ماہِ حرام میں جنگ ۔ آیہ ۲۱۷

ماہِ حرام میں جنگ


يَسْأَلُونَكَ ۔۔۔  عَنِ ۔۔۔۔۔۔الشَّهْرِ ۔۔۔۔۔۔۔الْحَرَامِ ۔۔۔ قِتَالٍ

وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔۔ مہینہ ۔۔۔ حرمت والا ۔۔۔۔ لڑنا 

 فِيهِ ۔۔۔  قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   قِتَالٌ ۔۔۔۔۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔  كَبِيرٌ

اس میں ۔۔۔ فرما دیجئے ۔۔۔ قتال ۔۔ اس میں ۔۔۔ بڑا ہے 


يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ


آپ سے حرمت کے مہینے کو پوچھتے ہیں  اس میں لڑنا کیسا ہے  کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی بڑا گناہ ہے ۔ 


اَلشّهرُ الحَرام ( حرمت کا مہینہ ) ۔ قمری سال کے چار مہینے محرم ۔ رجب ۔ ذی قعدہ اور ذی الحجہ ۔ عربوں کے نزدیک بڑے برکت والے اور پاک مہینے سمجھے جاتے تھے ۔ اگرچہ قتل و جنگجوئی ان کا پیشہ تھا ۔ لیکن ان چار مہینوں میں وہ ہر قسم کی جنگ بند رکھتے تھے ۔ یہاں خاص طور پر اشھر الحرام سے مراد رجب کا مہینہ ہے ۔ 

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سنہ ۲ھ ھجری میں ایک مرتبہ سفر کے دوران بعض صحابیوں کی مشرکین سے مڈھ بھیڑ ہو گئی اور جنگ میں ایک مشرک مارا گیا ۔ ان اصحاب کے نزدیک یہ جنگ جمادی الثانیہ کی تیس تاریخ کو ہوئی جو کہ حرمت کا مہینہ نہیں تھا ۔ لیکن بعد میں علم ہوا کہ جمادی الثانیہ کا چاند انتیس کا ہوگیا تھا ۔ اور جس روز جنگ لڑی گئی وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی ۔ جو کہ حرمت والا مہینہ تھا ۔ 

اس غلطی کو جو نادانستہ طور پر ہو گئی تھی کافروں اور مشرکوں نے خوب اچھالا اور طعنہ دینے لگے کہ دیکھو مسلمان اب ان مہینوں کا بھی احترام نہیں کرتے ۔ رجب کے مہینے میں بھی جنگ شروع کر دی ۔ اس پر وہ صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ یہ غلطی بے خبری میں ہوگئی ہے ۔ اب کیا حکم ہے ؟ 

اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ بُری بات ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ گناہ جان بوجھ کر کیا جائے ۔ اور ماہِ حرام کا علم رکھنے کے باوجود جنگ لڑی جائے ۔ اور جنگ جو مسلمانوں نے لڑی ہے جان بوجھ کر نہیں لڑی بلکہ اس میں ان سے بھول ہوگئی تھی ۔ 

علماء کرام اس بات ہر متفق  ہیں کہ اب بھی جب کبھی کافر حرمت والے مہینوں میں جنگ شروع کریں تو مسلمان اپنی حفاظت کے لئے دفاعی اور جوابی جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ ان کے حملے کا جواب دے سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان مہینوں کے تقدس کے مقابلے میں جانیں زیادہ مقدس ہیں ۔ ان کا بچانا زیادہ ضروری ہے ۔ ان برکت والے مہینوں میں جنگ کرنا اگرچہ بُرا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بُری وہ باتیں ہیں جو کفّار کرتے ہیں ۔ 

مثلا الله پر ایمان نہ لانا ۔۔۔ ایک سے زیادہ معبودوں کی پرورش کرنا ۔۔۔ روزِ آخرت کو نہ ماننا ۔۔۔ فتنہ و فساد پھیلانا ۔۔۔ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دینا ۔۔۔ کیونکہ یہ جنگ سے کم  گھناؤنی حرکتیں نہیں ہیں ۔ خود کفار اپنی روش پر غور نہیں کرتے ۔ انہوں نے مسلمانوں کی چھوٹی سی غلطی پر جو ان سے نادانستہ عمل میں آئی طعنے دینے شروع کر دئیے ۔ 

ان اُمور کا ذکر آیت کے اگلے حصہ میں ہے ۔ جو ہم اگلے سبق میں پڑھیں گے ۔ کافر و مشرک اپنی روش پر تو غور نہیں کرتے اور مسلمانوں سے الجھتے ہیں ۔ایک نادانستہ لغزش پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کر رہے ہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں