وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ


*وہاں بدلتا ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں ہے زمانہ*


اقبال کا یہ مصرع وطن عزیز کی صورتِحال دیکھ کر یاد آیا۔ جس ذہنی مرعوبیت اور نقالی کاذکر اکبر الہ آبادی نے کیا تھا اور جس کی مذمت اقبال تمام عمر کرتے رہے وہ اب ہمارے رگ و پے میں  سرایت کرچکی ہے۔ 

اس لیے کہ نہ صرف ہمارا تعلیمی نصاب بلکہ میڈیا بھی سو فی صد مغرب کی عکاسی کررہا ہے۔ لہٰذا ہماری نئی نسل اور خواتین جو زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے گذارتی ہیں ایک سیلِ بے پناہ کی زد میں ہیں۔

دور غلامی میں ایک آدھ نواب یا رئیس کا بچہ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈجاتاتھا۔ آج پاکستانی بچے اس کثرت سے آکسفورڈ اور کیمبرج پڑھنے جارہے ہیں کہ برطانیہ کی قومی آمدنی کا ٣٨ فیصد پاکستانی نوجوانوں کو تعلیم دینے سے آتا ہے۔ اگر یہ مدرسے ہم خود قائم کرتے تو ہمارے کتنے ٹیچرز کو روزگار ملتا اور ہم انھیں اپنے دین اور عقائد کے مطابق تعلیم دیتے۔ لیکن آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہماری ذہنی غلامی نہیں گئی۔ 

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہاں و ہ جس بے راہ روی کے ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ انہیں اسلامی اقدار سے بیگانہ کردیتی ہے۔ خود پاکستان میں جن اداروں میں برطانوی تعلیم دی جارہی ہے وہاں اسی طرح کو ایجوکیشن ہے اور وہی اخلاق باختہ ماحول ہے جہاں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو ہگ کرتے ہیں اور کِس کرنے میں بھی تکلف نہیں کرتے۔

 

اِسی طرح ہمارا میڈیاخود ہمارے خرچ پر ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو بے غیرت بنارہا ہے۔ 

مثلا ً موبائل کا اشتہار ہی دیکھ لیں۔ 

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس سہولت کی بدولت ایک الکٹریشین یا پلمبرکو کام میں آسانی ہوئی ہو اور اس کا بزنس بڑھ گیا ہو۔ یا کسی سیلزمین کو زیاد ہ آڈر مل سکے ہوں۔ 

موبائل فون کا پہلا اور آخری کام یہ ہے کہ وہ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو آپس میں دوستی کرنے میں بہترین معاون بن سکتاہے۔ ہر اشتہار کا زور اسی ایک سہولت پر ہے۔ 

آج پاکستان کے ہر گلی کوچے میں کوئی نہ کوئی فرد موبائل اٹھائے بات کرتا نظر آتا ہے۔ہم نے ضرورت سے کہیں زیادہ موبائل امپورٹ کرلیے ہیں  اور نہ ان کی ٹکنولوجی حاصل کی ہے اور نہ مقامی مینوفیکچرنگ کے حقوق۔

جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ اخلاق باختگی اور بے راہ روی ہے۔ نوجوانی کا زمانہ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ مگر جہاں۔ صنفی اختلاط کو فروغ دیاجارہا ہووہاں  پڑھنے کی فرصت کس کافر کو ہے؟

 اقبال اور اکبر کو عرصہ ہوا تعلیم سے دیس نکالا دیا جاچکا ہے۔ پس کوئی نہیں ہے جو انہیں یاد دلاسکے:

*کبھی اے جوانِ مسلم تدبر بھی کیا تو نے*

*وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا*

*تجھے پالا ہے اس قوم نے آغوشِ محبت میں*

*کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا*


ہمارا تعلیمی نظام اور میڈیا نہ صرف ہمیں حقائق سے بے خبر رکھ رہے ہیں بلکہ ہم سے ہماری اخلاقی اور روحانی اقدار بھی چھین رہے ہیں۔تاکہ ہم ایک روبوٹ کی طرح نیو ورلڈ آڈر پر عمل کرسکیں۔ لیکن میڈیا کی مضرتیں یہیں تک محدود نہیں ہیں۔

امریکی محاور ہ ہے کہ ایک برا نام دو اور اسے آسانی سے ہلاک کردو۔ 

بین الاقوامی میڈیا اسی کام میں محو ہے۔وہ ہر مسلمان کو بنیاد پرست، قرانِ کریم کو جنگ پر اکسانے والی کتاب اور رسول ِمقبول ۖ کو ایک جنگجو رسول بناکر پیش کررہے ہیں۔

وہ دینی جماعتیں جو اسلامی نظام کااحیاء چاہتی ہیں بنیاد پرست ہیں۔ 

جو جماعتیں کشمیر میں رائے شماری اور اس کی آزادی کے لیے کام کررہی ہیں وہ انتہا پسند اور جنگجو جماعتیں ہیں۔ 

بہت سے پاکستانی نہیں جانتے کہ دنیا کا ٩٦ فیصد میڈیاصرف ٦ یہودی میڈیا کمپنیز کی ملکیت ہے۔ جن کے ذمے یہ مشن ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کو فروغ دو۔ 

ہمارے کالم نگاروں، مدیروں اور اینکرز پرسنز نے جس سرعت سے امریکی نکتہ نظر کو اپنایا ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ محض چند ٹکڑوں کے لیے انھوں نے حب الوطنی اور خدا پرستی کو ترک کرکے امریکہ سے وفاداری اختیار کرلی اور اپنی روح شیطان کو فروخت کردی اور یہ ہمارا سب سے ذہین طبقہ تھا۔ 

ہمارے میڈیا کی یہی چالاکی ملاحظہ ہو کہ امریکہ ایک درجن سے زیادہ مسلم ممالک پر حملہ آور ہوچکا ہے اور فقط افغانستان اور عراق میں وہ تیس لاکھ کے قریب مرد و زن کو ہلاک اور لاکھوں کو معذور بنا چکا ہے۔ 

لیکن ہمارا میڈیا اسے اسلام کے خلاف جنگ کا نام نہیں دیتا۔ بلکہ اسے مسلمانوں کی انتہا پسندی قرار دیتا ہے کہ کیوں خوامخوہ اپنی جانیں گنوا رہے ہیں اور چپکے سے ہتھیا ر ڈال کیوں نہیں دیتے۔

 محمد جاوید اقبال ۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں