نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سپہ سالار کی خصوصیات ۔ 247-ب

سپہ سالار کی خصوصیات


قَالَ ۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ اصْطَفَاهُ ۔۔۔۔۔۔۔  عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَزَادَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بَسْطَةً

اس نے کہا ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ چُن لیا اس کو ۔۔ تم پر ۔۔ اور زیادہ کی اس کو ۔۔ فراخی 

 فِي ۔۔۔ الْعِلْمِ ۔۔۔ وَالْجِسْمِ ۔۔۔  وَاللَّهُ ۔۔۔ يُؤْتِي ۔۔۔۔۔۔۔  مُلْكَهُ 

میں ۔۔ علم ۔۔ اور جسم ۔۔ اور الله ۔۔۔ دیتا ہے ۔۔۔ اپنا ملک 

مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَشَاءُ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاسِعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  عَلِيمٌ۔ 2️⃣4️⃣7️⃣

جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ وسعت والا ۔۔ جاننے والا 


قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ   2️⃣4️⃣7️⃣


نبی نے کہا  یقیناً الله تعالی نے اسے تم پر چُن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے اور الله تعالی جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے اور الله تعالی فضل کرنے والا جاننے والا ہے ۔ 


آیت کے پہلے حصے میں ذکر تھا کہ شموئل نبی نے الله تعالی کی طرف سے طالوت کی سپہ سالاری کا اعلان فرمایا ۔ یہودیوں نے اپنی امارت کے زعم میں ان کے اس انتخاب پر اعتراض کیا ۔ کہ وہ ہم سے زیادہ دولتمند نہیں ہمارے بادشاہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔ 

الله کے نبی نے حکومت اور سرداری کے لئے الله کریم کی مقرر کردہ خصوصیات بیان فرمائیں ۔ 

اوّل یہ کہ الله تعالی نے اسے علم میں وسعت اور فراوانی بخشی ہے ۔ 

دوسرے یہ کہ جسمانی اعتبار سے وہ تمہارے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے ۔ 

بَسْطَۃً فِی العلمِ  ( الله نے اسے علم میں وسعت دی ) ۔ علم سے مراد حقائق کو جاننا اور اسرار کو پہچاننا ہے ۔ اس ایک لفظ میں بے شمار معنٰی پوشیدہ ہیں ۔ اور تمام علوم و فنون اس میں شامل ہیں ۔ خصوصاً ملک گیری اور ملک رانی کے علوم ۔

اَلْجِسم ( جسم ) ۔ مقصد یہ ہے کہ طالوت تمہارے مقابلہ میں قد وقامت کے اعتبار سے اور قوت وطاقت کے لحاظ سے زیادہ اہلیت کے مالک ہیں ۔ جس شخص میں علم و جسم کی دونوں طاقتیں زیادہ ہوں گی ۔  وہ دوسروں پر فوقیت اور سرداری کے لائق ہو گا ۔ 

مُلْکَهُ ( اپنا ملک ) ۔ مدعا یہ ہے کہ حکمرانی اصل میں الله تعالی کی ہے ۔ اور حکومت حقیقت میں اس ذات واحد کے لئے ہے ۔ 

                         سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے 

                         حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری ! 

اب یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے کہ اپنے بندوں میں سے وہ سب سے اہل اور مستحق کو اپنی حکومت چلانے کی خدمت سپرد کر دے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...