قتال و جہاد کے احکام
آیۃ( ۱۹۵) پر جہاد کے احکام ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حج کا بیان شروع ہو گا ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلاصہ کے طور پر قتال و جہاد کی فرضیت ۔ شرائط و حدود اور احکام بیان کر دئے جائیں ۔ چونکہ ایک طرف تو گمراہ لوگ سرے سے قتال کے ہی منکر معلوم ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے دشمن مؤرخین خصوصاً مغربی مصنف جہاد کو محض مار دھاڑ ، قتل و غارت گری اور مزہبی خونی جنگ بیان کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں ۔
ہم سورۃ بقرہ کی آیات کے حوالے سے نمبر وار مسائل بیان کرتے ہیں ۔ جہاد سے متعلق جو احکام قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر آتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ بیان ہوں گے ۔
۱۔ الله کی راہ میں جنگ کرو ۔۔۔ (۱۹۰)
۲۔ جنگ صرف ان لوگوں سے کرو جو تم سے لڑیں (۱۹۰)
بالفاظ دیگر امن پسندوں یعنی بچوں ، عورتوں ، بیماروں ، معذوروں اور نہتے لوگوں سے نہیں ۔
۳۔ زیادتی نہ کرو ۔ الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ۔ (۱۹۰)
۴۔ جنگ کے اندر دشمن کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ (۱۹۱)
یاد رہے ۔ کہ یہ حکم حالت جنگ کا ہے زمانہ امن کا نہیں ۔
۵۔ جن جن علاقوں سے دشمنوں نے تمہیں ملک بدر کیا تھا ۔ وہاں سے تم انہیں نکال دو ۔ (۱۹۱)
۶۔ فتنہ و فساد نہ خود کرو ۔ نہ کسی کو کرنے دو ۔ یہ قتل سے بھی بدتر کام ہے ۔ (۱۹۱)
۷۔ مسجدِ حرام (خانہ کعبہ )۔ میں صرف انہی کو مار سکتے ہو جو وہاں لڑیں ورنہ نہیں ۔ (۱۹۱)
۸۔ اگر دشمن جنگ سے رُک جائے ۔ تو جنگ بند کر دو ۔ (۱۹۲)
۹۔ فتنہ دب جانے اور الله کا دین غالب ہونے تک جنگ کرو ۔ (۱۹۳)
۱۰۔ ظالموں کے سوا کسی پر تشدد نہ کرو ۔ (۱۹۳)
۱۱۔ حُرمت والے مہینوں کا احترام کرو ۔ ان میں جنگ بند کر دو ۔( ۱۹۴)
۱۲۔ تقوٰی اختیار کرو ۔ یعنی الله تعالی سے ڈرو ۔ الله متقیوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ (۱۹۴)
١٣۔ الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں ڈال لو گے ۔ (۱۹۵)
۱۴۔ نیکی اور حسنِ سلوک کرو ۔ الله تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ (۱۹۵)
غور کیجئے ان میں سے کون سی بات ہے جو عقل ۔ انصاف اور شرافت کے منافی ہے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں