نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سائنسی تحقیق ( طریقے اور وسائل) پر ایک زبردست مضمون۔

  ڈاکٹر محمد رفعت سائنس کی اصطلاح محدود معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے اور وسیع معنوں میں بھی۔ وسیع معنیٰ لیے جائیں تو سائنس کے موضوع میں اشیائِ کائنات، ذی حیات مخلوقات اور انسانی سماج، سب شامل ہیں۔ البتہ محدود معنیٰ کے لحاظ سے سائنس کے دائرۂ بحث و جستجو میں اشیائِ کائنات شامل ہیں اور جانداروں کی زندگی کے وہ پہلو جو طبیعی (Physical) نوعیت رکھتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر سائنس کے محدود مفہوم میں انسانی شخصیت اور انسانی سماج سے متعلق مباحث کو شامل نہیں کیا جاتا۔ سائنس کے محدود معنیٰ کے لحاظ سے علوم کے یہ شعبے ، سائنس سے متعلق سمجھے جاتے ہیں: طبیعیات ((Physics، کیمیا (Chemistry)، طبقات الارض (Geology)، فلکیات (Astronomy)، اور حیاتیات (Biology)۔ اصولاََ ’سائنس‘ نامی اصطلاح میں معلومات کا انطباق (Applications)یا استعمال شامل نہیں ہے بلکہ اس انطباق یا استعمال کو ٹکنالوجی (Technology) کہا جاتا ہے۔ تا ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا رشتہ بڑا گہرا ہے۔ بہت سی تحقیقات ایسی ہیں جن کو سائنسی مباحث کا حصہ بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت کا بھی۔ البتہ سائنس سے زندگی اور تصور کائنات کا تعلق سمجھنے...

عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42

 عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42  وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا (31) اور میوے اور چارہ۔ ۔۔۔۔۔۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہا جاتا ہے اور “ابّاً” اس گھاس کے کہتے ہیں جو کٹنے اور جانوروں کے چرنے کے لئے بالکل تیار ہو۔ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (32) سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کی خاطر۔ ۔۔۔۔۔ الله سبحانہ و تعالی انسان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں یہ سب چیزیں تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے ہیں۔ جانور تمہارے نفع کے لیے بنائے تاکہ تم ان کا دودھ پیو، گوشت کھاؤ اور ان کے چمڑے سے جوتے، لباس  اور استعمال کی چیزیں بناؤ، ان کے بالوں سے عمدہ گرم شالیں تیار کرو۔ یہ سب الله سبحانہ وتعالی کی عظیم الشان قدرت کے نمونے ہیں۔  جس ذات نے پہلی بار پانی کی ایک بوند سے ہزاروں چیزوں کو پیدا کیا وہ دوبارہ  پھر زندہ کر سکتا ہے۔ ان سب انعامات کا تقاضا ہے کہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کیا جائے اور شکر یہی ہے کہ اسی کو وحدہ لا شریک مانا جائے اور اس کے تمام اح...

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30   ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ (21) پھر اسے موت دی، اور قبر میں پہنچا دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی ابتدا اور پیدائش بیان کرنے کے بعد اس کی انتہا یعنی موت اور قبر کا بیان ہے۔ انسان کا اختتام مصیبت نہیں ہے بلکہ  درحقیقت الله سبحانہ وتعالی کا خاص انعام ہے۔ موت میں  بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ مؤمن کے لیے موت  ایک تحفہ ہے۔ مرنے کے بعد زمین میں دفن کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کو دوسری مخلوق یعنی جانوروں کی طرح نہیں چھوڑ دیا  کہ مر گیا تو وہیں گل سڑ گیا بلکہ انتہائی احترام سے غسل دے کر کفن پہنا کر قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔  مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ مردہ انسان کو دفن کرنا واجب ہے۔  ثُمَّ اِذَا شَ اۗ ءَ اَنْشَرَهٗ (22) پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الله سبحانہ وتعالی جب چاہے گا انسان کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور اس سے حساب کتاب لے گا ۔ یعنی جس طرح انسان اپنے پہلی بار پیدا ہونے اور مرنے کے معاملہ میں بےبس تھا اسی طرح دوبارہ زندہ کیے جانے کے معا...

عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20

  عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20  كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (11) ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے۔ فَمَنْ شَ اۗ ءَ ذَكَرَهٗ (12) اب جو چاہے، اس سے نصیحت قبول کرے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت مبارکہ میں الله سبحانہ وتعالی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو منع فرما رہے ہیں کہ آپ آئندہ کبھی ایسا نہ کیجیے۔ اپنے ساتھیوں سے بے رُخی نہ برتیے، مخلص مؤمنوں  کو چھوڑ کر منافقوں  اور مشرکوں  کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ مؤمنوں کو ترجیح دیں۔  قرآن مجید ایک نصیحت ہے اور آپ کے ذمہ صرف اس کی تبلیغ ہے۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اب جس کا دل چاہے وہ قبول کرے جس کا دل چاہے نہ قبول کرے۔ اگر کوئی قبول نہیں کرے گا تو آپ پرگرفت نہیں، آپ اس سلسلے میں ،مشقت و تکلیف میں نہ پڑیں۔  ذَکَرَہ، کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ بھی کہ جو شخص چاہے قرآن کی نصیحت کی باتوں کا بار بار تذکرہ کرتا رہے اور یہ بھی کہ قرآن کو زبانی یاد کرلے۔ غرض قرآن کو پڑھنا، اس کی نصیحت پر عمل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا سب بڑے اجر وثواب کے کام ہیں۔ فِيْ صُحُفٍ مُ...

عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10

  عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10 عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ ( 1) (پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔   اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى(2)  اس لیئے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آپ نے ناگواری محسوس کی اور ایک نابینا  جو سیکھنے کی خواہش لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔  نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری اور رُخ موڑنے کی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔  ۱- آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے سوچا ام ابن مکتوم اسلام قبول کر چکے ہیں۔ جس وقت چاہیں میرے پاس آ سکتے ہیں اگر ان کے سوال کا فورا جواب نہ  دیا جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر کافروں کی طرف توجہ نہ دی گئی تو وہ اُٹھ کر چلے جائیں گے اور ایمان سے محروم رہ جائیں گے۔  ۲-آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ کفر و شرک بظاہر بڑے گناہ ہیں اسے زیادہ توجہ دینی چاہیے بنسبت ایک دینی مسئلے کے، جو عبد الله ابن ام مکتوم پوچھنا چاہتے تھے۔ ۳-عبد الله ابن ام مکتوم کا بار بار سوال کرنا آدابِ مجلس کے خلاف تھا۔ آ...

عم پارہ 30, سورۃ عبس

عم پارہ 30,  سورۃ عبس     اسماء سورة چھیالیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام عبس ہے۔ اس کے علاوہ اسے   سورة الصاخہ اور سورة السفرہ بھی کہتے ہیں۔   روابط :  سورة النازعات میں قیامت کے واقع ہونے کا بیان  ہے اب سورة عبس کے آخر میں  بھی قیامت  کا ذکر ہے۔ سورة النازعات کے آخر میں بتایا گیا کہ  آپ کا یہ کام نہیں کہ آپ منکروں  کو قیامت کا وقت بتائیں؛ بلکہ آپ قیامت کی سختی  سے ڈرنے والوں کو، ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔  سورة عبس کے شروع میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم   کو آپ کی اسی ذمہ داری کی طرف پوری طرح متوجہ کیا گیا ہے۔  سورة النازعات میں فرعون جیسے بادشاہ کی سرکشی اور بے زاری  کا ذکر  ہے اب سورة عبس میں ھدایت کے طلب گارایک نابینا صحابی کے شوق کا بیان ہے۔  وہاں الله تعالی کے انعاماتِ  کا ذکر ہے۔ اس سورة میں بھی نعمتوں کا بیان  ہے۔  پچھلی سورۃ میں زمین و آسمان کی تخلیق کا بیان  ہے۔ اس سورة میں تخلیقِ انسانی کا ذکر ہے۔  لفظی روابط:  اسی طرح دونوں سورتوں ...