔۔۔ حج میں ۔۔۔ اور سات
إِذَا ۔۔۔ رَجَعْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تِلْكَ ۔۔۔۔ عَشَرَةٌ ۔۔۔ كَامِلَةٌ
جب ۔۔ تم واپس لوٹو ۔۔۔ یہ ۔۔۔ دس ۔۔۔ پورے
فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ
پس جب تمہاری خاطر جمع ہو تو جو کوئی فائدہ اٹھائے عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تو جو کچھ قربانی میسر ہو ۔ پھر جسے قربانی نہ ملے وہ روزے رکھے تین دن حج کے دنوں میں اور سات روزے جب تم لوٹو ۔ یہ دس پورے ہوئے ۔
أَمِنْتُمْ ۔ تم امن میں ہو ۔ یعنی خطرے اور مرض کی حالت سے نکل کر تم امن امان میں آجاؤ ۔
تَمَتّعَ ۔ ( فائدہ اٹھائے ) لفظی معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں ۔ فقہ کی اصطلاح میں اس سے مراد حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کرنا ہے ۔ یعنی حج کے زمانہ میں ایک احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا جائے ۔ پھر دوسرے احرام سے حج ادا کیا جائے ۔ جاہلیت کے زمانے میں عربوں نے یہ غلط عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ حج کے موسم میں عمرہ کرنا گناہ ہے ۔۔۔۔
اَذِا رَجِعْتُم ۔ ( جب تم لوٹو) اس سے مراد یہ ہے کہ حج کے اعمال سے فارغ ہو کر واپس آؤ ۔ خواہ حج کرنے والا ابھی
مکہ میں ہی ہو ۔ اور اپنے وطن واپس نہ گیا ہو ۔ البتہ بعض علماء نے اس سے صرف یہ مراد لیا ہے کہ جب مکہ سے گھر واپس پہنچ جاؤ ۔
اس آیت میں اس حاجی کا حکم بیان کیا گیا ہے ۔ جو موسمِ حج میں عمرہ اور حج دونوں ادا کرے ۔ اس کو حج قران یا تمتع کہتے ہیں ۔ ایسے حاجی پر قربانی واجب ہے ۔ جو ایک بکرا ہے ۔ یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے ۔ یہ قربانی اس پر واجب نہیں جو فقط حج ادا کرے اور اس کے ساتھ عمرہ نہ کرے ۔
جو حج قران یا تمتع کریں لیکن انہیں قربانی میسر نہ ہو افلاس کی وجہ سے یا کسی اور قوی عذر کی وجہ سے قربانی نہ دے سکیں ۔ تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دس روزے رکھیں ۔ تین حج کے دنوں میں ۔۔ جو یوم عرفہ یعنی نویں ذالحج پر ختم ہوتے ہیں ۔ اور سات واپس وطن پہنچ کر
روزوں کی شکل میں یہ کفارہ دینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ آدمی جب الله تعالی کا حکم پورا نہ کرسکے تو کہیں اس کا نفس اسے بغاوت یا نافرمانی کی طرف نہ لے جائے ۔ اس لئے اس کے بدلے روزے رکھے تاکہ اس کا نفس پاکیزہ اور اس کی نیت نیک رہے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
حج و عمرہ کے چند احکام
حج و عمرہ کے چند احکام
وَالْعُمْرَةَ ۔۔۔۔۔۔۔ لِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنْ ۔۔۔۔۔ أُحْصِرْتُمْ
اور عمرہ ۔۔ الله تعالی کے لئے ۔۔ پس اگر ۔۔۔ تم روک دئے جاؤ
فَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسْتَيْسَرَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔الْهَدْيِ
۔۔ پس جو ۔۔ میسر ہو ۔۔ سے ۔۔۔ قربانی
وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ
اور عمرہ الله تعالی کے لئے پورا کرو پھر اگر روک دئیے جاؤ تو جو میسر آئے قربانی کرنی چاہئیے ۔
اَلْعُمْرَة ۔ عمرہ ۔۔۔ اسے چھوٹا حج بھی کہتے ہیں ۔ عمرہ ادا کرنے کے آداب حج جیسے ہی ہیں ۔ البتہ عمرہ کرنے کے لئے ایّامِ حج کی قید نہیں ۔ ہر وقت ادا ہو سکتا ہے ۔ دوسرے اس کے مناسک و مراسم بھی حج سے کم ہیں ۔
لِلّٰه ( الله کے لئے ۔ حج و عمرہ محض الله سبحانہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لاؤ ۔ نیت خالص رکھو ۔ اور ان قاعدوں اور حکموں کا دیانتداری کے ساتھ خیال رکھو ۔ جو الله تعالی نے مقرر فرمائے ہیں ۔ ان باتوں سے بچو جن سے منع کیا گیا ہے ۔
یوں تو سارے کام اور ارادے الله تعالی کی خوشنودی کے لئے ہی ہونے چاہئیے ۔ لیکن یہاں حج اور عمرہ کے ساتھ اس پرخاص زور اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس میں سفر در پیش آتا ہے ۔ جس میں سیر و تفریح اور اچھی بُری بہت سی اغراض بآسانی شامل ہو سکتی ہیں ۔ اس لئے لازم ہے کہ تمہاری اوّلین غرض الله جل شانہ کی رضا کے سوا کچھ نہ ہو ۔ سیروسیاحت ازخود ہو جائے گی ۔ تجارت کی اجازت ہے ۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا سکتے ہو ۔ لیکن تجارت کو سفرِ حج کا مقصد نہیں بنا سکتے ۔ نہ بے ایمانی اور چوری کی تجارت کر سکتے ہو ۔ ان باتوں کی اجازت نہیں ۔
اُحْصِرْتُمْ ۔ (تم روک دئیے جاؤ ) یہ لفظ حصار سے بنا ہے ۔ جس کے معنی گِھر جانے اور بند ہوجانے کے ہیں ۔ خواہ یہ گِھر جانا کسی سبب سے ہو ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ حج کا ارادہ رکھنے والا کسی بیماری کی وجہ سے منزل پر نہ پہنچ سکے یا کسی دشمن نے اس کا راستہ روک رکھا ہو ۔ یا کوئی موسمی اور دوسری رکاوٹ حائل ہو گئی ہو ۔
ھَدی ۔ ( قربانی) ۔ لفظی معنی اس پیشکش کے ہیں ۔ جو خانہ کعبہ کے لئے بھیجی جائے ۔ یہاں اس سے مراد قربانی کے جانور ہیں ۔
اس آیت میں الله تعالی نے مسلمانوں کو حج اور عمرہ کے حکم کے ساتھ یہ فرمایا ہے ۔ کہ اس عبادت کو بجا لانے میں صرف ایک مقصود پیشِ نظر ہونا چاہئیے ۔ یعنی الله جل جلالہ کی رضامندی اور خوشنودی ۔ نہ تو اس سفر سے کھیل تماشہ مطلوب ہو اور نہ سیر و تفریح ۔ بلکہ جس قدر قواعد الله تعالی نے بیان فرمائے ہیں ان کے مطابق عمل ہونا چاہئیے ۔
اس حکم میں الله تعالی نے معذور لوگوں کے لئے رعائت بھی رکھی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص حج یا عمرہ کرنے کے لئے احرام باندھ لے لیکن بدقسمتی سے راستے میں وہ بیمار پڑ جائے ۔ یا کوئی اور دشواری یا مجبوری پیش آجائے ۔مثلا راستہ نہ ملے ۔ زادِ راہ نہ رہے وغیرہ ان تمام صورتوں میں اس کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا جانور کسی دوسرے کے ہاتھ بیت الله بھیج دے ۔
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
سر منڈانا
سر منڈانا
وَلَا تَحْلِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُءُوسَكُمْ ۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔ يَبْلُغَ ۔۔۔ الْهَدْيُ
اور نہ تم منڈاؤ ۔۔۔ اپنے سر ۔۔ یہاں تک ۔۔۔ پہنچ جائے ۔۔۔ قربانی
مَحِلَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ مِنكُم ۔۔۔ مَّرِيضًا ۔۔۔ أَوْ بِهِ
اپنی جگی ۔۔۔ پھر جو کوئی ۔۔۔ ہو ۔۔ تم میں سے ۔۔۔ مریض ۔۔ یا اس کو
أَذًى ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔۔ رَّأْسِهِ ۔۔۔۔۔۔۔ فَفِدْيَةٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ صِيَامٍ ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔ صَدَقَةٍ ۔۔۔ أَوْ نُسُكٍ
تکلیف ۔۔۔ سے ۔۔ سر اس کا ۔۔۔ پس بدلہ ۔۔ سے ۔۔۔ روزے ۔۔۔ یا ۔۔۔ صدقہ ۔۔۔ یا قربانی
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ
اور اپنے سر کی حجامت نہ کرواؤ۔ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے پھر تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا اسے سر کی تکلیف ہو تو وہ بدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی سے ۔
نُسُكٍ ۔( قربانی ) ۔ لفظی معنی ذبح کے ہیں ۔ یہاں مراد الله تعالی کی راہ میں قربانی ہے ۔ جو کم از کم ایک بکری ہونی چاہئیے ۔ اور اس سے بہتر یہ کہ ایک گائے یا اونٹ کی ہو ۔
مَحِلَّة ۔( اپنی جگہ) ۔ یعنی قربانی کی جگہ ۔ اس سے مراد حرم شریف ہے ۔
اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ اس کے احکام انسان کی فطرت کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ اسلام میں ہر انسان کی خوبیوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ ایسے کام جو انسان کی تربیت ، ترقی اور کامیابی کے لئے ضروری تھے انہیں ضروری اور لازم قرار دیا گیا ہے ۔ جو باتیں انسان کی زندگی اور نصب العین کے لئے مفید نہ تھیں ۔ انہیں ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے ۔
آیت کا ابتدائی حصہ محصر کے احکام کا تتمہ ہے ۔ جس کا ذکر پچھلی آیت میں شروع ہوا تھا ۔ یہاں تک بیان کر دیا گیا تھا کہ جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے اور راستے میں کوئی ایسا عذر پیش آجائے کہ حج یا عمرہ پورا نہیں کر سکتا ۔ تو وہ کسی کے ہاتھ قربانی کا جانور بیت الله بھیج دے ۔ اس آیت میں اس حکم کو یہ کہہ کر پورا کیا گیا ہے کہ جب تک جانور حرم تک نہ پہنچے اور وہاں اس کی قربانی نہ کر دی جائے اس وقت تک یہ روکا ہوا شخص سر نہیں منڈوا سکتا ۔ یعنی احرام نہیں کھول سکتا ۔
اس کے بعد حج کے عام احکام کا بیان ہے ۔
الله جل شانہ نے حج کے حکم میں معذور لوگوں کے لئے ایک اور رعایت مقرر فرمائی ہے ۔ یعنی جو شخص حج کے زمانہ میں سر نہ منڈانے کا حکم پورا نہ کر سکتا ہو ۔ یعنی کسی بیماری یا کسی اور سبب سے سر نہ منڈانے پر مجبور ہو تو اسے چاہئیے ۔ کہ اس کے بدلے یا تو تین روزے رکھے ۔ تاکہ اس کا نفس سرکشی سے پاک رہے ۔ یا چھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار کے مطابق پونے دو سیر کے حساب سے گیہوں دے تاکہ پہلا حکم بجا نہ لانے کی صورت میں وہ الله تعالی کی راہ سے ہٹ نہ جائے ۔ یا جانور کی قربانی دے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
حج
حج
وَ اَتِمُّوا ۔۔ الْحَجَّ
اور پورا کرو ۔۔۔ حج
وَ اَتِمُّوا ۔۔ الْحَجَّ
اور حج پورا کرو
الحج ۔ اسلام کا پانچواں رکن ہے ۔ ہر شخص جو استطاعت رکھتا ہو اس پر حج زندگی میں ایک بار اداکرنا فرض ہے ۔ ورنہ وہ گنہگار ہو گا ۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینے ذوالحج کی نو تاریخ کو ادا ہوتا ہے ۔ پہلے سارے مسلمان شہر مکہ میں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر میدانِ عرفات میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔
اس سورۃ میں حج کے احکام سے قبل اورحج ولی آیات کے بعد قتال وجہاد کے مسائل بیان ہوئے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کا آپس میں کس قدر گہرا تعلق ہے ۔ اسلام کا کوئی رکن ایسا نہیں جس میں ذاتی نیکی اور پاکیزگی کے علاوہ قوم کی اجتماعی بہبودی ، ترقی و خوشحالی اور سر بلندی کا مقصود نہ ہو ۔
حج میں خاص بات یہ ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمان ہر سال ایک مرتبہ مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں ۔ وہاں کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی ۔ کالے ، گورے ، امیر ، غریب ، بادشاہ ، فقیر ، عالم ، جاہل ، اور چھوٹے بڑے کاندھے سے کاندھا ملا کر یک جا کھڑے ہوتے ہیں ، سب کا ایک ہی لباس ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے لبوں پر ایک ہی صدا ہوتی ہے ۔
لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ
میں حاضر ہوں ۔ اے الله میں حاضر ہوں ۔ میں تیرے لئے حاضر ہوں ۔ تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں تیری ہیں اور شکر تیرا ہے ۔
ہر حاجی احرام باندھتا ہے ۔ یہ بغیر سلا ہوا ہر ایک کا ایک جیسا لباس ۔ مساوات ۔ سادگی ۔ یک جہتی اور عشقِ الٰہی کا اظہار کرتا ہے ۔ حج کے دوران سر منڈانا ، ناخن تراشنا ، شکار کرنا ، بیوی سے مباشرت کرنا منع ہے ۔ گویا خواہشات اور طبعی زیبائش و آرائش سے باز رہ کر ایک مستقل تربیت حاصل کرنی مقصود ہے ۔
تمام حاجی ایک وقت مقررہ میں میدانِ عرفات میں حج کے روز جمع ہوتے ہیں ۔ خطبہ سنتے ہیں ۔ الله کے حضور دعائیں کرتے ہیں ۔ گناہ بخشواتے ہیں ۔ اور رحمت الٰہی کے خزانے جمع کرتے ہیں ۔
منٰی کے اندر قربانیاں دیتے ہیں ۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں ۔ بیت الله کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں ۔ حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں ۔ آبِ زم زم سے عشق کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ ہر قسم کی معصیت ۔ گناہ اور بد خلقی سے رُکے رہتے ہیں ۔ گویا گناہ بخشوا کر آج ازسرِ نو زندگی کا حساب شروع کر رہے ہیں ۔
مبارک ہیں وہ جنہیں حج کی توفیق ملی اور انہوں نے حج ادا کیا ۔ حج کے مقاصد کو سمجھا ۔ اور آئندہ اپنی زندگی نیکی اور پاکیزگی سے بسر کی ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
قتال و جہاد کے احکام
قتال و جہاد کے احکام
آیۃ( ۱۹۵) پر جہاد کے احکام ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حج کا بیان شروع ہو گا ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلاصہ کے طور پر قتال و جہاد کی فرضیت ۔ شرائط و حدود اور احکام بیان کر دئے جائیں ۔ چونکہ ایک طرف تو گمراہ لوگ سرے سے قتال کے ہی منکر معلوم ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے دشمن مؤرخین خصوصاً مغربی مصنف جہاد کو محض مار دھاڑ ، قتل و غارت گری اور مزہبی خونی جنگ بیان کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں ۔
ہم سورۃ بقرہ کی آیات کے حوالے سے نمبر وار مسائل بیان کرتے ہیں ۔ جہاد سے متعلق جو احکام قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر آتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ بیان ہوں گے ۔
۱۔ الله کی راہ میں جنگ کرو ۔۔۔ (۱۹۰)
۲۔ جنگ صرف ان لوگوں سے کرو جو تم سے لڑیں (۱۹۰)
بالفاظ دیگر امن پسندوں یعنی بچوں ، عورتوں ، بیماروں ، معذوروں اور نہتے لوگوں سے نہیں ۔
۳۔ زیادتی نہ کرو ۔ الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ۔ (۱۹۰)
۴۔ جنگ کے اندر دشمن کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ (۱۹۱)
یاد رہے ۔ کہ یہ حکم حالت جنگ کا ہے زمانہ امن کا نہیں ۔
۵۔ جن جن علاقوں سے دشمنوں نے تمہیں ملک بدر کیا تھا ۔ وہاں سے تم انہیں نکال دو ۔ (۱۹۱)
۶۔ فتنہ و فساد نہ خود کرو ۔ نہ کسی کو کرنے دو ۔ یہ قتل سے بھی بدتر کام ہے ۔ (۱۹۱)
۷۔ مسجدِ حرام (خانہ کعبہ )۔ میں صرف انہی کو مار سکتے ہو جو وہاں لڑیں ورنہ نہیں ۔ (۱۹۱)
۸۔ اگر دشمن جنگ سے رُک جائے ۔ تو جنگ بند کر دو ۔ (۱۹۲)
۹۔ فتنہ دب جانے اور الله کا دین غالب ہونے تک جنگ کرو ۔ (۱۹۳)
۱۰۔ ظالموں کے سوا کسی پر تشدد نہ کرو ۔ (۱۹۳)
۱۱۔ حُرمت والے مہینوں کا احترام کرو ۔ ان میں جنگ بند کر دو ۔( ۱۹۴)
۱۲۔ تقوٰی اختیار کرو ۔ یعنی الله تعالی سے ڈرو ۔ الله متقیوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ (۱۹۴)
١٣۔ الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں ڈال لو گے ۔ (۱۹۵)
۱۴۔ نیکی اور حسنِ سلوک کرو ۔ الله تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ (۱۹۵)
غور کیجئے ان میں سے کون سی بات ہے جو عقل ۔ انصاف اور شرافت کے منافی ہے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
انفاق فی سبیل الله
انفاق فی سبیل الله
وَأَنفِقُوا ۔۔۔ فِي ۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا تُلْقُوا
اور خرچ کرو ۔۔ میں ۔۔ راہ ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور نہ تم ڈالو
بِأَيْدِيكُمْ ۔۔۔۔ إِلَى ۔۔۔۔ التَّهْلُكَةِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَأَحْسِنُوا
اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔ طرف ۔۔۔ ہلاکت ۔۔۔ اور نیکی کرو
إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْمُحْسِنِينَ 1️⃣9️⃣5️⃣
بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ پسند کرتا ہے ۔۔۔ نیکی کرنے والے
وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ 1️⃣9️⃣5️⃣
اور الله کی راہ میں خرچ کرو اور( اپنی جان ) اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک الله تعالی نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے
وَلَا تُلْقُوا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التّهْلُكَةِ )اپنے ہاتھوں سے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ) پہلی آیات میں قتال و جہاد کا حکم تھا اور اس جملے سے پہلے الله تعالی کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم موجود ہے ۔
گویا ارشاد ربّانی یہ ھے کہ جب ملک و ملت اور دین و اسلام کے لئے جہاد کی ضرورت ہو اور مالی قربانی مطلوب ہو ۔ اس وقت بخل سے کام نہ لو ۔ الله جل شانہ کی راہ میں دولت صرف کرنے سے ہاتھ نہ روکو ۔ اگر ایسا کرو گے تو گویا خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارو گے ۔ اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے ۔ اس طرح صرف ملک و ملت کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قوم کی شکست تمہاری شکست ہوگی ۔ اور دین کا نقصان تمہارا زوال ہوگا ۔
بعض لوگ اس جملہ کا بالکل غلط مطلب نکالتے ہیں ۔ کہ جان بوجھ کر خطرہ میں نہ کودو اور جان جوکھوں میں نہ ڈالو ۔ یہاں اس جملہ سے ہرگز ہرگز یہ منشاء نہیں ہے ۔ بات صحیح ہے لیکن یہاں اس کا نہ ذکر ہے نہ موقع ہے ۔
پہلی آیات میں جہاد اور قتال کا حکم دے کر مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا کہ الله جل جلالہ کی راہ میں جانیں قربان کر دیں ۔ اسکے دین کو بلند کرنے کے لئے دین کے دشمنوں سے لڑیں اور اگر مشرک و کافر ان کے کام میں مزاحم ہوں تو ان سے جنگ کریں ۔ اور ظلم کو روکنے کے لئے تلوار اٹھائیں ۔ اس آیت میں الله تعالی کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرنے کا حکم ہے ۔
دشمنوں کو کچلنے اور فتنہ و فساد کو دبانے کے لئے اول جانوں کی ضرورت ہوتی ھے ۔ تاکہ الله کے سپاہی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جوشِ اسلام سے معمور ، موت و ہلاکت سے بے پرواہ ہو کر میدانِ جنگ میں کود پڑیں ۔ اور الله کا نام بلند کرنے کے واحد مقصد کے لئے جان لڑا دیں ۔ اس مقصد کے لئے دوسرے درجہ پر مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ہتھیار اور جنگ کے آلات خریدے جاسکیں ۔ سپاہیوں کے پسماندگان کی کفالت کی جا سکے ۔ شہید ہونے والوں کے یتیم بچوں اور بیواؤں کی ضروریات زندگی پوری کی جا سکیں ۔ فوج کے لئے خورد و نوش کی اشیاء فراہم کی جاسکیں ۔ اور محصور ہو جانے کی صورت میں سامان خوراک وغیرہ کا ذخیرہ کیا جاسکے ۔
اَحْسَنُوا ۔( نیکی کرو ) احسان کے معنی حسن سلوک اور نیکی کرنے کے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم جو کچھ بھی کرو وہ حسنِ نیت اور اخلاص سے کرو ۔ کوئی کام محض بیگار اتارنے اور قرض چکانے کے طور پر نہ کرو ۔ نیز یہ کہ قتال و جہاد کے اندر بھی حسن سلوک میں کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی ۔
نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے حسنِ سلوک کی یہاں تک تلقین فرمائی کہ جانور ذبح کرنے لگو تو ایسے کرو کہ اس کو کم سے کم تکلیف ہو ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
قربانی کے حکم کی وضاحت
الله متقیوں کے ساتھ ہے
وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَاعْلَمُوا
اور ڈرتے رہو۔۔۔ الله تعالی سے ۔۔۔ اور جان لو ۔
أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ مَعَ ۔۔۔۔۔۔۔الْمُتَّقِينَ۔ 1️⃣9️⃣4️⃣
۔ بےشک۔۔۔ الله ۔۔ ساتھ ۔۔ متقیوں کے
وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ 1️⃣9️⃣4️⃣
اور الله تعالی سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله پرھیزگاروں کے ساتھ ھے ۔
اِتَّقُواااللهَ
( الله سے ڈرتے رہو ) ۔ پرھیزگاری (تقوٰی) اختیار کرنے کا یہ حکم قرآن مجید میں بار بار آیا ھے ۔ کہہر کام کرتے وقت اس سے خوف کھاؤ ۔ پرھیزگاری اختیار کرو ۔ تقوٰی کی زندگی بسر کرو ۔ بری باتوں سے پرھیز کرو ۔ بدی اور شطینیت سے نفرت کرو ۔
یہ تمام احکام صرف ایک جملے کے ماتحت آتے ہیں ۔ اور وہ ھے اِتِّقُواالله ۔
مسلمان کی زندگی کے ہر شعبے میں تقوٰی کا عنصر بہت اہم ھے ۔ جب تک مسلمان کے قول وفعل اور عمل میں یہ چیز نمایاں نہ ہو ۔ اس کا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا ۔ تقوٰی اسے اعتدال سکھاتا ھے ۔ نیکو کاری کی طرف رغبت دلاتا ھے ۔ اور بدکاری سے دُور کرتا ھے ۔
اس وقت تک سورۃ بقرہ کی صرف (۱۹۴) آیات گذری ہیں ۔ اور یہاں تک تقوٰی کا ذکر مختلف شکلوں میں (۱۴) بار آچکا ھے ۔
خصوصاً ۔۔۔۔ حُکم عبادت کے بعد ۔۔۔ بنی اسرائیل کے تذکرہ کے بعد ۔۔۔۔ اخلاقی اصولوں کے ذکر کے بعد ۔۔۔ حکم قصاص کے بعد ۔۔۔ وصیت کے حکم کے بعد ۔۔۔ روزے کے حکم کے بعد ہر جگہ تقوٰی ہی کو مقصود ومطلوب بیان کیا گیا ھے ۔
قرآن مجید خواہ حلال و حرام کا ذکر کر رہا ہو ۔ نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث کر رہا ہو ۔ یتیم و مسکین کے مال و دولت کے قوانین بتا رہا ہو ۔ وصیت اور ورثہ کی تقسیم پر گفتگو کر رہا ہو ۔ باہمی معاشرت اور میل جول کے اصول واضح کر رہا ہو یا جہاد وقتال کے امور پر روشنی ڈال رہا ہو ۔ ہر جگہ تقوٰی کا سبق اس کے ساتھ ضرور دے گا ۔ اور اس کی اہمیت ضرور جتائے گا ۔ آخر کیوں؟
انسان خواہشات کا پُتلا ، جذبات کا غلام اور احساسات کا خادم ہوتا ھے ۔ وہ ہر کام کرتے وقت اس کے زیر اثر ہوتا ھے ۔ وہ اعتدال اور انصاف پر قائم رہنے کی بجائے بے انصافی پر اُتر آتا ھے ۔ اعتدال کو چھوڑنا اسے ظلم ، حق تلفی ، بے انصافی اور زیادتی کی طرف لے جاتا ھے ۔ یہ تمام چیزیں ایک مسلمان کی شان سے بہت نیچی ہیں ۔ لہذا ضروری ھے کہ وہ خواہ زندگی کے کسی میدان میں سرگرمِ عمل ہو ۔ اعتدال کو ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔
اعتدال پر قائم رھنے کے لئے اسے یہ سبق سکھایا جاتا ھے کہ وہ ہر لمحہ الله تعالی کی ہستی ، اس کے احکام اور اس کے حضور حاضری کو پیشِ نظر رکھے ۔ وہ سمجھے کہ دنیاوی مال ومتاع اور عزت وشہرت سب عارضی ھے ۔
اصل چیز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں کامیابی ھے ۔ اس لئے انصاف پسندی سے اگر عارضی نقصان ہوتا بھی ہو تو اسے برداشت کر لینا چاہئیے ۔ کیونکہ الله تعالی کی مدد صرف متقیوں کو ہی ملتی ھے اور ظاہر ھے جسے الله جل شانہ کی حمایت نصیب ہو جائے اس سے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت اور کامیاب انسان اور کون ہو سکتا ھے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
حرمت والے مہینے
الشَّهْرُ ۔۔۔۔۔ الْحَرَامُ ۔۔۔۔۔۔۔ بِالشَّهْرِ ۔۔ الْحَرَامِ ۔۔۔۔۔۔ وَالْحُرُمَاتُ
مہینہ ۔۔ حرمت والا ۔۔ بدلہ مہینے کا ۔۔ حرمت والا ۔۔ اور حرمات
قِصَاصٌ ۔۔۔۔ فَمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اعْتَدَى۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ فَاعْتَدُوا
بدلہ ۔۔ پس جو شخص ۔۔ زیادتی کی اس نے ۔۔ تم پر ۔۔ پس تم زیادتی کرو
عَلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔ بِمِثْلِ ۔۔۔۔۔۔۔ مَا اعْتَدَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ
اس پر ۔۔ اس جیسی ۔۔ جو اس نے زیادتی کی ۔۔ تم پر
الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ
حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کا بدلہ ھے اور ادب رکھنے میں بدلہ ھے پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ۔
اَلشَّھْرُ الْحَرَام
حرمت والا مہینہ
جاہلیت کے زمانے میں عرب کے مختلف قبیلے آپس میں ہمیشہ جنگ کرتے رہا کرتے تھے ۔ لیکن یہ بات انہوں نے ٹہرا لی تھی کہ سال میں چار مہینے جنگ بند رہا کرے گی ۔ اور یہ زمانہ امن اور صلح کے ساتھ گزارا جائے گا ۔ ان کے نزدیک ان چار مہینوں کی پاکی اور بزرگی بہت مانی ہوئی تھی ۔ وہ چار مہینے یہ تھے ۔
محرم ۔۔۔ قمری سال کا پہلا مہینہ
رجب ۔۔۔ قمری سال کا ساتواں مہینہ
ذی قعدہ ۔۔۔ قمری سال کا گیارہواں مہینہ
ذالحجہ ۔۔۔ قمری سال کا بارھواں مہینہ
اس آیۃ کا شانِ نزول اور تاریخی پس منظر یوں بیان کیا جاتا ھے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم چند صحابیوں کو ساتھ لے کر عمرہ کی غرض سے ذیقعدہ سن۷ھجری میں مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے ۔ لیکن وہاں کے مشرک آپ سے اور آپ کے ساتھیوں سے جنگ پر آمادہ ہو گئے ۔ بلکہ تیر اندازی اور سنگ باری شروع کر دی ۔ انہوں نے اس حرمت والے اور مقدس مہینے کی بھی پرواہ نہ کی ۔
یہ آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ھے ۔ الله تعالی فرماتا ھے کہ کسی مہینے کی حرمت اور عزت اسی وقت تک برقرار رہ سکتی ھے جبکہ دوسرا فریق بھی اس کا عزت اور احترام کرے ۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر کسی حرمت والے مہینے کی بنیاد ہی نہیں ۔ اگر دوسرا فریق احترام والے مہینے میں بھی جنگ سے بازنہیں آتا تو تم بھی ان کے مقابلے میں جنگ شروع کر دو ۔ اگر انہوں نے اس بات کا لحاظ نہیں کیا کہ یہ مہینہ حرمت والا ھے یا یہ جگہ حرمت والی ھے یا تم مسلمانوں نے احرام باندھ رکھا ھے تو پھر تم بھی تیار ھو جاؤ اور ہتھیار اٹھا لو ۔
اس کے بعد یہ بتایا کہ اگر انہوں نے تمہاری حرمتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تم پر زیادتی کی ھے تو تم بھی ان کو جواب دو ۔
یہاں لفظ اعتداء ( ان پر زیادتی کرو ) اس لئے آیا ھے کہ عربی زبان میں یہ محاورہ ھے کہ جس فعل کی سزا دینی ھے اس کی سزا کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ھے ۔ مطلب یہ کہ انہیں جواب میں سزا دو اور قتل کرو ۔ یہ مراد ہرگز نہیں کہ تم بھی زیادتی کرو ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
*قتال کی حدِ آخر*
*فتنہ قتل سے بدتر ہے*
*خانہ کعبہ کا احترام*
*جنگ اور جلا وطنی*
*الله تعالی کی راہ میں جنگ*
*رشوت*
*ناحق مال*
*حدود الله*
*اعتکاف کے احکام*
روزہ کے اوقات
*مباشرت کا مقصود*
*میاں بیوی کا تعلق
حالیہ اشاعتیں
آیت الحجاب
آیۃ الحجاب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔ اس کا آغاز ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النّ...
پسندیدہ تحریریں
-
اَعُوْذُ ۔ بِاللهِ ۔ ُ مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔ الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ ...
-
سورة مائدہ وجہ تسمیہ سورة مائدہ إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا ...
-
يَا۔۔۔۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔ اذْكُرُوا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ الَّتِي اے ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یا...
-
🌼🌺. سورۃ البقرہ 🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گا...