جو مسلمان دنیا میں کسی بھی مسلمان پر ناحق ظلم و ستم سے دکھ اورغم محسوس نہیں کرتا اسے اپنے ایمان کی تجدید کر لینی چاہئیے ۔ 

پیارے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم ان پر میری جان قربان ۔۔۔ نے فرمایا 

جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کو اسی طرح مضبوط کرتا ہے جیسے عمارت کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے ۔۔۔ جیسے ایک ایک اینٹ مل کر دیوار بناتی ہے ۔۔۔ اسی طرح ایک ایک مؤمن مل کر امت کی تشکیل کرتا ہے ۔ 

اسی طرح نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ جس کا مفہوم ہے کہ آپس کی محبت اور ایک دوسرے کی مصیبت پر دلی احساس محسوس کرنے میں مؤمنوں کا معاملہ ایسا ہے جیسا کہ ایک جسم  ہو ۔ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی بخار محسوس کرتا ہے اور اس تکلیف کی وجہ سے آرام کی نیند نہیں سوسکتا ۔۔۔ بے آرام رہتا ہے ۔ 

چنانچہ فلسطین ہو یا کشمیر ۔۔۔ برما ہو یا شام یا دنیا کا کوئی بھی حصہ ہو جہاں بھی مسلمان تکلیف اور جنگ کی حالت میں ہوں دوسرےمسلمان ان کی تکلیف کو ضرور بالضرور محسوس کریں گے اور دلی رنج و غم میں مبتلا ہوں گے ۔ 

حلب کے مسلمان آج جس طرح کٹ رہے ہیں دشمنوں کی بمباری سے ان کی نسل کا خاتمہ کیا جارہا ہے ۔۔۔ انہیں اپنے ہی خون میں نہلایا جا رہا ہے ۔۔۔ شہری آبادی پر بلادھڑک بمباری کی گئی اور اس سلسلے میں کسی بھی بین الاقوامی قانون کی پاسداری نہیں کی گئی ۔۔۔۔ یہاں تک کہ کیمکل حملوں سے بھی دریغ نہیں کیا گیا ۔۔۔۔ خواہ اس کا کچھ بھی سبب ہو ۔۔۔

ہم مسلمان ہونے کے ناطے اپنے مسلم بہن ، بھائیوں اور معصوم بچوں کے اس وحشیانہ قتل کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔۔۔  ہمارے دل ان کے لئے خون کے آنسو روتے ہیں ۔۔۔۔ اور ان کے دکھ اور تکلیف پر ہمارے دل تڑپ رہے ہیں ۔ ۔۔۔ 

 ہم ان کے دشمنوں کے لئے الله کے حضور رو رو کر بد دعا کرتے ہیں ۔۔۔ 

اے الله تو مسلمانوں کے دشمنوں کو ہلاک کر ۔ انہیں تباہ و برباد کر دے ۔۔۔ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردے ۔۔۔ ان میں پھوٹ ڈال ۔۔ ان کے دلوں اور قدموں کو ڈگمگا دے ۔۔۔ اور 

اور اے الله ہمیں ہمت اور استطاعت دے کہ ہم ان کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوسکیں ۔ 

اے الله ! ہمارے دلوں میں شوق شھادت جگا اور اسلام کے دشمنوں سے جہاد کے لئے ہمیں یک جان کر دے ۔ اے مولا ! ہم اپنی کمزوری اور بے بسی کی تجھ سے ہی شکایت کرتے ہیں ۔۔۔ 


جنگ کا حکم ۔ ۲۱۶/ا

جنگ کا حکم


كُتِبَ ۔۔۔۔۔۔  عَلَيْكُمُ ۔۔۔ الْقِتَالُ ۔۔۔ وَهُوَ۔۔۔۔۔۔۔ كُرْهٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَّكُمْ

فرض کی گئی۔۔۔  تم پر ۔۔۔ لڑائی ۔۔ اور وہ ۔۔ بری لگتی ہے ۔۔۔ تمہیں 


كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ


تم پر لڑائی فرض کی گئی اور وہ تمہیں بری لگتی ہے ۔ 


ہماری ھدایت کا سرچشمہ صرف اسلام ہے ۔ اسلام ہماری زندگی کے لئے مکمل دستورِعمل ہے ۔ اگر کوئی شخص اس سے منہ موڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرلے  تو اصل منزل سے دور ہوجائے گا ۔ راہ سے بھٹک کر اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کر دے گا ۔ کیونکہ اسلام سے منہ موڑنے کا مطلب یہی ہوتا ہے ۔ کہ وہ شخص امن وامان برباد کردے گا ۔ فتنہ و فساد پھیلائے گا ۔ دوسروں پر ظلم کرے گا ان کی حق تلفی کرے گا ۔ 

ان تمام لوگوں کی  جو اسلام سے روگردانی کرتے ہیں شرو فساد میں سرگرم ہوتے ہیں سازشوں اور تباہیوں سے دنیا کے امن کو بچانے کے لئے الله تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں اور امن برباد کرنے والوں سے جنگ کریں ۔ انہیں قتل کریں ۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا خاتمہ ہی اسلام کی ترقی اور عالمِ کائنات کی خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے ۔ 

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قتال (یعنی لڑنے)  کا حکم مکہ سے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد ملا ۔ جبکہ انہیں نئی ریاست کی بنیاد قائم کرنا تھی ۔ کُھلے بندوں اسلام کی دعوت دینا تھی ۔ الله تعالی کی ھدایات کے مطابق ایک نئی سوسائٹی کو وجود میں لانا تھا ۔ لیکن اس وقت مسلمان کمزور و بے بس تھے ۔ تعداد میں تھوڑے تھے ۔ جنگ کا سامان پاس نہیں تھا ۔ زبوں حالی اور پریشانی میں گرفتار تھے ۔ اس لئے جنگ کا حکم طبعی طور پر ناگوار گزرنا لازمی تھا ۔ لہٰذا انہیں بتا دیا گیا کہ تمہیں خواہ جنگ کتنی ہی بُری لگے لیکن تمہیں اپنے فرض کو ضرور ادا کرنا ہے ۔ 

انسان کو سب سے پیاری شئے اپنی زندگی ہوتی ہے ۔ اس کا خاتمہ اسے ناگوار اور ناپسند معلوم ہوتا ہے ۔ جنگ میں جان کا جانا ، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا عام ہوتا ہے ۔ لیکن الله تعالی نے آگاہ کر دیا کہ اس جنگ کے دور رس نتائج اور بعد میں ملنے والے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے اگر عارضی طور پر ناگواری کو برداشت کر لیا جائے اور گذر جانے والے نقصان کو سہہ لیا جائے تو اس کا ثمرہ بہت میٹھا اور اعلٰی ملے گا ۔ 

ہمیں چاہئیے کہ دنیا کی پسندیدہ چیزوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الله سبحانہ و تعالٰی کے حکم کی تعمیل بے چون و چرا کریں۔ ہمیں اپنی جان و اولاد اور مال قربان کرکے الله تعالی کی رضامندی حاصل کرنی چاہئیے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کہاں خرچ کریں ۔ ۲۱۵

کہاں خرچ کریں 


يَسْأَلُونَكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    مَاذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔   يُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔  قُلْ ۔۔۔ مَا 

وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ کیا چیز ۔۔ وہ خرچ کریں ۔۔ کہہ دو ۔۔ جو 

أَنفَقْتُم ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِّنْ ۔۔۔ خَيْرٍ ۔۔۔ فَلِلْوَالِدَيْنِ ۔۔۔  وَالْأَقْرَبِينَ 

تم خرچ کرو ۔۔ سے ۔۔ مال ۔۔ پس والدین کے لئے ۔۔ اور قرابت والوں 

وَالْيَتَامَى ۔۔۔  وَالْمَسَاكِينِ ۔۔۔ وَابْنِ السَّبِيلِ ۔۔۔ وَمَا 

اور یتیم ۔۔ اور مساکین ۔۔ اور مسافر ۔۔ اور جو 

تَفْعَلُوا ۔۔ مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ ۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ ۔۔۔ بِهِ ۔۔۔ عَلِيمٌ۔ 2️⃣1️⃣5️⃣

تم کرو ۔۔ سے ۔۔ بھلائی ۔۔ پس بے شک ۔۔ الله ۔۔ اس کو ۔۔ جانتا ہے 


يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ 2️⃣1️⃣5️⃣


تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں کہہ دو جو مال تم خرچ کرو سو ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں کے لئے اور محتاجوں  اور مسافروں کے لئے اور جو کچھ تم بھلائی کرو گے وہ بے شک الله کو خوب معلوم ہے ۔ 


خِير ) مال ) یوں تو لفظ خیر میں ہر قسم کی نیکی خواہ بدنی ہو یا مالی ۔ چھوٹی ہو یا بڑی شامل ہے ۔ لیکن اس کے معنٰی نیک کمائی اور مال کے بھی ہیں ۔ اور یہاں خیر سے مراد مال ہی ہے ۔ 

اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں ۔ 

الله تعالی  نے فرمایا کہ تم اپنی نیک کمائی اور پاکیزہ دولت میں سے جتنا ہوسکے خرچ کرو ۔ الله تعالی نے ساتھ ہی وہ مستحق بتا دئیے جن پر دولت خرچ کرنی چاہئیے ۔ 

1. والدین ۔ ہماری دولت میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے ۔ افسوس آجکل کھاتے پیتے ، شادی شدہ اور کماؤ  نوجوان والدین کا حق نہیں پہچانتے ہیں ۔ 

2. قرابت دار ۔ والدین کے بعد قرابت دار (رشتہ دار ) آتے ہیں ۔ اسلام نے کسقدر زریں اصول دیا ۔ کہ خیرات و نیکی اپنے قریب سے شروع کرو اور دور تک پہنچاؤ ۔ 

3. یتیم ۔ وہ جو ماں باپ کے سائے سے محروم ہیں ۔ تم ان کے سر کا سایہ بن کر نگہبانی اور تربیت کرو ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے یتیموں کے بہت سے حقوق بیان فرمائے ہیں ۔ اور ان کی خدمت کو بہت اُونچی نیکی قرار دیا ہے ۔ 

4. مسکین ۔ وہ کمزور اور ناکارہ انسان جو کمانے سے معذور ہوں ۔ 

5. مسافر ۔ پانچواں درجہ ضرورت مند مسافر کا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

آزمائش کی گھڑی ۔ ۲۱۴

آزمائش کی گھڑی


أَمْ ۔۔۔۔۔۔۔  حَسِبْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَن تَدْخُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْجَنَّةَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَأْتِكُم

کیا ۔۔۔ تمہیں خیال ہے ۔۔ کہ تم داخل ہو جاؤ گے ۔۔۔ جنت ۔۔ اور ابھی تک نہیں ۔۔۔ آئے تم پر 

 مَّثَلُ ۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔خَلَوْا ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَبْلِكُم

مانند ۔۔ وہ لوگ ۔۔ گذر چکے ۔۔ سے ۔۔ تم سے پہلے 

 مَّسَّتْهُمُ ۔۔۔۔ الْبَأْسَاءُ ۔۔۔۔۔۔ وَالضَّرَّاءُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَزُلْزِلُوا 

پہنچی ان کو ۔۔ سختی ۔۔ اور تکلیف ۔۔ اور وہ ھلا دئیے گئے 

حَتَّى ۔۔۔ يَقُولَ ۔۔۔ الرَّسُولُ ۔۔۔۔۔۔ وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔  آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مَعَهُ 

یہانتک کہ ۔۔۔ کہا ۔۔ رسول ۔۔ اور وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ ساتھ اس کے 

مَتَى ۔۔۔ نَصْرُ ۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔  أَلَا ۔۔۔  إِنَّ ۔۔۔۔۔ نَصْرَ ۔

کب  ۔۔۔ مدد ۔۔ الله تعالی ۔۔ خبردار ۔۔ بے شک ۔۔ مدد 

اللَّهِ ۔۔۔ قَرِيبٌ۔ 2️⃣1️⃣4️⃣

الله ۔۔ قریب 



أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ. 2️⃣1️⃣4️⃣


کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ تم پر ان لوگوں جیسے حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے ہو چکے کہ انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور جھڑ جھڑائے گئے  یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے کہنے لگے  الله کی مدد کب آئے گی سن رکھو الله کی مدد قریب ہے ۔ 


اس آیت میں الله تعالی نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ فلاح اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے انسان کو سختیوں ، مصیبتوں اور مشکلوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ مشقت اور تکلیف جھیلے بغیر اور امتحان سے گزرے بغیر کامیابی کی امید رکھنا درست نہیں ۔ 

اس آیت میں سب سے بڑی بھلائی جنت کو قرار دیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ اتنی بڑی نعمت محنت کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔  بھلائی اور جنت کی راہ اس لئے کٹھن بنا دی گئی ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ کسے اس کی طلب اور تڑپ ہے ۔ جسے حقیقی جستجو ہوگی وہ ان تمام طاقتوں کو جو الله تعالی نے اسے بخشی ہیں کام میں لاکر اس مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ وہ اس کی خاطر ہر متاع قربان کرنے کو تیار ہوگا ۔ نیز جو لوگ کٹھن راہ سے گزر کر اپنے مقصود پائیں گے وہ اس کی صحیح قدر بھی سمجھ سکیں گے ۔ 

الله تعالی نے پچھلی امتوں کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ کامیابی پانیوالے ہمیشہ سے تنگی اور سختی کا مقابلہ کرتے چلے آئے ہیں ۔ کیونکہ الله کے دشمن اور نیکی سے عداوت رکھنے والے لوگ ایسے ایمانداروں کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ انہیں بے بس اور بے چارہ بنا کر چھوڑتے ہیں ۔ اور اس حد تک ان پر ظلم کرتے ہیں کہ نبی اور اس کے ساتھی ایماندار لوگ پکار اٹھتے ہیں کہ

 الله ! اب تو ظلم و ستم کی حد ہو گئی ۔ اب آزمائش کی انتہا ہو گئی تیری مدد کب آئے گی ؟ 

الله تعالی نے ایسے ایماندار لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ اس کی مدد انہیں ضرور پہنچے گی ۔ لیکن اس مدد کا ایک مقررہ دستور ہے ۔ پہلے  آزمایا جاتا ہے ۔ جب وہ پورے صبر اور ثابت قدمی سے جمے رہیں تو الله تعالی انہیں آخرکار کامیاب کرتا ہے ۔ اور حق کا دشمن ذلیل و خوار اور تباہ و برباد ہو کر رہتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


مذہبی اختلاف ۔ ۲۱۳/ب

مذہبی اختلاف


وَمَا ۔۔۔اخْتَلَفَ ۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔  الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    أُوتُوهُ 

اور نہیں اختلاف کیا ۔۔ اس میں ۔۔ مگر ۔۔ وہ لوگ ۔۔ جو دئیے گئے وہ (کتاب) 

مِن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جَاءَتْهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔ بَغْيًا ۔۔۔۔   بَيْنَهُمْ 

سے ۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔ آچکے ان کے پاس ۔۔ واضح احکام ۔۔۔۔ ضد ۔۔ آپس میں 

فَهَدَى ۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اخْتَلَفُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    فِيهِ 

پس ھدایت دی ۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ لوگ ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ اس کے لئے ۔۔ اختلاف کیا انہوں نے ۔۔ اس میں 

مِنَ ۔۔۔الْحَقِّ ۔۔۔۔۔۔۔ بِإِذْنِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  يَهْدِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مَن 

سے ۔۔ سچ ۔۔ اس کے حکم سے ۔۔ اور الله ۔۔ وہ ھدایت دیتا ہے ۔۔۔ جسے 

يَشَاءُ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ صِرَاطٍ ۔۔۔ مُّسْتَقِيمٍ 2️⃣1️⃣3️⃣

وہ چاہتا ہے ۔۔۔ طرف ۔۔ راستہ ۔۔۔ سیدھا 


وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.  2️⃣1️⃣3️⃣


اور کتاب میں صرف انہی لوگوں نے جھگڑا ڈالا جنہیں کتاب ملی  اس کے بعد کہ انہیں صاف حکم پہنچ چکے  آپس کی ضد سے۔ پھر الله تعالی نے ھدایت دی ایمان والوں کو اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے  اور الله جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ بتاتا ہے ۔ 


اَلّذين اُوتُوه ( جنہیں ملی تھی ) ان سے مراد وہ لوگ ہیں ۔ جنہیں نبیوں کے واسطے سے کتابیں ملی تھیں ۔ خصوصاً ان قوموں کے امام اور پیشوا  کیونکہ یہی لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے اور عوام صرف ان کے پیچھے ہو لیتے ۔ 

بَغْياً بينَهُم (آپس کی ضد سے ) یہاں یہ بات صاف ہو گئی کہ اختلاف اور جھگڑے کا اصل سبب آپس کی ضد اور نفسانیت تھی ۔ اور یہ وجہ ہرگز نہ تھی کہ خود الله تعالی کے حکموں میں کمی یا ایچ پیچ تھا ۔

بِاِذنه ( اپنے حکم سے ) قرآن مجید میں لفظ اذن" حکم اور اجازت دونوں معنوں میں آیا ہے ۔ یہاں مراد الله کا فضل اور توفیق ہے ۔ 

آیت کے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ الله کے نبی اورکتابوں کے آجانے کے بعد انہی لوگوں نے اختلاف ڈالا جن کو وہ کتابیں ملی تھیں ۔ مثلا یہودیوں اور عیسائیوں کے امام و پیشوا تورات اور انجیل میں اختلاف ڈالتے تھے ۔ ان کے معنٰی بدل دیتے تھے اور ان کی شرح و تفسیر بھی من مانی کرتے تھے ۔ یہ سارا اختلاف وہ بے سمجھی سے نہیں کرتے تھے بلکہ آپس کی ضد ، حسد اور دنیاوی مال و متاع کے لالچ میں کرتے تھے ۔ 

ان حالات میں الله تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ان لوگوں کو جو ایمان کے طالب تھے اور جن میں ایمان کی صلاحیت موجود تھی سیدھے راستے کی ھدایت فرمائی ۔ اس پر چلنے کی توفیق بخشی ۔ اور انہیں گمراہ لوگوں کے اختلاف سے بچایا ۔ 

اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا دستور کچھ ایسا ہے کہ بُرے لوگ اختلاف ڈالتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں سرگرم رہتے ہیں ۔ اس لئے ایمان والوں کو ان کے پیچھے نہیں لگنا چاہئیے ۔ بلکہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ھدایت اور تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہئیے ۔ ھدایت وہی ہے جو الله سبحانہ و تعالی نے دی اور کامیابی اسی طریقے پر چلنے 

سے حاصل ہو گی جو الله  جل جلالہ نے دکھایا ۔۔۔۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

امت واحدہ ۔ ۲۱۳ /ا

امتِ واحدہ


كَانَ ۔۔۔ النَّاسُ ۔۔ أُمَّةً ۔۔۔ وَاحِدَةً ۔۔۔۔۔۔۔فَبَعَثَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهُ 

تھے ۔۔ لوگ ۔۔ جماعت ۔۔ ایک ۔۔ پس بھیجے ۔۔ الله تعالی 

النَّبِيِّينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مُبَشِّرِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَمُنذِرِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَأَنزَلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَعَهُمُ 

نبی ۔۔۔ خوشخبری دینے والے ۔۔۔ اور ڈرانے والی ۔۔۔ اور اتاری ۔۔ ساتھ ان کے 

الْكِتَابَ ۔۔۔۔۔۔۔  بِالْحَقِّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لِيَحْكُمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بَيْنَ ۔۔۔ النَّاسِ 

کتاب ۔۔۔ سچ کے ساتھ ۔۔۔ تاکہ وہ فیصلہ کرے ۔۔ درمیان ۔۔۔ لوگ 

فِيمَا ۔۔۔۔۔۔  اخْتَلَفُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ 

جس میں ۔۔۔ جھگڑا کیا ۔۔۔ اس میں 


كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ 


سب لوگ ایک جماعت تھے پھر الله تعالی نے بھیجے خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے پیغمبر اور ان کے ساتھ نازل کی سچی کتاب تاکہ فیصلہ کردے لوگوں کے درمیان جس میں وہ جھگڑا کریں ۔ 


اُمّةً وّاحدَةً  (ایک جماعت ) امت کے معنی ملت اور جماعت کے ہیں ۔ 

الله تعالی نے فرمایا کہ ابتداء میں تمام اولادِ آدم ایک جماعت تھی سب کا مذہب ایک ہی تھا ۔ تمام لوگ توحید پر قائم تھے ۔ جب کبھی ان کے عقائد میں اختلاف پیدا ہوتا ۔ تو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے نبی آتے اور اُن کے اختلافات ختم کرتے ۔

گویا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ شروع میں کسی کو صحیح مذہب کا علم نہ تھا ۔ اور موجودہ توحید تک پہنچنے میں کئی منازل سے گذرنا پڑا ہے ۔ 

فَبَعَثَ ( پھر بھیجے ) یہاں  ف" سے مراد ہے کہ ایک مدت کے بعد یعنی جب باطل پرست بے شمار عقیدے اور مذہب بنا بیٹھے ۔ اور ان  میں اختلاف بڑھ گئے ۔ 

مُبَشّرينَ ( خوشخبری سنانے والے ) ۔ یعنی ان لوگوں کو جو الله تعالی کے دئیے ہوئے قانون کو قبول کر لیں ۔ خوشخبری سنانے والے ۔۔  لفظ بشر"  اس کا مادہ ہے ۔ 

مُنْذِرِين ( ڈرانے والے ) یعنی ان لوگوں کو جو الله تعالی کے دئیے ہوئے قانون کے خلاف انکار اور بغاوت کریں ۔ ڈرانے والے  "انذار  اس کا مصدر ہے ۔ 

لِيَحْكُمَ (تاکہ فیصلہ کرے  ) یعنی انہی نبیوں کے واسطے سے الله تعالی فیصلہ کردے ۔

حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ایک ہی دین آرہا ہے ۔ کچھ مدت کے بعد لوگوں نے اس دین میں اختلاف ڈالا تو الله تعالی نے وقتاً فوقتاً نبیوں کو بھیجا ۔ جو ایمان والوں کو ثواب کی خوشخبری سناتے تھے ۔ اور کافروں کو عذاب سے ڈراتے تھے ۔اور ان کے ساتھ سچی کتابیں بھی بھیجیں ۔ تاکہ لوگوں کے اختلافات اور جھگڑے دور ہوجائیں ۔ اور سچا دین ان 

کے اختلاف سے بچا رہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

ماہِ حرام میں جنگ ۔ آیہ ۲۱۷

ماہِ حرام میں جنگ


يَسْأَلُونَكَ ۔۔۔  عَنِ ۔۔۔۔۔۔الشَّهْرِ ۔۔۔۔۔۔۔الْحَرَامِ ۔۔۔ قِتَالٍ

وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔۔ مہینہ ۔۔۔ حرمت والا ۔۔۔۔ لڑنا 

 فِيهِ ۔۔۔  قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   قِتَالٌ ۔۔۔۔۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔  كَبِيرٌ

اس میں ۔۔۔ فرما دیجئے ۔۔۔ قتال ۔۔ اس میں ۔۔۔ بڑا ہے 


يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ


آپ سے حرمت کے مہینے کو پوچھتے ہیں  اس میں لڑنا کیسا ہے  کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی بڑا گناہ ہے ۔ 


اَلشّهرُ الحَرام ( حرمت کا مہینہ ) ۔ قمری سال کے چار مہینے محرم ۔ رجب ۔ ذی قعدہ اور ذی الحجہ ۔ عربوں کے نزدیک بڑے برکت والے اور پاک مہینے سمجھے جاتے تھے ۔ اگرچہ قتل و جنگجوئی ان کا پیشہ تھا ۔ لیکن ان چار مہینوں میں وہ ہر قسم کی جنگ بند رکھتے تھے ۔ یہاں خاص طور پر اشھر الحرام سے مراد رجب کا مہینہ ہے ۔ 

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سنہ ۲ھ ھجری میں ایک مرتبہ سفر کے دوران بعض صحابیوں کی مشرکین سے مڈھ بھیڑ ہو گئی اور جنگ میں ایک مشرک مارا گیا ۔ ان اصحاب کے نزدیک یہ جنگ جمادی الثانیہ کی تیس تاریخ کو ہوئی جو کہ حرمت کا مہینہ نہیں تھا ۔ لیکن بعد میں علم ہوا کہ جمادی الثانیہ کا چاند انتیس کا ہوگیا تھا ۔ اور جس روز جنگ لڑی گئی وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی ۔ جو کہ حرمت والا مہینہ تھا ۔ 

اس غلطی کو جو نادانستہ طور پر ہو گئی تھی کافروں اور مشرکوں نے خوب اچھالا اور طعنہ دینے لگے کہ دیکھو مسلمان اب ان مہینوں کا بھی احترام نہیں کرتے ۔ رجب کے مہینے میں بھی جنگ شروع کر دی ۔ اس پر وہ صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ یہ غلطی بے خبری میں ہوگئی ہے ۔ اب کیا حکم ہے ؟ 

اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ بُری بات ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ گناہ جان بوجھ کر کیا جائے ۔ اور ماہِ حرام کا علم رکھنے کے باوجود جنگ لڑی جائے ۔ اور جنگ جو مسلمانوں نے لڑی ہے جان بوجھ کر نہیں لڑی بلکہ اس میں ان سے بھول ہوگئی تھی ۔ 

علماء کرام اس بات ہر متفق  ہیں کہ اب بھی جب کبھی کافر حرمت والے مہینوں میں جنگ شروع کریں تو مسلمان اپنی حفاظت کے لئے دفاعی اور جوابی جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ ان کے حملے کا جواب دے سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان مہینوں کے تقدس کے مقابلے میں جانیں زیادہ مقدس ہیں ۔ ان کا بچانا زیادہ ضروری ہے ۔ ان برکت والے مہینوں میں جنگ کرنا اگرچہ بُرا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بُری وہ باتیں ہیں جو کفّار کرتے ہیں ۔ 

مثلا الله پر ایمان نہ لانا ۔۔۔ ایک سے زیادہ معبودوں کی پرورش کرنا ۔۔۔ روزِ آخرت کو نہ ماننا ۔۔۔ فتنہ و فساد پھیلانا ۔۔۔ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دینا ۔۔۔ کیونکہ یہ جنگ سے کم  گھناؤنی حرکتیں نہیں ہیں ۔ خود کفار اپنی روش پر غور نہیں کرتے ۔ انہوں نے مسلمانوں کی چھوٹی سی غلطی پر جو ان سے نادانستہ عمل میں آئی طعنے دینے شروع کر دئیے ۔ 

ان اُمور کا ذکر آیت کے اگلے حصہ میں ہے ۔ جو ہم اگلے سبق میں پڑھیں گے ۔ کافر و مشرک اپنی روش پر تو غور نہیں کرتے اور مسلمانوں سے الجھتے ہیں ۔ایک نادانستہ لغزش پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کر رہے ہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

انسان کی پسند و ناپسند ۔۔۔ آیہ ۲۱۶

*انسان کی پسند و ناپسند *


وَعَسَى ۔۔۔  أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔  تَكْرَهُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔  شَيْئًا ۔۔۔۔۔۔۔وَهُوَ

اور ۔۔۔ شاید ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ تم ناپسند کرو ۔۔ ایک چیز ۔۔ اور وہ 

 خَيْرٌ ۔۔۔ لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَسَى ۔۔۔۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تُحِبُّوا ۔۔۔ شَيْئًا 

بہتر ۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ اور شاید ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ تم پسند کرو ۔ایک چیز 

وَهُوَ۔۔  شَرٌّ ۔۔۔۔ لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمُ 

اور وہ ۔۔ بُری ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ اور الله ۔۔ وہ جانتا ہے 

وَأَنتُمْ ۔۔۔  لَا تَعْلَمُونَ 2️⃣1️⃣6️⃣

اور تم ۔۔ نہیں جانتے 


وَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ2️⃣1️⃣6️⃣


اور شاید تمہیں ایک چیز بُری لگے اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور شاید کوئی چیز بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے بُری ہو اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ 


عسٰى (شاید) ۔ ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے ۔ 

آیت کے پہلے حصے میں الله تعالی نے جہاد کا حکم دیا ۔ اور فرمایا کہ قتال تمہیں بظاہر بُرا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن قومی زندگی اور ملّی سر بلندی کے لئے اس کے بغیر چارہ نہیں ۔ 

اب اسی مضمون  کو واضح کرنے کے لئے کتنے اچھوتے اور پیارے انداز میں ارشاد ہوتا ہے ۔ 

ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند نہ کرو حالانکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو ۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو ۔ حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تم اپنے بُرے بھلے کو نہیں جانتے ۔ تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے حق میں بہتر کیا ہے ۔ اور بُرا کیا ہے ۔ البتہ تمہارا خالق و مالک خوب جانتا ہے ۔ کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے ۔ جب حقیقت یہ ہے تو جیسے جیسے کہتا ہے اور جو جو وہ حکم دیتا ہے ۔ اس میں تمہارا بھلا ہی بھلا ہے ۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں سب سے مشکل کام جان و مال کو خطرے میں ڈالنا ہے اور جنگ میں یہ دونوں خطرے درپیش ہوتے ہیں ۔ انسان جان و مال جیسی عزیز شے کو آسانی سے قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا ۔ ہاں اسے اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ زندگی اور اس زندگی کا سارا سازوسامان عارضی ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی اور مستقل آرام اس کے بعد نصیب ہوگا ۔ تو انسان کی نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں رہتی ۔ 

دوسرے اگر انسان کو یقین ہو جائے کہ میرا نفع و نقصان ، میرا خالق ومالک مجھ سے بہتر سمجھتا ہے ۔ بلکہ میں کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتا ۔ تمام حکمتیں اور بھلائیاں اسی کے اختیار میں ہیں ۔ اور وہ جو کچھ کہتا ہے میرے بھلے کے لئے ہی کہتا ہے ۔ اس صورت میں انسان جان و مال کیا ہر عزیز سے عزیز شے قربان کرنے کو تیار ہو جائے گا ۔ اور اس وقت اس کی نگاہوں میں کوئی چیز نہ جچے گی ۔ 


حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں