نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جو مسلمان دنیا میں کسی بھی مسلمان پر ناحق ظلم و ستم سے دکھ اورغم محسوس نہیں کرتا اسے اپنے ایمان کی تجدید کر لینی چاہئیے ۔ 

پیارے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم ان پر میری جان قربان ۔۔۔ نے فرمایا 

جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کو اسی طرح مضبوط کرتا ہے جیسے عمارت کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے ۔۔۔ جیسے ایک ایک اینٹ مل کر دیوار بناتی ہے ۔۔۔ اسی طرح ایک ایک مؤمن مل کر امت کی تشکیل کرتا ہے ۔ 

اسی طرح نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ جس کا مفہوم ہے کہ آپس کی محبت اور ایک دوسرے کی مصیبت پر دلی احساس محسوس کرنے میں مؤمنوں کا معاملہ ایسا ہے جیسا کہ ایک جسم  ہو ۔ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی بخار محسوس کرتا ہے اور اس تکلیف کی وجہ سے آرام کی نیند نہیں سوسکتا ۔۔۔ بے آرام رہتا ہے ۔ 

چنانچہ فلسطین ہو یا کشمیر ۔۔۔ برما ہو یا شام یا دنیا کا کوئی بھی حصہ ہو جہاں بھی مسلمان تکلیف اور جنگ کی حالت میں ہوں دوسرےمسلمان ان کی تکلیف کو ضرور بالضرور محسوس کریں گے اور دلی رنج و غم میں مبتلا ہوں گے ۔ 

حلب کے مسلمان آج جس طرح کٹ رہے ہیں دشمنوں کی بمباری سے ان کی نسل کا خاتمہ کیا جارہا ہے ۔۔۔ انہیں اپنے ہی خون میں نہلایا جا رہا ہے ۔۔۔ شہری آبادی پر بلادھڑک بمباری کی گئی اور اس سلسلے میں کسی بھی بین الاقوامی قانون کی پاسداری نہیں کی گئی ۔۔۔۔ یہاں تک کہ کیمکل حملوں سے بھی دریغ نہیں کیا گیا ۔۔۔۔ خواہ اس کا کچھ بھی سبب ہو ۔۔۔

ہم مسلمان ہونے کے ناطے اپنے مسلم بہن ، بھائیوں اور معصوم بچوں کے اس وحشیانہ قتل کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔۔۔  ہمارے دل ان کے لئے خون کے آنسو روتے ہیں ۔۔۔۔ اور ان کے دکھ اور تکلیف پر ہمارے دل تڑپ رہے ہیں ۔ ۔۔۔ 

 ہم ان کے دشمنوں کے لئے الله کے حضور رو رو کر بد دعا کرتے ہیں ۔۔۔ 

اے الله تو مسلمانوں کے دشمنوں کو ہلاک کر ۔ انہیں تباہ و برباد کر دے ۔۔۔ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کردے ۔۔۔ ان میں پھوٹ ڈال ۔۔ ان کے دلوں اور قدموں کو ڈگمگا دے ۔۔۔ اور 

اور اے الله ہمیں ہمت اور استطاعت دے کہ ہم ان کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوسکیں ۔ 

اے الله ! ہمارے دلوں میں شوق شھادت جگا اور اسلام کے دشمنوں سے جہاد کے لئے ہمیں یک جان کر دے ۔ اے مولا ! ہم اپنی کمزوری اور بے بسی کی تجھ سے ہی شکایت کرتے ہیں ۔۔۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...