مجاھدوں کی آزمائش ۔ آیہ ۔ 249۔ا

مجاھدوں کی آزمائش


فَلَمَّا ۔۔۔  فَصَلَ ۔۔۔  طَالُوتُ ۔۔۔۔۔۔  بِالْجُنُودِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  إِنَّ ۔۔ اللَّهَ 

پس جب ۔۔۔ نکلا ۔۔ طالوت ۔۔۔ لشکر کے ساتھ ۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله 

مُبْتَلِيكُم ۔۔۔  بِنَهَرٍ۔۔۔۔۔  فَمَن ۔۔۔  شَرِبَ ۔۔۔  مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔  فَلَيْسَ ۔۔۔  مِنِّي

آزمائے کا تم کو ۔۔۔ ایک نہر ۔۔۔ پس جو ۔۔ پیا ۔۔ اس سے ۔۔ پس نہیں ۔۔ میرا 

 وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَّمْ يَطْعَمْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنَّهُ ۔۔۔ مِنِّي ۔۔۔  إِلَّا ۔۔ مَنِ ۔۔۔ اغْتَرَفَ

اور جو ۔۔ نہیں پیا اس سے ۔۔۔ پس بے شک وہ ۔۔ میرا ۔۔ مگر ۔۔ جو ۔۔ بھرے 

 غُرْفَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِيَدِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَشَرِبُوا ۔۔۔  مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔  قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔۔۔   مِّنْهُمْ 

ایک چلو ۔۔ اپنے ہاتھ سے ۔۔ پس پیا انہوں نے ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ مگر ۔۔ تھوڑے ۔۔ ان میں سے 


فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ 


پھر جب طالوت فوجیں لے کر باہر نکلے کہا بے شک الله تعالی ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرتا ہے  سو جس نے اس نہر کا پانی پیا تو وہ میرا نہیں اور جس نے اسے نہ چکھا تو وہ بے شک میرا ہے مگر جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلّو بھرے  پھر سب نے پی لیا مگر ان میں سے تھوڑوں نے 


نَھَر( نہر ) ۔ ایک دریا جس سے اس لشکر کو گزرنا تھا ۔ اس کا نام دریائے اردن بیان کیا جاتا ہے ۔ شرق اردن کی ہاشمی حکومت کا نام بھی اسی دریا کی نسبت سے ہے ۔ یہ دریا شمال سے جنوب کو بہتا ہے اور بحیرہ مردار میں جا گرتا ہے ۔ 

مَنْ شَرِبَ مِنْہُ ( جس نے اس سے پی لیا ) ۔ مراد یہ ہے ۔ جس نے اس کا پانی جی بھر کے اور سیر ہو کر نوش کیا ۔ وہ میرا نافرمان شمار ہو گا اور میری جماعت سے خارج ہو جائے گا ۔ 

غُرْفَةً بِیَدِہ ( اپنے ہاتھ سے ایک چلّو ) ۔ یعنی پیاس بجھانے اور ہونٹوں کی خشکی دور کرنے کے لئے تھوڑا سا صرف چلو بھر پانی پی لینے کی اجازت ہوگی ۔ 

طالوت یہود کے لشکر کو جالوت کے مقابلے کے لئے لے کر چلے تو الله تعالی نے ان لوگوں کے لئے ایک آزمائش مقرر کی اور وہ یہ تھی کہ راستہ میں دریائے اردن کا پانی پیٹ بھر کر نہ پیئں ۔

الله تعالی کا کوئی حکم حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا ۔ ہر حکم اور ہر پابندی میں انسان کے لئے کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور پوشیدہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ محض ایک امتحان نہ تھا ۔ بلکہ اس پابندی میں صحت و کردار کے اعتبار سے انہیں کا فائدہ تھا ۔ جو اس وقت تو ان کی سمجھ میں نہ آیا ۔ لیکن بہت جلد انہیں معلوم ہو گیا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تابوت سکینہ ۔ آیہ ۔ 248

تابوت سکینہ


وَقَالَ ۔۔۔  لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   نَبِيُّهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   آيَةَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مُلْكِهِ 

اور کہا ۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ ان کے نبی نے ۔۔ بے شک ۔۔۔ نشانی ۔۔۔ اس کی سلطنت 

أَن يَأْتِيَكُمُ ۔۔۔  التَّابُوتُ ۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سَكِينَةٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔  رَّبِّكُمْ 

یہ کہ تمہارے پاس آئے ۔۔۔ تابوت ۔۔۔ اس میں ۔۔۔ تسلی خاطر ۔۔ سے ۔۔ تمہارا رب 

وَبَقِيَّةٌ ۔۔۔ مِّمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تَرَكَ ۔۔۔  آلُ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔  وَآلُ هَارُونَ 

اور بچی ہوئی چیزیں ۔۔ اس سے جو ۔۔ چھوڑا ۔۔ اولادِ موسٰی ۔۔۔ اور اولاد ہارون 

تَحْمِلُهُ ۔۔۔  الْمَلَائِكَةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  إِنَّ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ ذَلِكَ 

اٹھا کر لائیں گے اس کو ۔۔۔ فرشتے ۔۔۔ بے شک ۔۔ میں ۔۔۔ یہ 

لَآيَةً ۔۔۔  لَّكُمْ ۔۔۔ إِن ۔۔۔ كُنتُم ۔۔۔۔۔۔۔  مُّؤْمِنِينَ  2️⃣4️⃣8️⃣

البتہ نشانی ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔ اگر ۔۔۔ ہو تم ۔۔ یقین رکھتے 


وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.  2️⃣4️⃣8️⃣


اور ان کے نبی نے بنی اسرائیل سے کہا کہ طالوت کی سلطنت کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق لایا جائے گا جس میں تسلی خاطر ہے تمہارے رب کی طرف سے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جو چھوڑ گئی موسٰی اور ہارون کی اولاد  اس صندوق کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے بے شک اسی میں  تمہارے لئے پوری نشانی ہے اگر تم یقین رکھتے ہو ۔ 


اَلتّابُوت ( صندوق ) ۔ اس صندوق کا نام تابوتِ سکینہ بھی ہے ۔ اس میں تورات کا اصلی نسخہ اور بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے تبرکات موجود تھے ۔ بنی اسرائیل کے لئے یہ سب سے بڑا قومی ورثہ تھا ۔ وہ اسے ہر وقت حتی کہ سفر اور جنگ میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ وہ اسے بڑا بابرکت سمجھتے تھے ۔ اور خاص طور پر لڑائی کے وقت اسے آگے آگے رکھتے تاکہ الله تعالی اس کی برکت سے انہیں فتح نصیب فرمائے ۔ 

حضرت شموئل علیہ السلام نے حضرت طالوت کو بنی اسرائیل پر بادشاہ مقرر کر دیا تو ان کے اطمینان کے لئے یہ بھی بتایا کہ اُن کی بادشاھت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارا وہ مبارک صندوق جسے جالوت تم سے چھین کر لے گیا تھا وہ طالوت کے عہدِ حکومت میں تمہیں واپس مل جائے گا ۔ 

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی جب سے یہ تابوت بنی اسرائیلیوں سے چھین کر لے گئے انہیں ایک دن بھی چین نہ آیا ۔ جس جگہ اور جس بستی میں اسے رکھتے وہیں کوئی وبا پھوٹ پڑتی یا کوئی اور مصیبت آجاتی ۔ آخر عاجز آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے ۔ چنانچہ یہ تابوت انہوں نے ایک بیل گاڑی میں لادا اور بغیر کسی گاڑی بان کے اس کو یونہی ہانک دیا ۔الله تعالی کے فرشتے اسے طالوت کے دروازے پر لے گئے ۔ بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لے آئے ۔ 

تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ تابوت بنی اسرائیل کے قبضے میں حضرت سلیمان علیہ السلام ( ۲۳۰ق۔م ) کے عہد تک رہا ۔ آپ نے اسے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد اس 

میں رکھ دیا ۔ اس کے بعد اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سپہ سالار کی خصوصیات ۔ 247-ب

سپہ سالار کی خصوصیات


قَالَ ۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ اصْطَفَاهُ ۔۔۔۔۔۔۔  عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَزَادَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بَسْطَةً

اس نے کہا ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ چُن لیا اس کو ۔۔ تم پر ۔۔ اور زیادہ کی اس کو ۔۔ فراخی 

 فِي ۔۔۔ الْعِلْمِ ۔۔۔ وَالْجِسْمِ ۔۔۔  وَاللَّهُ ۔۔۔ يُؤْتِي ۔۔۔۔۔۔۔  مُلْكَهُ 

میں ۔۔ علم ۔۔ اور جسم ۔۔ اور الله ۔۔۔ دیتا ہے ۔۔۔ اپنا ملک 

مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَشَاءُ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاسِعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  عَلِيمٌ۔ 2️⃣4️⃣7️⃣

جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ وسعت والا ۔۔ جاننے والا 


قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ   2️⃣4️⃣7️⃣


نبی نے کہا  یقیناً الله تعالی نے اسے تم پر چُن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے اور الله تعالی جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے اور الله تعالی فضل کرنے والا جاننے والا ہے ۔ 


آیت کے پہلے حصے میں ذکر تھا کہ شموئل نبی نے الله تعالی کی طرف سے طالوت کی سپہ سالاری کا اعلان فرمایا ۔ یہودیوں نے اپنی امارت کے زعم میں ان کے اس انتخاب پر اعتراض کیا ۔ کہ وہ ہم سے زیادہ دولتمند نہیں ہمارے بادشاہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔ 

الله کے نبی نے حکومت اور سرداری کے لئے الله کریم کی مقرر کردہ خصوصیات بیان فرمائیں ۔ 

اوّل یہ کہ الله تعالی نے اسے علم میں وسعت اور فراوانی بخشی ہے ۔ 

دوسرے یہ کہ جسمانی اعتبار سے وہ تمہارے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے ۔ 

بَسْطَۃً فِی العلمِ  ( الله نے اسے علم میں وسعت دی ) ۔ علم سے مراد حقائق کو جاننا اور اسرار کو پہچاننا ہے ۔ اس ایک لفظ میں بے شمار معنٰی پوشیدہ ہیں ۔ اور تمام علوم و فنون اس میں شامل ہیں ۔ خصوصاً ملک گیری اور ملک رانی کے علوم ۔

اَلْجِسم ( جسم ) ۔ مقصد یہ ہے کہ طالوت تمہارے مقابلہ میں قد وقامت کے اعتبار سے اور قوت وطاقت کے لحاظ سے زیادہ اہلیت کے مالک ہیں ۔ جس شخص میں علم و جسم کی دونوں طاقتیں زیادہ ہوں گی ۔  وہ دوسروں پر فوقیت اور سرداری کے لائق ہو گا ۔ 

مُلْکَهُ ( اپنا ملک ) ۔ مدعا یہ ہے کہ حکمرانی اصل میں الله تعالی کی ہے ۔ اور حکومت حقیقت میں اس ذات واحد کے لئے ہے ۔ 

                         سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے 

                         حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری ! 

اب یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے کہ اپنے بندوں میں سے وہ سب سے اہل اور مستحق کو اپنی حکومت چلانے کی خدمت سپرد کر دے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سپہ سالار کا انتخاب ۔ آیہ ۔ 247 ۔ ا

سپہ سالار کا انتخاب


وَقَالَ ۔۔۔  لَهُمْ ۔۔ نَبِيُّهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔   إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   قَدْ بَعَثَ 

اور کہا ۔۔ ان سے ۔۔۔ ان کا نبی ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ تحقیق بھیجا 

لَكُمْ ۔۔ طَالُوتَ ۔۔۔  مَلِكًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قَالُوا ۔۔۔  أَنَّى ۔۔۔ يَكُونُ 

تمہارے لئے ۔۔۔ طالوت ۔۔۔ بادشاہ ۔۔ کہا انہوں نے ۔۔۔ کیسے ۔۔ ہو 

لَهُ ۔۔۔ الْمُلْكُ ۔۔۔ عَلَيْنَا ۔۔۔ وَنَحْنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَحَقُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِالْمُلْكِ

اس کے لئے ۔۔۔ بادشاہی ۔۔۔ ہم پر ۔۔ اور ہم ۔۔ زیادہ حق دار ۔۔ بادشاہی کے ۔

 مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَمْ يُؤْتَ ۔۔۔ سَعَةً ۔۔۔  مِّنَ ۔۔۔۔ الْمَالِ۔  

اس سے ۔۔۔ اور نہیں وہ دیا گیا ۔۔ وسعت ۔۔۔ سے ۔۔ مال 


وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ


اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ الله تعالی نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہنے لگے اسے ہم پر بادشاہت کیونکر مل سکتی ہے اور ہم اس کے مقابلے میں حکو مت کا زیادہ حق رکھتے ہیں اور اسے تو مال میں وسعت نہیں ملی 


طَالُوْتَ ( طالوت بن کش ) ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے سب سے بڑے ، سب سے پہلے بادشاہ تسلیم کئے گئے ۔ ان کا زمانہ (۱۰۱۲) قبل مسیح سے (۱۰۲۸) قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے ۔ آپ قبیلہ بن یامین سے تھے ۔ آپ کا خاندان معمولی درجہ کا تھا ۔ اس خاندان میں کبھی کوئی بادشاہ نہیں ہوا تھا اور وہ کوئی خاص مالدار اور دولت مند بھی نہ تھے ۔ 

غلط اندیش یہودیوں نے آپ کے سپہ سالار مقرر ہونے پر یہی اعتراض کیا کہ وہ مالدار نہیں ہیں ۔ ایک غریب آدمی ہیں ۔ بھلا ہم دولت مندوں پر ایک غریب کو کیسے سرداری مل سکتی ہے ۔ حکومت اور سرداری تو امیروں کا پیدائشی حق ہے ۔ 

ایک یہودیوں پر کیا منحصر ہے ہمیشہ مادہ پرست قوموں نے اسی قسم کے غلط اصول بنائے اور حکومت کو امیروں اور دولت مندوں کے گھر کی لونڈی سمجھ لیا ۔ حالانکہ یہ تصور حد درجہ احمقانہ اور غیر منصفانہ ہے ۔ اسی لئے آنے والی نسلوں کی عبرت کے لئے الله تعالی نے اپنی آخری کتاب میں یہودیوں کے اس غلط تصور کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ۔ تاکہ آئندہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو اور کوئی قوم دولت و ثروت کو سرداری اور سر بلندی کا معیار نہ سمجھ بیٹھے ۔ 

اس کے بعد بھی اگر کوئی قوم یا کوئی جماعت دولت مندی کو برتری کا سبب تصور کرتی ہے تو اسے وہی سزا بھگتنا پڑے گی جو اس سے قبل یہودیوں کو برداشت کرنی پڑی ۔ چونکہ فطرت کا قانون نہیں بدلتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

حضرت طالوت کا قصہ ۔۔۔ 246

حضرت طالوت کا قصہ


أَلَمْ تَرَ ۔۔۔۔  إِلَى ۔۔۔۔۔۔۔    الْمَلَأِ ۔۔۔  مِن ۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ 

کیا نہیں دیکھا ۔۔۔ طرف ۔۔۔ ایک جماعت ۔۔۔ سے ۔۔ بنی اسرائیل 

مِن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔ إِذْ ۔۔۔ قَالُوا ۔۔۔ لِنَبِيٍّ

سے ۔۔۔ بعد ۔۔ موسیٰ ۔۔ جب ۔۔۔ کہا ۔۔ نبی سے 

 لَّهُمُ ۔۔۔ ابْعَثْ ۔۔۔۔۔۔۔۔    لَنَا ۔۔۔ مَلِكًا ۔۔۔ نُّقَاتِلْ۔۔۔۔  فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ 

ان کے لئے ۔۔۔ مقرر کرو ۔۔۔ ہمارے لئے ۔۔۔ بادشاہ ۔۔ ہم لڑیں ۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔ الله 

قَالَ ۔۔۔ هَلْ ۔۔۔۔۔۔  عَسَيْتُمْ۔۔۔۔  إِن ۔۔۔ كُتِبَ ۔۔۔  عَلَيْكُمُ ۔۔۔ الْقِتَالُ

کہا ۔۔ کیا ۔۔ تم سے توقع ہے ۔۔ اگر ۔۔ لکھا گیا ۔۔ تم پر ۔۔ لڑنا 

 أَلَّا تُقَاتِلُوا ۔۔۔۔۔  قَالُوا ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔  لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔  أَلَّا ۔۔۔۔۔  نُقَاتِلَ 

یہ کہ نہ تم لڑو ۔۔ کہا ۔۔ اور کیا ۔۔ ہمیں ۔۔ یہ کہ نہ ۔۔۔  ہم لڑیں 

 فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔  وَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔  أُخْرِجْنَا۔۔۔۔۔۔۔  مِن ۔۔۔۔۔۔ دِيَارِنَا 

میں ۔۔۔ راستہ ۔۔۔ الله ۔۔ اور تحقیق ۔۔ ہم نکالے گئے ۔۔۔ سے ۔۔ ہمارے گھر 

وَأَبْنَائِنَا ۔۔۔ فَلَمَّا ۔۔۔۔ كُتِبَ ۔۔۔۔ عَلَيْهِمُ ۔۔۔ الْقِتَالُ ۔۔۔۔۔۔   تَوَلَّوْا 

اور ہمارے بیٹے ۔۔ پس جب ۔۔ لکھا گیا ۔۔ ان پر ۔۔۔ لڑنا ۔۔ وہ پھر گئے 

إِلَّا ۔۔۔ قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔۔  مِّنْهُمْ ۔۔۔۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ عَلِيمٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  بِالظَّالِمِينَ  2️⃣4️⃣6️⃣

مگر ۔۔۔ تھوڑے ۔۔۔ ان میں سے ۔۔ اور الله ۔۔۔ جانتا ہے ۔۔۔ ظالموں کو 


أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَأِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ.   2️⃣4️⃣6️⃣


کیا تو نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہ دیکھا موسی ٰ علیہ السلام کے بعد جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم الله کی راہ میں لڑیں  پیغمبر نے کہا کیا تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تمہیں لڑائی کا حکم ہو تو تم اس وقت نہ لڑو وہ بولے ہمیں کیا ہوا کہ ہم نہ لڑیں الله کی راہ میں اور ہم تو نکال دئیے گئے اپنے گھروں اور بیٹوں سے  پھر جب انہیں حکم ہوا لڑائی کا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے اور الله تعالی گنہگاروں کو خوب جانتا ہے ۔ 


اس آیت میں بھی بنی اسرئیل کی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ 

حضرت موسٰی علیہ السلام کے کچھ عرصے بعد بادشاہ طالوت اور اور دوسرے دشمنوں کے حملوں سے گھبرا کر اور ہر طرف سے عاجز ہو کر یہ لوگ بیت المقدس میں جمع ہو گئے ۔ 

غالباً یہ زمانہ حضرت شموئل نبی کا تھا ۔ الله کے نبی سے  کہنے لگے کہ ہم پر کوئی سپہ سالار مقرر کردو جس کی سرکردگی میں ہم جہاد کر سکیں ۔ 

انہوں نے فرمایا ڈر ہے کہ جہاد کا حکم آیا تو تم جی چُراؤ گے ۔ ان لوگوں نے یقین دلایا ۔ 

مگر جب لڑائی کا وقت آیا تو چند لوگوں کے سوا سب پیٹھ دکھا گئے ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

قرض حسن ۔۔۔ سورۃ بقرہ ۔ آیات: 244, 245

قرضِ حسن


وَقَاتِلُوا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاعْلَمُوا 

اور تم لڑو ۔۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔۔ الله ۔۔۔ اور جان لو 

 أَنَّ ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ.  2️⃣4️⃣4️⃣

بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ سنتا ہے ۔۔۔ جانتا ہے 


مَّن ۔۔۔ ذَا الَّذِي ۔۔۔  يُقْرِضُ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ قَرْضًا ۔۔۔ حَسَنًا 

کون ۔۔ ایسا جو ۔۔ قرض دے ۔۔۔ الله ۔۔ قرض ۔۔۔ حسنہ 

فَيُضَاعِفَهُ ۔۔۔۔  لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔ أَضْعَافًا ۔۔۔۔۔  كَثِيرَةً 

پھر دوگنا کردے اس کو ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ بڑھانا ۔۔ زیادہ 

 وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يَقْبِضُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَيَبْسُطُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَإِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تُرْجَعُونَ  2️⃣4️⃣5️⃣

اور الله ۔۔۔ تنگی کر دیتا ہے ۔۔۔ اور کشائش کرتا ہے ۔۔۔ اور اسی کی طرف ۔۔۔ تم لوٹائے جاؤ گے 


وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. 2️⃣4️⃣4️⃣


اور الله کی راہ میں لڑو اور جان لو کہ الله تعالی  بے شک سنتا جانتا ہے 


مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.  2️⃣4️⃣5️⃣


کون شخص ہے جو الله کو اچھا قرض دے پھر الله تعالی اسے کئی گنا کردے اور الله ہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشائش کرتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے 


عَلِیمٌ ( جانتا ہے ) ۔ مراد یہ ہے کہ الله تعالی جہاد کرنے والوں اور جہاد نہ کرنے والوں کے دل کے ارادوں اور زبان سے کئے ہوئے اعلانات کو جانتا ہے ۔ 

قَرْضاً حَسَناً ( اچھا قرض ) ۔ ایسا قرض جس کے بعد مقروض کو تنگ نہ کیا جائے ۔ نہ احسان جتایا جائے نہ بدلہ لیا جائے اور نہ مقروض کو حقیر سمجھا جائے ۔ وسیع معنوں میں اس سے مراد ہر وہ رقم بھی ہوتی ہے جو دین کی  کسی مد میں خرچ ہو ۔ یہاں جہاد میں خرچ کرنا مراد ہے ۔

 اہل عرب ہر اچھے معاوضہ والے عمل کو " قرض ِحسن " کہتے تھے ۔ اور ہر بُرے معاوضے والے عمل کو بُرا قرض کہا کرتے تھے ۔ چونکہ جہاد کی راہ میں مال خرچ کرنے سے آخرت میں کئی گنا زیادہ واپس ملتا ہے ۔ اس لئے اس خرچ کے عمل کو قرآن مجید نے " قرض ِحسن " قرار دیا ہے 

فَیُضٰعِفَهُ ( پھر دگنا کردے ) ۔ مراد ہے اس کے اجرو ثواب کو دوگنا کردے ۔ اس کا مصدر اضعاف ( چند در چند اور کئی گنا زیادہ کرنا ) ہے ۔ 

پچھلی آیت میں الله تعالی نے ایک قوم کا ذکر کر کے یہ واضح کر دیا تھا کہ زندگی اور موت کا اختیار صرف الله تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے دشمن کے خوف سے بھاگنا نہیں چاہئیے ۔ اب صریح طور پر جہاد کا حکم ہے کہ دینِ حق کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرو ۔ 

جہاد کے لئے جنگ کے سامان آلات و ہتھیار اور دیگر اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے ان لوگوں کو جو صاحبِ استطاعت ہیں ۔ یہ حکم دیا کہ تم دل کھول کر مال خرچ کرو ۔ تمہاری اس قربانی کو الله تعالی کو کئی گنا کرکے واپس کرے گا ۔ تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ روپیہ خرچ کرنے سے تم غریب ہوجاؤ گے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں