*موضح القرآن*


الحمد للہ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔
تفسیر قرآن مجید جو عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں ہو اس میں سب سے اہم اور احتیاط کی چیز قرآن مجید کا ترجمہ ہے ۔ کیونکہ وہ الله جل شانہ کے کلام کی حکایت ہے ۔ اس میں معمولی سی کمی بیشی جائز نہیں ۔ 
اردو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ سب سے پہلے حضرت شاہ ولی الله دہلوی رحمہ الله کے دو فرزند ارجمند 
*حضرت شاہ رفیع الدین* 
*حضرت شاہ عبد القادر نے* 
نے کیا ۔ جس میں شاہ رفیع الدین کا ترجمہ القرآن بالکل لفظی ترجمہ تھا ۔ اس میں زبان و ادب اور محاورہ کی کوئی رعایت نہیں رکھی گئی ۔ اور بڑے کمال کے ساتھ قرآن کے الفاظ کو اردو زبان میں منتقل فرما دیا ۔ 
اور دوسرا ترجمہ  جس میں لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ اردو محاورہ کی بھی رعایت ہے حضرت شاہ عبد القادر رحمہ الله تعالی نے چالیس سال مسجد میں معتکف رہ کر پورا کیا ۔۔۔۔ یہاں تک کہ آپ کا جنازہ بھی مسجد ہی سے نکلا ۔ 
دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس   مولانا محمد یعقوب  رح  کا فرمانا ہے کہ بلاشبہ یہ ترجمہ "الہامی " ہے ۔ انسان کے بس کی بات نہیں کہ ایسا ترجمہ کر سکے ۔ ۔۔
تفسیر عثمانی ۔۔۔۔  برصغیر کی اردو تفاسیر میں ایک نہایت مقبول اور انتہائی معتبر نام رہا ہے۔ اس غیرمعمولی مقبولیت کی وجہ اس تفسیر کی وہ بعض خصوصیات تو ہیں ہی جو دوسری تفاسیر میں موجود نہیں  اور جن کا مختصر ذکر ان سطور میں ان شاء اللہ آگے آئے گا لیکن میرے خیال میں اس کی اصل وجہ ان تین اکابر کا علم و فضل، اخلاص و للّٰہیت اور کمال اور احتیاط و ادب کے ساتھ قرآن کریم کی خدمت کی دھن ہے جو اصل تفسیر عثمانی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔
 یہ تین بڑے نام ~~~~~
حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی، 
حضرت شیخ مولانا محمود حسن صاحب 
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہم  
تفیسر عثمانی کے افادیت، خصوصیات اور اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر جانناضروری ہے۔
 اس سے 
قارئین کے لیے اس تفسیر کے اصل مقام کو متعین کرنے میں سہولت ہو  گی 
موضح القرآن:
حضرت شاہ عبدالقادرؒ کا اردو ترجمہ "موضح القرآن" اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے بر صغیر کے مسلمانوں میں "الہامی ترجمہ" کے نام سے مشہور رہا ہے۔ اور حقیقت میں یہ قرآن کریم کا واحد ترجمہ ہے جو اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی الفاظ کی ترتیب اور اس کے معانی و مفہوم سے حیرت انگیز طور پر قریب ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس ترجمہ کی تکمیل میں تقریباً چالیس سال جو محنت شاقہ اٹھائی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ( حضرت شاہ عبد القادر رحمہ الله تعالی نے چالیس سال تک مسجد میں اعتکاف میں رہ کر یہ ترجمہ تحریر کیا ۔ یہاں تک کہ آپ کا جنازہ مسجد ہی سے نکلا ۔ معارف القرآن ۔ مفتی شفیع ) ۔ قرآن کریم کا یہ ترجمہ اردو زبان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ جس کی حفاظت ہندوپاک کے مسلمانوں کے لیے ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے اس ترجمہ میں متعدد خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے۔  
حضرت شاہ عبد القادر  علیہ الرحمتہ کا ترجمہ جیسے استعمال محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے ویسے ہی "
پابندی محاورہ، قلت تغیر اور خفت تبدل میں بھی بے مثل ہے"۔ (مقدمہ ترجمہ شیخ الہند۔ دارالتصنیف۔ کراچی)
چودہویں صدی کے آغاز تک اردو میں قرآن کریم کے متعدد ترجمے شائع ہو چکے تھے۔ ان میں بعض ترجمے بامحاورہ اور مروج زبان میں اہل علم و اہل ذہانت حضرات کے تھے۔ اور اس کے مقابلے میں بعض تراجم ایسے بھی آئے جو آزاد خیال حضرات نے کیے تھے اور جن میں بہت سی غلطیاں و مفاسد پائے جاتے تھے۔ اور ان میں قرآن کریم کی سمجھ  پر زبان کے تقاضوں کو ترجیح دی گئ تھی آسان اور با محاورہ زبان کی وجہ سے یہ ترجمے عوام میں مقبول ہونے لگے۔
دوسری طرف حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمے سے استفادہ عام میں کچھ دشواریاں پیش آنے لگیں اول تو یہ کہ اس ترجمے کے بعض الفاظ اور محاورات وقت گزرنے کے ساتھ یا تو متروک ہو گئے یا ان کا استعمال بہت کم ہو گیا۔
دوسری دشواری ترجمہ کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعتوں کی سہل پسندی کی وجہ سے پیدا ہوئی یعنی اس ترجمہ کی جو سب سے نمایاں اور ممتاز خوبی تھی کہ کم سےکم الفاظ میں قرآن کریم کے مفہوم و منشاء کی تعبیر۔ یہی خوبی ان طبیعتوں پر گراں گزرنے لگی جو غوروفکر کی عادی نہیں رہیں۔ اس وجہ سے بھی ان کا رجحان ان جدید ترجموں کی طرف زیادہ ہونے لگا۔ ان ترجموں کی غلطیوں اور مفاسد سے لوگوں کو بچانے کیلئے اس وقت کے علمائے کرام کو اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک نیا ترجمہ سہل اور آسان اردو میں ایسا کیا جائے جو ایک طرف ان خرابیوں سے بھی پاک ہو اور دوسری طرف مروجہ محاورے کے مطابق سہل اور آسان ہو۔
ترجمہ شیخ الہند:
اس وقت کے اہل علم نے حضرت شیخ الہندؒ سے ایسا ترجمہ کرنے کی درخواست کی۔ حضرتؒ نے غوروفکر کے بعد فرمایا کہ پہلی ضرورت یعنی زبان و محاورے کی سہولت تو بعض نئے ترجموں سے پوری ہو گئ جو اہل علم و فہم حضرات نے کئے ہیں۔ البتہ یہ ترجمے ان خوبیوں سے محروم ہیں جو موضح القرآن میں موجود ہیں۔ اب اگر کوئی نیا ترجمہ کیا جائے گا تو وہ آسان اور بامحاورہ تو ہو گا مگر حضرت شاہ صاحبؒ کے ترجمے کی خوبیاں کہاں سے آئیں گی؟ فرمایا کہ اب یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نئے ترجموں کی موجودگی میں حضرت شاہ صاحب کی یہ بے مثال قرآنی خدمت کہیں رفتہ رفتہ معدوم ہی نہ ہو جائے۔ چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں۔
"اس چھان بین اور دیکھ بھال میں تقدیر الہٰی سے یہ بات دل میں جم گئ کہ حضرت شاہ صاحبؒ کا افضل و مقبول و مفید ترجمہ رفتہ رفتہ بھولی بسری داستان  نہ ہو جائے۔ یہ کس قدر نادانی بلکہ کفران نعمت ہے۔ اور وہ بھی سرسری عذر کی وجہ سے اور عذر بھی وہ جس میں ترجمہ کا کوئی قصور نہیں اگر قصور ہے تو لوگوں کی طلب اور سمجھ کا قصور ہے"
اسلئے حضرت شیخ الہندؒ نے جدید ترجمہ کا ارادہ تو اسلئے نہیں فرمایا کہ حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ کی حفاظت ضروری تھی۔ البتہ اس ترجمے سے استفاد کرنے میں مذکورہ بالا دشواریاں تھیں انکو دور کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ 
"اپنے ترجمے کے مقدمہ میں ارشاد فرماتےہیں۔
"جس موقع پر ہم کو لفظ بدلنے کی نوبت آئی وہاں ہم نے یہ نہیں کیا کہ اپنی طرف سے جو مناسب سمجھا بڑھا دیا۔
 نہیں بلکہ حضرات اکابر کے تراجم میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ خود موضح القرآن میں دوسری جگہ کوئی لفظ مل گیا۔ یا حضرت مولانا رفیع الدین کے ترجمے میں یا فتح الرحمٰن میں۔ حتی الوسع ان میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسی تبدیلی  جسکی مثال ان حضرات کے تراجم میں نہ ہو۔ ہم نے اس ترجمہ میں جائز نہیں رکھا"۔
اللہ اکبر! ان حضرات کی بے نفسی، خوف خدا اور اپنے بزرگوں کا احترام و ادب کا یہ نمونہ کتنا مفید اور سبق آموز ہے؟
 تمام تراجم میں تلاش و جستجو کی یہ محنت شاقہ اسلئے اٹھائی کہ اپنی جانب سے ایک آدھ لفظ کا اضافہ بھی گوارا نہ تھا۔ اسی اخلاص و للّٰہیت ہی کا ثمرہ ہے کہ ترجمہ شیخ الہند کو جو مقام آج حاصل ہے وہ کسی دوسرے ترجمے کو حاصل نہیں۔ اس ترجمے کو موضح القرآن سے ممتاز رکھنے کیلئے آپ نے اس کا نام "موضح فرقان" تجویز فرمایا تھا۔ مگر یہ ترجمۂ شیخ الہند ہی کے نام سےمشہور و معروف ہوا۔
حضرت شیخ الہندؒ نے چھ اشعار پر مشتمل ایک قطعہ میں اس ترجمہ کی تاریخ بیان فرمائی ہے۔ اس قطعہ کا آخری شعر جس سے تاریخ نکلتی ہے۔ یہ ہے ؎
بے شش و پنج بگفتہ محمودسال اُو موضح فرقان حمید
اس شعر سے تاریخ اس طرح نکلتی ہے کہ بے شش و پنج (یعنی چھ اور پانچ ۔ کل گیارہ اعداد) کم کر دیں تو "موضح فرقان حمید" کے اعداد سے سال ۱۳۳۶ھ نکل آئے گا۔ 
عرفان الٰہی فاروقی کے مضمون اور معارف القرآن از مفتی شفیع رحمہ الله سے استفادہ ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں