الله تعالی کا سچا نبی تضاد بدگوئی اور تمام تر خرافات سے پاک ہوتا ہے۔ انبیاء علیھم السلام کے برعکس مرزا کیا کیا "فرماتا" تھا کبھی مرزا کی کتابیں پڑھیں تو آپ کی عقلوں پر جمی گرد اترے ۔۔۔۔
اپنے مرزا جی کو مسیح/ نبی یا امام مہدی بعد میں ثابت کرنے کی کوشش کیجئے گا پہلے اسکو ایک اچھا انسان ثابت کیجئے۔۔۔۔ اسے ایک چیلنج سمجھا جاۓ ۔۔۔
مرزا لکھتا ہے:-
''کسی عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقص نہیں ہوتا، اگر کوئی پاگل یا مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں ملا دیتا ہو اس کا کلام بے شک متناقض ہوجاتا ہے۔''
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم: ص 112)
جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔
(آسمانی فیصلہ: ص 25)
مگر خود آپ کے مرزا کا کلام تضاد اور تناقض سے بھرا پڑا ہے۔ چند مثالیں دیکھ لیجئے۔
اے لوگو! دشمن قرآن نہ بنو! اور خاتم النّبیین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو، اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔
(تبلیغ رسالت: 6؍ 302)
ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔
(حقیقۃ الوحی:ص 150)
جبکہ دوسری جانب اپنی بات سے پھرتے ہوۓ کہا کہ :-
اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا ہے۔
(دافع البلاء: ص 11)
سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔
(تریاق القلوب: ص 130)
میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہو سکتا۔
(الذکر الحکیم (رسالہ) نمبر 4: ص 25)
دوسری طرف لکھا کہ : خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں۔
(ازالہ اوہام: ص 660)
لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ مؤمن لعان (لعنت کرنے والا) نہیں ہوتا۔
(آسمانی فیصلہ: 9)
میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔
(اربعین ضمیمہ نمبر 4 ص 5)
گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں۔
(ازالہ اوہام:1؍6)
میں سچ سچ کہتا ہوں جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو 'دشنام دہی' کہا جائے۔
(درّ ثمین:249)
پھر ایک بھرپور یوٹرن لیتے ہوۓ دشنام دہی کے ریکارڈ قائم کرتے ہوۓ لکھا کہ : ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہو گئے او ران کی عورتیں کتیوں سے بھی بڑھ گئیں۔ (ضیاء الحق: ص 133)
اپنی مزکورہ بالاء بات کہ "گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں" سے پھرتے ہوۓ مولانا محمد حسین بٹالوی رح کو گالیوں سے نوازا:
پلید ، بے حیا، سفلہ
(اعجاز احمدی: ص 23)
مولانا ثناء اللّٰہ امر تسری رح کے متعلق لکھا کہ:-
کفن فروش ، کتا
(بحوالہ الہمات مرزا از شیخ الاسلام :ص 122)
خبیث، سور، کتا، بدذات، گوں خور۔
(انجام آتھم: ص 281)
مولانا سعد اللّٰہ لدھیانوی کے متعلق اپنی حقیقت کو exposed کرتے ہوۓ لکھا:
غول، لئیم، فاسق، ملعون، نطفہ، سفہار، خبیب، کنجری کا بیٹا۔
(چشم معرفت: ص 209)
مرزا غلام احمد قادیانی کی مذکورہ بالا تحریریں نہ صرف تضاد کا شاہکار ہیں بلکہ ایسی تحریریں ایک نبی کا تو ذکر ہی کیا، کسی بھی شریف انسان کے مقام سے فروتر ہیں۔ کوئی بھی نارمل اور معقول انسان ایسی گندی زبان تحریر کرنا پسند نہیں کرتا چہ جائیکہ ایک نبی ایسی گھٹیا اور بازاری زبان استعمال کرے۔
4. مرزالکھتا ہے: اور یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔
(نزول المسیح: ص 57)
دوسر ی طرف لکھا کہ:
زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ
(خاکسار پیپرمنٹ''البشریٰ جلد2؍94... انجام آتھم: ص 55)
یاد رہے کہ مرزا کی اصل زبان پنجابی تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں