قرآن مجید کے سائنسی موضوعات

بے شمار دانشوروں نے سائنسی موضوعات پر بیان کردہ قرآنی تفصیلات کو اپنی تحقیق وجستجو کا میدان بنایا اور اس کے نتیجے میں حیرت انگیز اکتشافات انجام دیے۔ماضی میں لکھی گئی مسلمان اہلِ علم و حکمت کی کتابوں میں موجود قرآنی آیات کے حوالے اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ یہ حضرات اپنے علم و تحقیق میں کس درجہ قرآن کی روشنی سے مستفیض ہوتے رہے تھے۔اسلاف کی یہ کتابیں اشارہ کرتی ہیں کہ ان بزرگوں کو مذکورہ بالا علمی میدانوں میں کسی مخصوص شے کی تلاش ہوتی تھی جس کو قرآن نے قطعی حقیقت کی حیثیت سے بیان کر دیا تھا۔
ان کے اعترافات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی تصریحات نے انہیں اس رخ میں چلنے پر آمادہ کیا تھا، کیونکہ قرآن کا اندازاس معرض میں بھی سب سے نرالا ہے۔وہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے آخری اور کلی حقائق بیان کر دیتا ہے۔ عبوری مراحل کی تفصیلات سے تعرض نہ کرتے ہوئے وہ صرف اتنا اشارہ کر دیتا ہے کہ یہ چیزیں اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ کہاں کہاں مل سکتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ ہر انسان کو بحث و تحقیق کی دعوت دیتا ہے اور بلا دلیل وجستجو کے اندھی تقلید کے رویّے کو قابلِ مذمت قرار دیتا ہے:
وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْْہَا صُمّاً وَعُمْیَاناً (الفرقان:۷۳)
‘‘جنھیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گر جاتے’’۔

چند سال قبل سعودی حکومت نے اپنے دارالسلطنت ریاض میں متعدد متخصص اہلِ علم کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ رحمِ مادر میں بچے کے ارتقائی مراحل کا جائزہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں لیں۔اس علمی اجتماع کو منعقد کرنے میں سعودی اربابِ حکومت کے پیشِ نظر درجِ ذیل قرآنی حکم تھا: فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ اِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الانبیاء :۷)‘‘تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔’’
حاضرین میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم الجنین (Embryology)کے صدر پروفیسر کیتھ مور(Keith Moore) بھی تھے۔ موصوف نے اس موضوع پر درسی کتابیں تیار کی ہیں اور ان کا شمار اس موضوع پر دنیا کے معدودے چند نمایاں اہلِ علم میں ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے اختصاص کی روشنی میں اس موضوع پر قرآن کے بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیں اور ان کی صحت و عدمِ صحت پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کریں۔ریاض میں قیام کے دوران ان کو تمام مطلوبہ آلات ووسائل بہم پہنچائے گئے اور ہر قسم کی مدد فراہم کی گئی۔ یقین جانیے کہ وہ اپنے اس تجربہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں میں کئی بڑی تبدیلیاں کیں۔انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’ہم ولادت سے پہلے‘(Before We are Born) کے دوسرے ایڈیشن میں اضافہ کرتے ہوئے، علم الجنین (Embryology) پر قرآنی تفصیلات کو بڑے مدلل انداز میں درست قرار دیا۔ اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ہر اعتبار سے زمانہ سے سابق ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے پیروکاروں کا علم اس کے نہ ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے پروفیسر کے ٹی وی پروگرام کو مسلسل دیکھا۔اس پروگرام میں پروفیسر نے اپنے تجربات کے نتائج پیش کیے تھے۔ ان دنوں اس پروگرام کا بڑا چرچہ تھا،پروفیسر موصوف نے اپنے پروگرام میں چند سلائیڈ تصویریں بھی دکھائی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ رحمِ مادر میں جنین کے نشوونما کے بارے میں قرآن نے جو معلومات ذکر کی ہیں وہ اب سے تیس سال پہلے تک بھی علمی دنیا میں غیر معروف تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بذاتِ خود قرآن کی بیان کردہ معلومات میں ایک چیز سے آج تک قطعی ناواقف تھے۔وہ یہ کہ جنین (Embryo) اپنے ارتقائی مراحل میں سے ایک مرحلہ میں ’علقہ‘(جونک،Leech) سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ تشبیہ صد فیصد مطابقِ واقعہ ہے۔ اپنی کتاب میں اس واقعے میں انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت میں نے کبھی اس سے پہلے جونک کو نہیں دیکھا تھا۔ اس قرآنی تشبیہ کی سچائی جاننے کے لیے میں نے ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ حیوانیات (Zoology)سے رجوع کیا اور وہاں سے جونک کی فوٹو حاصل کی۔اپنے تقابلی مطالعہ کو مبنی بر صحت پاکر انہوں نے اس موضوع پر تحریر کی ہوئی اپنی درسی کتابوں میں جنین اور جونک کی تصاویر کو شائع کیا۔اس کے بعد پروفیسر موصوف نے ایک کتاب ’علم الاجنہ السریری(Clinical Embryology ) کے نام سے تحریر کی اور اس میں قرآن کی بتائی ہوئی معلومات کی روشنی میں اپنے علمی نتائج پیش کئے۔اس کتاب کی اشاعت سے کینڈا کے علمی حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ طول و عرض میں اخبارات کی سرخیاں اس کتاب کی نذر ہو گئیں۔ بعض اخبارات کا رویہ قدرے مضحکانہ بھی تھا، مثلاً ایک اخبار کی سرخی یہ تھی: Surprising things found in Ancient Book (حیرت انگیز چیزیں ایک قدیم کتاب میں پائی گئیں )۔
اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر عام لوگوں کو واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ ایک پریس رپورٹر نے پروفیسر کیتھ مور سے سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا:کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ قدیم عربوں کو ان معلومات کا علم رہا ہو اور قرآن کے مؤلف نے ان کو کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہو؟ہو سکتا ہے کہ عربوں نے ماضی میں عملِ جراحت کی ابتدائی شکل ایجاد کر لی ہو اور چند عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر اس قسم کی چیزیں جان لی ہوں ؟
سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر موصوف نے کہا تھا :آپ یہاں ایک اہم نکتہ فراموش کر رہے ہیں۔وہ یہ کہ جنین کے ابتدائی مراحل کی تصاویر جو آج ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں ان کو صرف اور صرف خُورد بین (Microscope) کے ذریعہ سے لیا جا سکتا ہے اور خُورد بین کب وجود میں آئی یہ آپ کی جنرل نالج میں ہوگا ہی۔یہ کہنا فضول ہے کہ چودہ سو سال پہلے کسی نے جنین کے ارتقائی مراحل جاننے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں لوگ اس کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ قرآن میں مذکورہ جنین کے ابتدائی مراحل کی معلومات کو مجرد آنکھ سے دیکھنا ممکن ہی نہیں اور خُورد بین کا آلہ محض دو صدی قبل تک دنیا میں ناپید تھا۔یہ سوال پوچھے جانے پر کہ اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گے، انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا:اس کی توجیہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ قرآن اللہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے۔
مذکور بالا مثال میں قرآن کے علمی بیانات کی تصدیق کرنے والا شخص اگرچہ غیر مسلم تھا، لیکن اس بات سے کوئی اصولی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کوئی عام آدمی اس نوعیت کے قرآنی بیانات کی وکالت کرے تو ضروری نہیں کہ ہم اس کی بات قبول کر لیں۔ لیکن اصحابِ علم کو حاصل اعتبار و احترام کے پیشِ نظر اگر کوئی متبحر عالم، جس کی اپنے اختصاص پر قدرت اور کمال مسلّم و مقبول ہو، اس بات کا دعوی کرے کہ میرے متعلقہ موضوع پر وارد قرآنی بیانات صد فیصد درست ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے نتائج کو صحیح نہ مانیں۔
پروفیسر کیتھ مور کے تجربہ سے سبق لیتے ہوئے ان کے ایک ہم پیشہ ساتھی نے بھی اس قسم کوشش کی۔پروفیسر مارشل جونسن(Marshal Johnson)جو ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم طبقات الارض((Geologyمیں استاد تھے، انہوں نے اپنے مسلم دوستوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ان کے میدانِ اختصاص سے متعلق قرآن میں وارد معلومات کو اکٹھا کر کے انہیں دیں۔اور پھر ان کے علمی نتائج نے دوسری بار لوگوں کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کر دیا کیونکہ اس موضوع پر بھی قرآنی بیانات سے جدید سائنسی انکشافات مکمل ہم آہنگ ہیں۔مختلف علمی موضوعات پر قرآنی بیانات کی رنگا رنگی کو دیکھتے ہوئے ہر علمی موضوع پر بحث و تحقیق کرنا ایک مستقل کتاب کا طالب ہے اور اس کے لیے طویل مدت بھی درکار ہوگی جو اس مختصر سے مقالہ میں ممکن نہیں۔
مذکور بالا تحقیقی بیانات کے تذکرے سے میرا مقصود یہ کہنا ہے کہ قرآن کریم مختلف موضوعات پر اپنی رائے بڑے نپے تلے لیکن واضح اسلوب میں پیش کر دیتا ہے اور اپنے قاری کو وصیت کرتا ہے کہ وہ ان موضوعات کے متخصص علماء و ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں قرآنی بیانات کو جانچے اور اہلِ علم و فضل سے مراجعت و مشاورت کے بعد ہی قرآن کی حقانیت پر صاد کرے۔ بلا شبہ قرآن کا اپنایا ہوا یہ جرأت مندانہ موقف ہمیں دنیا کی کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتا۔ اس سے زیادہ حیرتناک بات یہ ہے کہ قرآن جہاں کہیں بھی اپنی معلومات پیش کرتا ہے وہ بیشتر اوقات اپنے قاری سے تاکید کرتا جاتا ہے کہ ان باتوں کو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں آج کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جواس طرح کی صراحت کرتی ہو۔ مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم (Old Testament)میں بہت سی ایسی تاریخی معلومات ملتی ہیں کہ فلاں بادشاہ کا زمانہ یہ تھا اور اس نے فلاں بادشاہ سے جنگ کی تھی، یا فلاں فلاں بادشاہ کے اتنے اور اتنے بیٹے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ شرط بھی ملتی ہے کہ اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہیں تو فلاں فلاں کتاب سے رجوع کرو، یعنی سابق الذکر معلومات کا مصدر کچھ کتابیں ہیں جن کی طرف بہ وقتِ ضرورت رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قرآن کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے، وہ اپنے پڑھنے والے کو معلومات فراہم کرتے ہوئے صراحت کر دیتا ہے کہ یہ باتیں اپنے آپ میں تمہارے لیے نئی ہیں اور کسی خارجی مصدر سے نہیں لی گئی ہیں۔ اور قرآن کی یہ نصیحت تو برقرار رہتی ہی ہے کہ اس دعوی پر شک کرنے والے اگر چاہیں تو بحث و تحقیق کر کے اس کو غلط ثابت کر نے کی کوشش کر لیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چودہ صدیوں کے طویل عرصہ میں کوئی ایک شخص بھی اس دعوے کو چیلنج نہیں کر سکا۔ حتیّٰ کہ کفار مکہ جو اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے تھے، وہ بھی قرآن کے اس دعوے کی تردید نہ کر سکے۔ کوئی ایک متنفس بھی یہ ادعاء نہ کر سکا کہ قرآن کی مبینہ معلومات سیکنڈ ہینڈ ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ محمد ﷺ نے ان کو کہاں سے چرایا ہے۔اس قسم کا دعوی نہ کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ واقعتاً یہ حقائق اپنے آپ میں جدید تھے۔چنانچہ بحث وجستجو پر آمادہ کرنے والی قرآنی ہدایت کی پیروی میں خلیفۂ راشد ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک وفد کو سدِ(دیوار)ذوالقرنین کی تلاش میں بھیجا۔ قرآنی وحی سے پہلے عربوں نے اس دیوار کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا، لیکن چونکہ قرآن نے اس کی علامات و قرائن واضح کر دیے تھے اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ڈھونڈھ نکالا۔ اور در حقیقت یہ دیوار آج بھی موجودہ روس کے ڈربنڈ ((Durbendنامی مقام پر واقع ہے۔یہاں ایک بات ذہن نشیں کر لیجئے کہ اگرچہ قرآن میں متعدد چیزیں بڑی صحت اور دقت رسی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ کتاب جو چیزوں کو درستگی اور باریکی سے بیان کر دے وہ منزل من اللہ قرار پائے گی۔صحیح بات یہ ہے کہ صحت و باریکی، وحیِ الٰہی ہونے کی شرطوں میں سے صرف ایک شرط ہے۔ مثال کے طور پر ٹیلیفون ڈائیریکٹری اپنی معلومات میں صحیح و دقیق ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ منزل من اللہ ہے۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قرآنی معلومات کے اصل منبع و مصدر کو دلائل و براہین کے ذریعہ ثابت کیا جائے، اور یہ ذمہ داری قرآن کے مخاطب کی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئلہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قرآن اپنے آپ میں ایک اٹل سچائی ہے، اب جس کو اس دعویٰ میں تردد ہو وہ قطعی دلیلوں سے اس کی تردید کر کے دکھائے۔اور خود قرآن اس قسم کی بحث و تمحیص کی ہمت افزائی کرتا ہے۔

یہاں یہ علمی حقیقت بھی ہمارے ذہنوں سے اوجھل نہ ہو کہ اگر کوئی انسان کسی کائناتی مظہرہ ((Phenomenon کی علمی توجیہ نہ کر سکے تو اسے لازماً دوسروں کی توجیہات کی صداقت کا اعتراف کرنا ہی چاہیے۔ہم ایسا نہیں کہتے، لیکن اس صورت میں اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ بذاتِ خود اس کی کوئی معقول توجیہ برآمد کر کے دکھائے۔ یہ علمی نظریہ ہماری زندگی کے بیشمار تصورات پر صادق آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ قرآنی تحدی سے مکمل ہم آہنگ ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔ قرآن اپنے منکرین کے سامنے بڑی پریشانیاں کھڑی کر دیتا ہے، وہ آغازِ گفتگو ہی میں اپنے مخالف سے اس قسم کا عہد لے لیتا ہے کہ اگر آپ کسی حقیقت کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو اس کو غلط ثابت کر کے دکھائیں۔قرآن کی متعدد آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی شناعت بیان کی ہے جو حقائق سننے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے ان کو نہیں آزماتے اور عقل کے اندھے ہو کر اپنے عناد و انکار پر اڑے رہتے ہیں :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالاِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلٰئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:۹۷۱)
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوے ہیں۔‘‘
گویا قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص قابلِ ملامت ہے جو معلومات کو سن کر رد و قبول کے لیے اپنی عقلی صلاحیتوں کو رو بہ عمل نہیں لاتا ہے۔
Credit:

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

آیت الحجاب

 آیۃ الحجاب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔  اس کا آغاز  ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النّ...

پسندیدہ تحریریں