قرض حسن ۔۔۔ سورۃ بقرہ ۔ آیات: 244, 245

قرضِ حسن


وَقَاتِلُوا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاعْلَمُوا 

اور تم لڑو ۔۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔۔ الله ۔۔۔ اور جان لو 

 أَنَّ ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ.  2️⃣4️⃣4️⃣

بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ سنتا ہے ۔۔۔ جانتا ہے 


مَّن ۔۔۔ ذَا الَّذِي ۔۔۔  يُقْرِضُ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ قَرْضًا ۔۔۔ حَسَنًا 

کون ۔۔ ایسا جو ۔۔ قرض دے ۔۔۔ الله ۔۔ قرض ۔۔۔ حسنہ 

فَيُضَاعِفَهُ ۔۔۔۔  لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔ أَضْعَافًا ۔۔۔۔۔  كَثِيرَةً 

پھر دوگنا کردے اس کو ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ بڑھانا ۔۔ زیادہ 

 وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يَقْبِضُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَيَبْسُطُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَإِلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تُرْجَعُونَ  2️⃣4️⃣5️⃣

اور الله ۔۔۔ تنگی کر دیتا ہے ۔۔۔ اور کشائش کرتا ہے ۔۔۔ اور اسی کی طرف ۔۔۔ تم لوٹائے جاؤ گے 


وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. 2️⃣4️⃣4️⃣


اور الله کی راہ میں لڑو اور جان لو کہ الله تعالی  بے شک سنتا جانتا ہے 


مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.  2️⃣4️⃣5️⃣


کون شخص ہے جو الله کو اچھا قرض دے پھر الله تعالی اسے کئی گنا کردے اور الله ہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشائش کرتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے 


عَلِیمٌ ( جانتا ہے ) ۔ مراد یہ ہے کہ الله تعالی جہاد کرنے والوں اور جہاد نہ کرنے والوں کے دل کے ارادوں اور زبان سے کئے ہوئے اعلانات کو جانتا ہے ۔ 

قَرْضاً حَسَناً ( اچھا قرض ) ۔ ایسا قرض جس کے بعد مقروض کو تنگ نہ کیا جائے ۔ نہ احسان جتایا جائے نہ بدلہ لیا جائے اور نہ مقروض کو حقیر سمجھا جائے ۔ وسیع معنوں میں اس سے مراد ہر وہ رقم بھی ہوتی ہے جو دین کی  کسی مد میں خرچ ہو ۔ یہاں جہاد میں خرچ کرنا مراد ہے ۔

 اہل عرب ہر اچھے معاوضہ والے عمل کو " قرض ِحسن " کہتے تھے ۔ اور ہر بُرے معاوضے والے عمل کو بُرا قرض کہا کرتے تھے ۔ چونکہ جہاد کی راہ میں مال خرچ کرنے سے آخرت میں کئی گنا زیادہ واپس ملتا ہے ۔ اس لئے اس خرچ کے عمل کو قرآن مجید نے " قرض ِحسن " قرار دیا ہے 

فَیُضٰعِفَهُ ( پھر دگنا کردے ) ۔ مراد ہے اس کے اجرو ثواب کو دوگنا کردے ۔ اس کا مصدر اضعاف ( چند در چند اور کئی گنا زیادہ کرنا ) ہے ۔ 

پچھلی آیت میں الله تعالی نے ایک قوم کا ذکر کر کے یہ واضح کر دیا تھا کہ زندگی اور موت کا اختیار صرف الله تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے دشمن کے خوف سے بھاگنا نہیں چاہئیے ۔ اب صریح طور پر جہاد کا حکم ہے کہ دینِ حق کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرو ۔ 

جہاد کے لئے جنگ کے سامان آلات و ہتھیار اور دیگر اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے ان لوگوں کو جو صاحبِ استطاعت ہیں ۔ یہ حکم دیا کہ تم دل کھول کر مال خرچ کرو ۔ تمہاری اس قربانی کو الله تعالی کو کئی گنا کرکے واپس کرے گا ۔ تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ روپیہ خرچ کرنے سے تم غریب ہوجاؤ گے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں