سائنسی تحقیق ( طریقے اور وسائل) پر ایک زبردست مضمون۔

 

ڈاکٹر محمد رفعت

سائنس کی اصطلاح محدود معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے اور وسیع معنوں میں بھی۔ وسیع معنیٰ لیے جائیں تو سائنس کے موضوع میں اشیائِ کائنات، ذی حیات مخلوقات اور انسانی سماج، سب شامل ہیں۔ البتہ محدود معنیٰ کے لحاظ سے سائنس کے دائرۂ بحث و جستجو میں اشیائِ کائنات شامل ہیں اور جانداروں کی زندگی کے وہ پہلو جو طبیعی (Physical) نوعیت رکھتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر سائنس کے محدود مفہوم میں انسانی شخصیت اور انسانی سماج سے متعلق مباحث کو شامل نہیں کیا جاتا۔ سائنس کے محدود معنیٰ کے لحاظ سے علوم کے یہ شعبے ، سائنس سے متعلق سمجھے جاتے ہیں: طبیعیات ((Physics، کیمیا (Chemistry)، طبقات الارض (Geology)، فلکیات (Astronomy)، اور حیاتیات (Biology)۔ اصولاََ ’سائنس‘ نامی اصطلاح میں معلومات کا انطباق (Applications)یا استعمال شامل نہیں ہے بلکہ اس انطباق یا استعمال کو ٹکنالوجی (Technology) کہا جاتا ہے۔ تا ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا رشتہ بڑا گہرا ہے۔ بہت سی تحقیقات ایسی ہیں جن کو سائنسی مباحث کا حصہ بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت کا بھی۔ البتہ سائنس سے زندگی اور تصور کائنات کا تعلق سمجھنے کے لیے اچھا یہی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے درمیان فرق کو واضح طور پر سامنے رکھا جائے اور ان دونوں کو ایک نہ سمجھا جائے۔

بنیادی تصورات

انسان کی علمی کاوشیں ہوں یا عملی سرگرمیاں ، بہر حال ان کا رخ اس تصور کائنات سے متعین ہو تا ہے جسے انسان نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔ پچھلی تین صدیوں میں مغربی دنیا میں سائنس کا جو ارتقاء ہوا، وہ زیادہ تر ملحدانہ تصور کائنات کے تحت ہوا۔ یعنی سائنس کے فلسفے میں یا تو خدا کا انکار کیا گیا یا خالق کائنات کے وجود کا اقرار کرنے کے باوجود اسے کائنات کا حاکم، مدبر اور منتظم تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم مغربی سائنس ، اشیاء کائنات سے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے، کچھ بنیادی تصورات کو اساس (Basic) قرار دیتی ہے۔ بالفاظ دیگر ان تصوارت کے بدیہی (Obvious) ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ گویا وہ ثبوت کے محتاج نہیں بلکہ انسانی ذہن ان کی معقولیات و وجدانی (Intuitive) سطح پر ادراک کر لیتا ہے۔ مغربی فلسفۂ سائنس کے نزدیک یہ ادراک ان تصورات کو مان لینے کے لیے کافی ہے۔ مغربی سائنس کے یہ اساسی تصورات درج ذیل ہیں:
(الف) اشیاء کائنات اپنے متعین خواص (Charateristics) رکھتی ہیں، جن کو مشاہدے(Obsevation) کے ذریعہ جانا جا سکتا ہے۔
(ب) کائنات کی اشیاء کے درمیان تعامل (Interaction)، بعض قوانین کے تحت ہوتا ہے۔ ان قوانین (Laws of nature) کو بھی مشاہدات پر مبنی غورو فکر کے ذریعے دریافت کیا جا سکتا ہے۔

(ج) کائنات میں پیش آنے والی تبدیلیوں میں سبب (Cause) اور نتیجے (Effect) کا تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کی نشان دہی، مذکورہ بالا قوانین فطرت کا ایک اہم پہلو ہے۔ تاہم سارے فطری قوانین ایسے نہیں ہیں جو محض سبب اور نتیجے کے بیان پر مشتمل ہوں۔ ایسے قوانین فطرت بھی موجود ہیں جو مجموعی صورت حال کو بیان کرتے ہیں (جو اسباب کے تنوع کے باوجود نہیں بدلتی) اس کی ایک مثال کائنات میں موجود توانائی (Energy) کی کل مقدار کے یکساں رہنے کا قانون ہے۔ اس کو توانائی کی بقا کا اصول کہا جاتا ہے۔ یعنی Laws of Conservation of Energy۔ اس کے مطابق توانائی شکلیں تو بدلتی ہے (کبھی روشنی کی شکل اختیار کرتی ہے تو کبھی حرکت کی) لیکن اس کی کل مقدار نہیں بدلتی۔ یہ اصول، سبب اور نتیجے کی اصطلاحوں سے بالا تر ہے۔ (ان اصطلاحوں کی زبان میں اس اصول کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔)

اسلامی تصور کائنات سے استنباط

پچھلی دو صدیوں کے دورِ غلامی سے پہلے، مسلمان بھی سائنس کے میدان میں تحقیقی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔ یہ سائنسی کاوشیں ، اسلامی تصور کائنات کے تحت انجام پا تی تھیں۔ اسلام کا تصور کائنات مندرجہ بالا تین باتوں کا قائل ہے۔ (جن کو مغربی سائنس کے بنیادی تصورات کے تحت ہم نے بیان کیا ہے۔) البتہ ملحدانہ تصور کائنات، ان تصور ات کی کوئی توجیہ نہیں کر سکتا۔ اسلامی تصور کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان تصورات کی توجیہ پیش کرتا ہے۔
ان تصورات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اشیاء کائنات، متعین خواص کی حامل ہیں۔ ان خواص کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مشاہدے پر غورو فکر کے ذریعے ، علم کا حصول ممکن ہے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اسباب کے ذریعے نتائج کو ظہور میں لاتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی سے ان امور پر روشنی پڑتی ہے۔

(الف) بعض مثالوں کے ذریعے قرآن مجید نے بتایا ہے کہ اشیاء میں متعین خواص موجود ہیں۔
وَأَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ۔ ثُمَّ کُلِیْ مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِن بُطُونِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاء لِلنَّاسِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون(سورۂ النحل: ۶۸۔۶۹)
’’ اور دیکھو ! تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی ہے کہ پہاڑوں میں اور درختوں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا، اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے، جس میں شفاء ہے لوگوں کے لیے۔ یقیناً اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ ‘‘
یہاں شہد کا خاصہ بتایا گیا ہے کہ اس میں انسانوں کے لیے شفاء ہے۔
وَأَنزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَأْسٌ شَدِیْدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (سورۂ حدید: ۲۵)
’’ اور ہم نے لوہا اتارا، جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں‘‘۔
یہاں لوہے کی خاصیت یعنی مضبوطی کا ذکر ہے، جس کی بنا پر وہ لوگوں کے کام آتا ہے۔

(ب) قرآن مجید بتاتا ہے کہ کائنات کے ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا گیا ہے۔
فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْْنِ وَأَوْحَی فِیْ کُلِّ سَمَاء أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظاً ذَلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (حم سجدہ: ۱۲)
’’تب اس (اللہ) نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے‘‘۔
وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجاً ۔لِنُخْرِجَ بِہِ حَبّاً وَنَبَاتاً ۔وَجَنَّاتٍ أَلْفَافاً(سورۂ النبا: ۱۴۔۱۶)
’’ اور ہم نے آسمان سے لگاتار پانی برسایا تاکہ اس کے ذریعے سے غلہ اور سبزی اور گھنے باغ اگائیں‘‘۔
یہ ایک مثال ہے جو کائنات میں اسباب اور نتائج کے درمیان تعلق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

(د) قرآن مجید بتاتا ہے کہ انسان کو آنکھ اور کان کی نعمتوں سے اللہ نے نوازا ہے۔ ان حواس سے مشاہدہ کرکے اور مشاہدے کی بنیاد پر غور و فکر کرکے انسان علم حاصل کر سکتا ہے۔
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولـئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولا(بنی اسرائیل : ۳۶)
’’ کسی ایسی بات کی پیروی نہ کرو جس کا تمھیں علم نہیں۔ یقینا آنکھ، کان اور دل، سب کی بازپرس ہونی ہے‘‘۔
اس آیت کا منشا یہ ہے کہ جب انسان کو سمع، بصر اور فواد کی شکل میں علم حاصل کرنے کے ذرائع حاصل ہیں تو پھر اسے چاہیے کہ ان باتوں کی پیروی نہ کرے جن کا اسے کوئی علم نہیں ہے۔ اس آیت میں اصل تلقین تو یہ کی گئی ہے کہ انسان کے رویے کی بنیاد ، علم پر ہونی چاہیے لیکن اس سلسلے میں سمع، بصر اور فواد کے حوالے سے ، ان کے ذرائع علم ہونے کی توثیق ہو جاتی ہے۔

انسان کا رول

کائنات میں قوانین فطرت کی موجودگی کے ادراک کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قوانین کی موجودگی اور انسان کی آزدای عمل میں کیا تعلق ہے؟ بالفاظ دیگر کیا کائنات کے پابند ضوابط ہونے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں ہر واقعہ ، قوانین فطرت کی کارفرمائی کی بنا پر خود بخود ہوتا جا رہا ہے۔ اور انسان مجبور محض ہے اور وہ واقعات پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا۔ مغربی سائنس کے فلسفے میں اس سوال پر واضح بحث نہیں ملتی۔ البتہ مغرب کے اہل سائنس کے رویے سے اس سوال کا عملی جواب مل جاتا ہے۔ وہ رویہ یہ ہے کہ سائنسی تحقیق کے لیے قوی اور درست محرک ، ٹیکنالوجی کی ترقی کو قرار دیا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی، سائنس کے انطباق و استعمال ہی کا نام ہے۔ چنانچہ ٹیکنالوجی کے استعمال پر انسان کا قادر ہونا ، اس امر کی علامت ہے کہ انسان کو آزادیٔ عمل حاصل ہے۔

انسان کے عمل کرنے کی آزادی کو مان لینے بعد قوانین فطرت اور دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے مابین تعلق کی ایسی تعبیر دریافت کی جانی چاہیے جس میں آزادی عمل کی گنجائش نکلتی ہو۔ مغربی سائنس نے اس سلسلے میں دو طرح کی تعبیرات پیش کی ہیں:

(الف) بیسویں صدی سے قبل کی سائنس (اسے روایتی یا Classical) کہا جاتا ہے) میں قوانین فطرت کے علاوہ کسی شئی یا اشیاء کے مجموعے کی ابتدائی حالت کو بھی مشاہدہ کا اہم حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ابتدا سے مراد مشاہدے کی ابتدا ہے۔ اس کی ایک آسان مثال یہ ہے کہ ایک شخص گیند کو ڈھلان پر رکھ دیتا ہے، ڈھلان میں اونچی سطح پر گیند کی موجودگی ، ا س گیند کی ابتدائی حالت ہے۔ قانون ثقل کے مطابق پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ گیند نیچے کی طرف جانے لگے گی۔ مشاہدے سے اس پیشن گوئی کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس مثال میں ابتدا میں ڈھلان کی بلندی پر گیند کو رکھنا انسانی فعل ہے۔ اس کام کو کرنے والا شخص ، آزاد ہے کہ گیند وہاں رکھے یا نہ رکھے۔ بظاہر کوئی قانون فطرت اس شخص کو مجبور نہیں کرتا کہ کیا کرے۔ البتہ جب وہ گیند رکھ دیتا ہے تو قانون فطرت (یعنی کشش ثقل کا قانون) اپنا کام کرنے لگتا ہے اور گیند کو نیچے لے جاتا ہے۔ اس تعمیر کے مطابق (جس میں شئے کی ابتدائی حالت کو زیر بحث لایا گیا ہے) انسان کو آزادی عمل ان معنوں میں حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی اقدام میں کسی شئے یا اشیاء کی ابتدائی حالت متعین کر سکتا ہے یا ترتیب دے سکتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد، انسان کا رول ختم ہو جاتا ہے اور قوانین فطرت کے مطابق نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔

(ب) بیسویں صدی میں سائنس کے تصورات میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوئیں۔ اب انسان کے رول کے بارے میں فہم ، روایتی سائنس پر مبنی فہم سے مختلف ہے۔ بیسویں صدی میں کوانٹم نظریہ (Quantum Concept) سامنے آیا۔ جس کو مغربی سائنس نے مان لیا۔ اس کے مطابق ، انسانی مشاہدے کے نتیجے میں، زیر مشاہدہ شئی یا مجموعہ اشیاء کی کیفیت میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔ اس فہم کے مطابق ، انسان مجبور محض قرار نہیں پاتا، بلکہ پیش آنے والے واقعات میں انسانی مداخلت ، واقعات اور نتائج کو بدل دیتی ہے۔ کوانٹم نظریہ میں یہ بھی سمجھا گیا ہے کہ متوقع نتائج کی قطعی پیشن گوئی ممکن نہیں۔ بلکہ امکانات کا ایک وسیع دائرہ ہے جن میں ہر امکان کا ظہور ممکن ہے۔ اس نظریہ کے مطابق سائنس صرف یہ اندازہ لگا سکتی ہے کہ کس کے ظاہر ہونے کی توقع زیادہ ہے اور کتنی زیادہ ہے۔ انسان کی آزادی عمل تسلیم کر لینے کے بعد، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مابین رشتے کی توجیح ممکن ہو جاتی ہے۔

اسلامی تصور کائنات میں انسان کی حیثیت

اسلامی تصور کے مطابق انسان آزاد ہستی ہے ، وہ عمل پر قادر ہے اور اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔
تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ ۔الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ (الملک: ۱۔۲)
’’ نہایت بزرگ و برتر ہے وہ (اللہ) جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور اور درگزر کرنے والا بھی‘‘۔
اسلامی تصور کائنات انسان کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ کائنات کی بہت سی اشیاء سے خدمت لے سکتا ہے۔ مثلا انسان کو قدرت دی گئی ہے کہ وہ سمندر میں کشتی چلاسکتا ہے۔
اللَّہُ الَّذِیْ سخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِأَمْرِہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون(سورۂ جاثیہ: ۱۲)
’’ وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو۔ ‘‘
ظاہر ہے کہ پانی کی سطح پر کشتی کا چلنا، قوانین فطرت کے تحت ہی ہوگا۔ آیت بالا کی روشنی میں قوانین فطرت کی نوعیت ایسی ہے کہ انسان کے لیے کشتی چلانا ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کی آزادی عمل کے سیاق میں اسلامی تصور کائنات کی پیش کردہ اصطلاح ’تسخیر‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعاً مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لَّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ(سورۂ جاثیہ : ۱۳)
’’اس (اللہ) نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کو اپنی طرف سے، تمہارے لیے مسخر کر دیا۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور فکر کرنے والے ہیں‘‘۔
زمین اور آسمانوں کی چیزوں کے انسان کے لیے مسخر ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اشیائِ کائنات، انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔ اشیاء میں بہت سی ایسی ہیں (مثلا کشتیاں) جن سے انسان خدمت لیتاہے اور مختلف طریقوں سے اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ قوانین فطرت کا علم، اشیاء کے استعمال کرنے میں، انسان کی مدد کرتا ہے۔
ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوا مِن رِّزْقِہِ وَإِلَیہِ النُّشُور( سورۂ الملک: ۱۵)
’’وہی (اللہ) تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر کھا ہے۔ چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق۔ اس کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘

سائنسی تحقیق کے طریقے

سائنسی تحقیق کے لیے ، تحقیق کرنے والا ابتدائی مشاہدے سے آغاز کرتا ہے۔ ابتدائی مشاہدے سے تحقیق کی طرف توجہ ہوتی ہے ، جس کے عوامل بہت ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے محقق، کسی سوال کا جواب تلاش کر رہا ہو اور اس کو تحقیق کا موزوں راستہ مل جائے۔ روز مرہ کے مشاہدات بھی، انسان کے ذہن کو تحقیق کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جیمس واٹ نے پتیلی میں ابلتے ہوئے پانی کو دیکھا۔ ابلتے پانی سے نکلنے والی بھاپ، پتیلی کے ڈھکن کو اوپر اٹھا دیتی ہے۔ اس مشاہدے نے جیمس واٹ کو آمادہ کیا کہ بھاپ کی توانائی پر باقاعدہ تحقیق کرکے منصوبہ بندی کرے اور اس توانائی کے مفید استعمال کی صورتیں نکالے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں اس نے بھاپ کاا نجن ایجاد کیا جو پتیلی کی ڈھکن سے کہیں زیادہ وزنی ریل گاڑی کو کھینچ کرلے جا سکتا تھا۔
ابتدائی مشاہدے کے بعد محقق، منصوبہ بند مشاہدے کا آغاز کرتا ہے۔ اس میں وہ ان سوالات کو متعین کرتا ہے، جن کے جوابات اسے تلاش کرنے ہیں۔ سوالات جتنے واضح ہوں گے اتنے ہی تحقیق کے مراحل آسان ہو جائیں گے۔ سوالات کی ترتیب ، غورو فکر اور محنت کا تقاضہ کرتی ہے۔ اب تک اس شعبۂ علم سے متعلق جو معلومات حاصل ہو چکی ہوتی ہیں ان کو سامنے رکھنا بھی محقق کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
سوالات کی ترتیب کے بعد مشاہدات کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہین وہ تین ہیں: بیان (Description)
پیمائش (Measurement) اور
منضبط تجربہ (Controlled Experiment)
حیاتیات، علم طبقات الارض اور فلکیات میں زیر مشاہدہ جانداروں اور اشیاء کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انسان نے بہت کچھ جان لیا اور دیکھ لیا ہے مگر ہر قدم پر محقق کو احساس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ دیکھنا اور جاننا باقی ہے۔ روزانہ نئے پودے اور زندہ انواع کا مشاہدہ ہوتا ہے اور ہر آن اس وسیع دنیا میں نئے اجرام دریافت ہوتے ہیں۔ سائنس کے ان شعبوں میں زیر مشاہدہ جانداروں یا اشیاء کے براہ راست (یا آلات کی مدد سے) نظر آنے والی خصوصیات اور بناوٹ(Structure)کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ باریک بینی سے مشاہدہ کرنے والا اپنے مشاہدے کو بیان (Describe)کرتا ہے۔ اس بیان میں الفاظ اور جملوں کے علاوہ چارٹ، جدول، گراف اور تصاویر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ اس شئے کے جو حواس یا اجزاء ، دوسری ملتی جلتی اشیاء سے ممتاز نظر آئیں، ان پر خاص توجہ کی جاتی ہے۔ درست بیان کے لیے مشق درکار ہوتی ہے اور اساتذہ و ماہرین کی رہ نمائی بھی ناگزیر ہے۔

اشیاء کے بہت سے خواص ایسے ہیں جن کی گنتی (Counting) کی جا سکتی ہے یا ان کو ناپا تولا جا سکتا ہے۔ مشاہدے کے اس طرز کو پیمائش (Measurement)کہا جاتا ہے۔ طبیعیات اور کیمیا جیسے شعبوں میں پیمائش کی بڑی اہمیت ہے۔ وہی مشاہدات اِ ن شعبوں میں قابل ذکر پیش رفت کی طرف لے جا سکتے ہیں جن کا تعلق پیمائش سے ہوتا ہے۔ پیمائش کے لیے سائنسی آلات کا استعمال ناگزیر ہے۔ ہر آلہ کی بنیاد کسی سائنسی نظریے پر ہوتی ہے۔ ایک اچھے محقق کو آلے سے کام لینا تو یقینا آنا چاہیے لیکن اسے اس نظریے سے بھی واقف ہونا چاہیے جو آلے کی ایجاد کی بنیاد ہوتا ہے۔ اس طرح محقق کو یہ معلوم ہوجائے گاکہ زیر بحث پیمائش کے لیے مجوزہ آلہ موزوں ہے یا نہیں۔ وہ آلے کی محدودیت (Limitations) سے بھی واقف ہوگا۔ یعنی کن حالات میں وہ آلہ، درست معلومات دیتا ہے اور کب نہیں دیتا ہے۔

طبیعیات، کیمیا اور ایک حد تک حیاتیات طبقات الارض کے شعبوں میں منضبط تجربات کے انجام دینے کا امکان موجود ہے۔ چنانچہ ان علوم میں منضبط تجربات، تحقیق کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ محقق محض فطری حالت میں اشیاء کا مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اپنی تجربہ گاہ میں (Laboratory) میں خود اشیاء کی بناوٹ، خواص اور افعال کا اور ان کے باہمی تعامل کا مطالعہ کرتا ہے۔ اپنے حسب منشا محقق بیرونی عمل کے اثر کو کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔ مثلاً تجربہ گاہ کے اندر وہ ایک مخصوص درجۂ حرارت پر مشاہدہ کر سکتا ہے، مصنوعی طریقوں سے برقی و مقناطیسی اثرات ڈال سکتا ہے، ہوا کے دباؤ کو گھٹا بڑھا سکتا ہے اور اتفاقی عوامل کے اثرات سے مشاہدہ اشیاء کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ مجرد پیمائش یا منضبط تجربات سے جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں، محقق ان کو ترتیب دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جن عوامل سے اس نے آغاز کیا تھا ان کا جواب ملا یا نہیں۔

تصورات و نظریات کی تخلیق و تفہیم

مشاہدہ سائنسی تحقیق کا ایک اہم رخ ہے۔ تحقیق کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایسے تصورات (Concept)تلاش یا تخلیق کیے جائیں جن کے ذریعے مشاہدات کا مربوط فہم حاصل کیا جا سکتا ہو۔ مثلا سیاروں کی حرکت کا تفصیلی مشاہدہ کیا گیا، جس کی تفصیلات رصد گاہوں سے دست یاب ہوتی ہیں۔ ان مشاہدات کو دیکھیں تو ان کو گرفت میں لانا مشکل کام نظر آتا ہے۔ جب بعض محققین نے تخلیقی قوت کام میں لا کر کشش ثقل (Gravitional Force) کا تصور پیش کیا تو ان سارے (بظاہر بے ترتیب) مشاہدات کو (جو اجرام فلکی سے متعلق تھے) ایک دوسرے سے مربوط کرنا ممکن ہو گیا اور ایک ایسا جامع بیان وجود میں آگیا جو اپنے دامن میں بہت سارے مشاہدات کو، بڑے آسان ڈھنگ سے سمیٹ لیتا ہے۔

سائنسی تخلیق کی تکمیل محض مشاہدے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ تصورات کی تخلیق بھی ضروری ہوتی ہے۔ باہم متعلق تصوارت کو ایک جامع نظریے (Theory) کے تحت بیان کرنا اگلا مرحلہ ہے۔ سائنسی تخلیق کا نقطۂ عروج، مختلف شعبوں میں موزوں نظریات (Theories) کی تشکیل ہے۔ ایک اچھا نظریہ، بہت سارے تصورات کو باہم جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور گوناں گوں مشاہدات کے مربوط بیان کو ممکن بنا دیتا ہے۔ اسی طرح کے موزوں نظریات، پیشین گوئی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

سائنسی تخلیق کی تکمیل محض مشاہدے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ تصورات کی تخلیق بھی ضروری ہوتی ہے۔ باہم متعلق تصوارت کو ایک جامع نظریے (Theory) کے تحت بیان کرنا اگلا مرحلہ ہے۔ سائنسی تخلیق کا نقطۂ عروج، مختلف شعبوں میں موزوں نظریات (Theories) کی تشکیل ہے۔ ایک اچھا نظریہ، بہت سارے تصورات کو باہم جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور گوناں گوں مشاہدات کے مربوط بیان کو ممکن بنا دیتا ہے۔ اسی طرح کے موزوں نظریات، پیشین گوئی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر منضبط تجربات، پیشین گوئی کی تصدیق کریں تو یہ نظریہ کے موزوں ہونے کی علامت ہیں۔
معاشی دنیا میں مشہور نظریات نے پیش رفت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ نیوٹن کے تین مشہور قوانین ، حرکت و سکون سے متعلق نظریے کی تشکیل کرتے ہیں اور موجودہ صنعتی و مشینی دور کی ٹیکنالوجی، اس نظریے کی بنا پر ممکن ہو سکی ہے۔ اشیاء کے ایٹموں پر مشتمل ہونے کے نظریے نے کیمیا اور طبعیات کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ برقی مقناطیسی قوتوں کے سلسلے میں میکسویل(Maxwell) کے نظریے نے برقی مقناطیسی لہروں کی دریافت کو ممکن بنایا ہے، جن کا استعمال لا سلکی (Wireless)کے لیے کیا گیا۔ اسی طرح کائنات کے مستقبل انفجار(Expansion) کے نظریے نے فلکیات کے مشاہدے کی تفہیم آسان کی۔

وسائل

آلات اورتجربہ گاہیں، تحقیق کے لیے ضروری ہیں ۔ اس لیے کہ وہ پیمائش اور منضبط تجربات کو ممکن بناتی ہیں۔ آلات فراہم کرنے اور تجربہ گاہ یا رصد گاہ کو منظم کرنے کے لیے کثیر رقم درکار ہوتی ہے۔ اس رقم کی فراہمی حکومتیں کر سکتی ہیں یا نجی زمرے (Private Sector) سے متعلق وہ صنعت کار (Industrialist)کر سکتے ہیں، جو وسائل رکھتے ہوں۔ کوئی ملک، سائنس میں ترقی کرنا چاہے تو بہر حال اسے ضروری وسائل کی فراہمی پر توجہ دینی ہوگی۔

عالم اسلام کی حد تک یہ کام باہمی تعاون کا تقاضا کرتا ہے۔ کسی ایک ملک کے وسائل تک محدود رہنے کے بجائے پوری مسلم دنیا کے وسائل سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے موجود مشترکہ فورموں کے بہتر استعمال اور نئے مشترکہ اقدامات کے آغاز کی ضرورت ہے۔ یہ طے کر نا چاہیے کہ تحقیق میں کن شعبوں اور گوشوں کو ترجیح دی جائے (تاکہ وسائل ان پر ترجیحاََ خرچ کیے جاسکیں)۔ سائنس، فلسفہ سائنس، مغربی سائنس کی تاریخ اور اس کے موجودہ رخ پر تنقیدی نگاہ ڈال کر عالم اسلام کے پالیسی سازوں کو طے کرنا چاہیے کہ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے سائنس کے کن شعبوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ وسائل کا موزوں استعمال، ان شعبوں میں تحقیق کے لیے کیا جانا چاہیے ۔

البتہ وسائل کی کمی، سائنسی تحقیق سے بے اعتنائی برتنے کا جواز نہیں بن سکتی۔ مشاہدہ کا وہ پہلو جو بیان (Description)سے متعلق ہے زیادہ وسائل کا تقاضا نہیں کرتا، اس پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تصورات کی صورت گری (Conceptualization) کے لیے تخلیقیقت اور تباہی کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کمی کے باوجود ، نظریہ سازی میں پیش رفت کی جا سکتی ہے۔
یہ مہر تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گِن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں

عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42

 عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42 

وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا (31)

اور میوے اور چارہ۔

۔۔۔۔۔۔

بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہا جاتا ہے اور “ابّاً” اس گھاس کے کہتے ہیں جو کٹنے اور جانوروں کے چرنے کے لئے بالکل تیار ہو۔

مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (32)

سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کی خاطر۔

۔۔۔۔۔

الله سبحانہ و تعالی انسان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں یہ سب چیزیں تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے ہیں۔ جانور تمہارے نفع کے لیے بنائے تاکہ تم ان کا دودھ پیو، گوشت کھاؤ اور ان کے چمڑے سے جوتے، لباس  اور استعمال کی چیزیں بناؤ، ان کے بالوں سے عمدہ گرم شالیں تیار کرو۔ یہ سب الله سبحانہ وتعالی کی عظیم الشان قدرت کے نمونے ہیں۔ 

جس ذات نے پہلی بار پانی کی ایک بوند سے ہزاروں چیزوں کو پیدا کیا وہ دوبارہ  پھر زندہ کر سکتا ہے۔ ان سب انعامات کا تقاضا ہے کہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کیا جائے اور شکر یہی ہے کہ اسی کو وحدہ لا شریک مانا جائے اور اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے۔ 

ربط آیات: 33 تا 42۔  

الله تعالی کی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اصل مضمون یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکی کا بیان ہے۔ حق کی دعوت قبول کرنے والوں کے لیے خوشخبری اور انعامات کا وعدہ اور نہ ماننے والوں کے لیے شدید عذاب کا ڈراوا  ہے۔ 

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ (33)

آخر جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آ ہی جائے گی۔  (اس وقت اس ناشکری کی حقیقت پتہ چل جائے گی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ ابھی تم ہماری نعمتوں کی ناشکری کر رہے ہو جب کانوں کو بہرا کر دینے والی سخت آواز آئے گی، اس دن تمہیں اپنی ناشکری کا مزہ معلوم ہو جائے گا۔ 

اس سے نفخہ ثانیہ ( دوسری بار صور کا پھونکا جانا) اور قیامت کا شور مراد ہے۔ 

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ (34)

 یہ اس دن ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔

وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ (35)

اور اپنے ماں باپ سے بھی۔

وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ (36)

اور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت کے دن کی ہولناکی کا بیان ہے۔ محشرکا دن ایسا سخت اور وحشت ناک ہوگا کہ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ نفسا نفسی کا عالم ہوگا، کسی کو دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ بھائی بھائی سے ، بچے اپنے ماں باپ سے اور شوہر اپنی بیوی اور اولاد سے بھاگتا پھرے گا۔ 

سوال: میدانِ حشر میں آدمی اپنے عزیز و اقارب سے کیوں بھاگے گا؟ 

جواب: علماء نے اس کی کئی وجوھات بیان کی ہیں۔ 

۱- ان حقوق کے مطالبے کا ڈر ہوگا  جو دنیا میں ادا نہ کیے تھے۔ جیسے مفلس قرض خواہ سے چھپتا پھرتا ہے۔

۲- مدد مانگنے کے ڈر سے۔ ایسا نہ ہو کہ عزیز رشتہ داروں کو عذابِ خداوندی سے بچانے کے لیے کچھ نیکیاں دینی پڑ جائیں۔ جیسے قحط سالی میں لوگ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں یا جیسے امیر لوگ فقیروں اور سوالیوں  سے بھاگتے ہیں۔

۳-عزیزوں کی مصیبتیں دیکھی نہ جائیں گی۔ اس لیے ایک دوسرے سے منہ چھپائیں گے۔

۴-اپنی رسوائی کو چھپانے کے لیے بھاگیں گے۔ 

۵-دنیا میں خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ کرتے اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے ، اس کے برے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہ  کی ذمہ داری اس پر نہ ڈالنے لگیں اور اس کے  خلاف مقدمے کے گواہ نہ بن جائیں۔ 


بعض ان سب اسباب کی وجہ سے بھاگیں گے اور بعض ان میں سے کچھ اسباب کی وجہ سے۔

فائدہ:  ان آیات میں ترتیب رشتوں کے تعلق کے اعتبار سے ادنی سے اعلی کی طرف بیان کی گئی ہے۔ 

 لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ (37)

(کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جملہ پہلے جملوں کی وجہ بیان کر رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسا کیا ہوگا جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ وجہ یہی ہے کہ اس دن ہر شخص ایسی حالت میں ہوگا کہ اس کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ یہ حساب کتاب سے پہلے کا حال ہے۔ بعد میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سفارش سے حساب کتاب شروع ہوگا۔ 

احادیث میں مختلف طریقوں اور سندوں سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ( بروایت بعض حضرت عائشہ نے ، اور برویتِ بعض حضرت سودہ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا ، یا رسول اللہ ! کیا ہمارے ستر اس روز سب کے سامنے کھلے ہوں گے؟ حضور نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا۔

 ( نسائی ، ترمذی ، ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، طبرانی ، ابن مردویہ ، بہیقی ، حاکم ) ۔

وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ (38)

 اس روز کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔

ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (39)

ہنستے، خوشی مناتے ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہت سے چہرے روشن ہوں گے جنت کی خوشخبری سُن کر خوش ہوں گے اور ہنستے ہوں گے۔  چہروں کی یہ روشنی اور خوشی اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جانے کے بعد ہوگی۔ 

وَوُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ (40)

اور کتنے چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر خاک پڑی ہوگی۔

تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (41)

 سیاہی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔

اُولٰۗئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (42)

 یہ وہی لوگ ہوں گے جو کافر تھے، بدکار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بہت سے چہروں پر غبار ہوگا، اپنی بداعمالیوں کو دیکھ کر چہروں پر مایوسی کی سیاہی چھا جائے گی۔ یہ وہ کافر و فاجر لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں  پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

میدان محشر میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم  ہوں گے۔ ان کی علامات ان کے چہروں سے نمایاں ہوں گی۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے چہرے ہشاش بشاش کھلکھلاتے اور مسکراتے ہوئے ہوں گے، دلوں  میں بھی خوشی بھری ہوگی اور کچھ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی، رنگ فق اور چہرے بگڑے ہوئے اور بےرونق ہوں گے اور یہ اللہ کے نافرمان اور بدکردار لوگ ہوں گے۔ 

گویا لوگ گروہوں میں بٹنے کی وجہ سے اپنے چہروں سے  پہچان لیے جائیں گے کہ کون شخص شقی ہے اور کون سعید ہے۔ 

(الله کریم روز محشر میں ہمیں روشن چہرے والا بنائے۔ )

مختصر تفسیر سورہ عبس

سرداران قریش کے مطالبہ پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ تاکہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے، وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا اور جو بے نیازی کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔  یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ 

غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔

 انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

 ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ (21)

پھر اسے موت دی، اور قبر میں پہنچا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی ابتدا اور پیدائش بیان کرنے کے بعد اس کی انتہا یعنی موت اور قبر کا بیان ہے۔ انسان کا اختتام مصیبت نہیں ہے بلکہ  درحقیقت الله سبحانہ وتعالی کا خاص انعام ہے۔ موت میں  بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ مؤمن کے لیے موت  ایک تحفہ ہے۔

مرنے کے بعد زمین میں دفن کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کو دوسری مخلوق یعنی جانوروں کی طرح نہیں چھوڑ دیا  کہ مر گیا تو وہیں گل سڑ گیا بلکہ انتہائی احترام سے غسل دے کر کفن پہنا کر قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ 

مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ مردہ انسان کو دفن کرنا واجب ہے۔

 ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ (22)

پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی جب چاہے گا انسان کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور اس سے حساب کتاب لے گا ۔ یعنی جس طرح انسان اپنے پہلی بار پیدا ہونے اور مرنے کے معاملہ میں بےبس تھا اسی طرح دوبارہ زندہ کیے جانے کے معاملے میں بھی بے بس ہے، اللہ تعالی جب چاہے گا اسے زندہ کرکے کھڑا کر دے گا۔  اگر انسان اپنی تخلیق کے پورے عمل پرخود ہی غور کرلے تو اس کے پاس موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے سے انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ (23)

ہرگز نہیں ! جس بات کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا، ابھی تک اس نے وہ پوری نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے۔ یہ حکم اس کی فطرت میں رکھا گیا، پھر پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ اگر وہ اپنی پیدائش کے حالات پر غور کرتا تو اس کے لیے اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر اس نے ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔  نہ تو توحید کا اقرار کیا، نہ رسالت کا اور نہ ہی قیامت کا ۔

بعض مفسرین نے اس آیت کو ایک الگ آیت سمجھنے کی بجائے سابقہ آیت سے منسلک کیا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ جب چاہے گا زندہ کرکے اٹھائے گا ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دنیا کی آبادی اور کائنات کی تکمیل سے متعلق اس کا جو طے شدہ حکم ہے وہ ابھی  پورا نہیں ہوا۔

ربط آیات:24 تا 32 

پچھلی آیات میں تخلیقِ انسانی کی ابتدا اور انتہا کا ذکر تھا۔ مقصد الله تعالی کی قدرت کاملہ اور  ان انعامات  کا بیان تھا جن کا تعلق خود انسان کی ذات اور پیدائش و موت  کے ساتھ ہے، ان دلائل کا انکار کرنے والے انسان کو تنبیہ کی گئی کہ نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان ان میں غور کرکے الله پر ایمان لاتا اور اس کے احکام کی تعمیل کرتا لیکن انسان نے ناشکری کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ اب الله کے  ان انعامات کا ذکر ہے جو پیدائش اور موت کے درمیانی زمانے میں انسان کو عطا کیے گئے ہیں۔ 

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ (24)

پھر ذرا انسان اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان اپنے کھانے پر غور کرے جو لقمہ وہ منہ میں ڈالتا ہے اس کی تیاری میں کون کون سی قوتیں استعمال ہوتی ہیں، جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے ، اس پر ذرا غور کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے ۔ اگر خدا نے اس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا ؟

“النظر” کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کی حقیقت جاننے کے لئے نظر یا خیال  کو متحرک کرنے کے ہیں۔ کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔(المفردات)

اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا (25)

 کہ ہم نے اوپر سے خوب پانی برسایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے مراد بارش ہے۔ الله سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں سب سے پہلے ہم نے بادلوں کو پانی سے بھرا، پھر اپنی قدرت سے اس پانی کو عجیب طریقے سے زمین ہر برسایا اور محفوظ کیا۔

سورج کی حرارت سے سمندروں سے پانی  کی بہت بڑی مقدار کو بھاپ بن کر اوپر اٹھایا جاتا ہے۔ پھر الله کے حکم سے اس بھاپ سے بھاری بادل بنتے ہیں، ہوائیں ان کو لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں۔ عالم بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپ دوبارہ پانی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ یہ پانی  ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستا ہے۔  پانی براہ راست بھی زمین پر برستا ہے اور زمین کے نیچے کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے ، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے ، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے علاوہ  دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر بہتا رہتا ہے ۔ کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں؟ اس کا خالق اس کو رزق دینے کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا انسان زمین پر زندہ رہ  سکتا تھا ؟ بھلا الله تعالی کے سوا کوئی  ہے جو اس بات کی قدرت رکھتا ہے۔ 

 ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا (26)

پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی نے زمین کو نرم  بنایا اور اس میں یہ صلاحیت رکھی کہ وہ پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔  انسان صرف یہ کرتا ہے کہ  زمین کو کھودتا ہے یا اس میں ہل چلاتا ہے اور جو بیج الله تعالی نے پیدا کر دیے انہیں زمین میں دبا دیتا ہے۔  اللہ کے حکم  سے اس مردہ اور بےجان بیج میں زندگی  پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی نرم و نازک کونپل زمین  پھاڑکرباہر نکل آتی ہے۔  آہستہ آہستہ یہی کونپل ایک مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں نشو ونما کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات پیدا نہ کرتا،  جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟

فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا (27)

پھر ہم نے اس میں غلے اگائے۔

وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا (28)

 اور انگور اور ترکاریاں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنا دار ہو جیسے درخت  یا بغیر تنے کے جیسے جڑی بوٹیاں۔ عام طور پر نبات اسے کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو اور جانوروں کے چارے کے لیے ہو؛  لیکن یہ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر بڑھنے والی چیز یعنی نباتات، حیوانات اور انسان سب کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ (المفردات)

حبہ:  سے مراد  گندم، جو، خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج وغیرہ جو دانوں یا دالوں  کی شکل میں ہوتے ہیں۔ 

عنب: انگور کو کہتے ہیں جس کی جمع اعناب ہے، جو غذائیت سے بھرپور بھی ہے اور مزے داربھی۔    قضب:  کھانے کے لیے مختلف سبزیاں جو پکا کر اور بغیر پکائے کاٹ کر کھائی جاتی ہیں۔ جیسے مولی، گاجر، شلجم پیاز، کھیرا وغیرہ ۔ قضب تازہ گھاس، سبزی، تر کاری اور در خت کی ترو تازہ شاخوں کو بھی کہتے ہیں اور انہیں کاٹنے کے لیے بھی لفظ قضب استعمال کیا جاتا ہے۔ 

وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا (29)

اور زیتون اور کھجور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی نے زیتون جیسی زبردست چیز کو پیدا کیا، جوکچا پکا  کھایا جاتا ہے، اس کا تیل بھی انتہائی مفید ہے جو کھانے اور مالش کے کام آتا ہے نیز اس کی لکڑی بھی کارآمد ہے۔ 

نخلاً: کھجور بھی  زبردست چیز ہے، جو غذائیت سے بھر پور ہے۔ اس  کو تازہ یا خشک کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے اور اس سے سرکہ اور مختلف شربت بنائے جاتے ہیں۔ 

وَّحَدَاۗئِقَ غُلْبًا (30)

اور گھنے گھنے باغات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھنے اور گنجان باغات بنائے جن میں مختلف اقسام کی لکڑی، پھل ، پھول، جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں اور ان  کا گھنا سایہ عمدہ ہوتا ہے۔ مختلف ذائقوں والے انتہائی  لذیذ پھل ہوتے ہیں مثلا سیب، انار، خوبانی، بادام  وغیرہ اس کے علاوہ دیگر میوہ جات اخروٹ، جنگلی پیلو اور مختلف اقسام کی بیریاں وغیرہ اور جانوروں کے کھانے کے لیے گھاس اور چارا پیدا فرمایا۔ 


عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20

 عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20 


كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (11)

ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے۔

فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ (12)

اب جو چاہے، اس سے نصیحت قبول کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت مبارکہ میں الله سبحانہ وتعالی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو منع فرما رہے ہیں کہ آپ آئندہ کبھی ایسا نہ کیجیے۔ اپنے ساتھیوں سے بے رُخی نہ برتیے، مخلص مؤمنوں  کو چھوڑ کر منافقوں  اور مشرکوں  کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ مؤمنوں کو ترجیح دیں۔  قرآن مجید ایک نصیحت ہے اور آپ کے ذمہ صرف اس کی تبلیغ ہے۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اب جس کا دل چاہے وہ قبول کرے جس کا دل چاہے نہ قبول کرے۔ اگر کوئی قبول نہیں کرے گا تو آپ پرگرفت نہیں، آپ اس سلسلے میں ،مشقت و تکلیف میں نہ پڑیں۔ 

ذَکَرَہ، کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ بھی کہ جو شخص چاہے قرآن کی نصیحت کی باتوں کا بار بار تذکرہ کرتا رہے اور یہ بھی کہ قرآن کو زبانی یاد کرلے۔ غرض قرآن کو پڑھنا، اس کی نصیحت پر عمل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا سب بڑے اجر وثواب کے کام ہیں۔

فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ (13)

وہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بڑے مقدس ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں قرآن مجید کی صفات ، شان اور عظمت کا بیان ہے۔  قرآن مجید ایسے صحیفوں میں محفوظ ہے جو مکرم یعنی مقبول اور پسندیدہ ہیں، یا اس سے قرآن مجید کے وہ اوراق مراد ہیں جن میں سے فرشتوں نے لوح محفوظ سے نقل کر کے لکھا، وہ بھی جن میں کاتبینِ وحی  صحابہ کرام رضوان الله علیھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر لکھا اور وہ بھی جن میں ان سے نقل کر کے لکھا گیا اور قیامت تک لکھا جائے گا۔ 

مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ (14)

اونچے رتبے والے ہیں، پاکیزہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرفوعہ سے مراد ان صحیفوں کا الله کے نزدیک عالی شان ہونا اور بلند مرتبہ ہونا ہے یا یہ کہ وہ لوح محفوظ پر ہیں جو انتہائی بلند مقام یعنی الله کے عرش کے نیچے ہے۔ مطہرہ سے مراد یہ ہے کہ  صاف ستھرے صحیفوں میں درج ہے اور زمین پر مخلص اور ایمان والے  اس کے اوراق کو نہایت عزت و احترام  کے ساتھ اونچی جگہ پر رکھتے ہیں۔

فائدہ: قرآن مجید کی اسی عظمت اور پاکیزگی کی وجہ سے جنبی، حیض و نفاس والی عورت اور بے وضو شخص کا اسے  چھونا جائز نہیں۔

بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ (15)

ان لکھنے والوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔

كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ (16)

جو خود بڑی عزت والے، بہت نیک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صحیفے یعنی قرآن مجید ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو نیک اور عزت والے یعنی مکرم ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لکھنے والوں کی تعریف بیان کی ہے، خواہ وہ فرشتے ہوں یا کاتبین وحی، صحابہ کرام ہوں یا دوسرے، فرمایا یہ لوگ اللہ کے ہاں بہت عزت والے اور نہایت نیک ہیں۔ 

اگر سفرة (سفارت) بمعنی سفیر یعنی قاصد ہو تو پھر اس میں علماء کرام بھی شامل ہیں۔ کیونکہ علماء نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور امت کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات امت تک پہنچانے پر مامور ہیں۔ 

قرآن مجید کی یہ تمام صفات اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ الله تعالی کی نازل کردہ کتاب  ہے۔ 

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ (17)

خدا کی مار ہو ایسے انسان پر، وہ کتنا ناشکرا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی آیت میں قرآن مجید کی عظمت و شان کا اظہار کیا گیا۔ کیونکہ کافر الله کی کتاب قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں اس لیے اس آیت میں ان پر لعنت کی گئی ہے اگرچہ  مخاطب انسان کو کیا گیا ہے لیکن اس سے  مراد منکرِ قرآن ہی ہیں۔ 

مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ (18)

(وہ ذرا سوچے کہ) اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انکار کی وجہ عموما انسان کا غرور اور تکبر ہے۔ الله سبحانہ وتعالی انسان کو اس کی اصل بتا کر اس کی حقیقت جتا رہے ہیں کہ انسان دیکھے الله نے اسے کس قدر حقیرشے سے پیدا کیا۔

مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ (19)

نطفے کی ایک بوند سے، اسے پیدا بھی کیا، پھر اس کو ایک خاص انداز بھی دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله جل جلالہ ہی انسان کا خالق ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا ہے اس لیے انسان کو اس کی اوقات جتاتے ہوئے بتایا  کہ تجھے پانی کے ایک  قطرے سے بنایا،  پھر مختلف حالتوں سے گزارنے کے بعد انسان  کی تخلیق خاص اندازے اور بڑی حکمت سے  کی۔ جسامت ، اعضا، قد و قامت، شکل و صورت ، جوڑ و بند ، آنکھ ، ناک ، کان ایک خاص اندازے سے پیدا کیے، ذرا اس کے خلاف ہو جائے تو انسان کی صورت بگڑ جائے۔ 

“قدّرہ” کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی الله تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ مقرر کیا کہ کتنی عمر ہوگی، مال کتنا ہوگا۔ رزق کتنا ملے گا اور کیا کیا عمل کرے گا۔ سعید ہوگا یا شقی۔ 

 ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ (20)

 پھر اس کے لیے راستہ بھی آسان بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت سے کئی صورتیں مراد ہیں۔ 

۱- یہ کہ الله تعالی نے خاص انداز سے انسان کی تخلیق کی۔ اپنی حکمت سے اسے ماں کے پیٹ میں تین اندھیروں کے اندر اس طرح محفوظ رکھا کہ جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی تفصیل سے اس کا علم نہیں۔ جہاں اس کی تخلیق ہوئی اور جہاں وہ بن کر تیار ہوا وہاں سے دنیا میں آنے کا راستہ باوجود تنگ ہونے کے الله تعالی نے اپنی رحمتِ کاملہ سے ایسا آسان کر دیا کہ دو تین کلو وزنی جسم صحیح سالم برآمد ہوتا ہے۔ عام طور پر ماں کو خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ 

فتبارک الله احسن الخالقین۔ 

۲- یہ  کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو  ایسی  قوت اور صلاحیت دی  کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی آسانی سے گزار سکے۔

 ۳- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں ان کی تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء علیھم السلام  اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جو راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے۔


عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10

 عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10


عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ (1)

(پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔



 اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى(2)

 اس لیئے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آپ نے ناگواری محسوس کی اور ایک نابینا  جو سیکھنے کی خواہش لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ 

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری اور رُخ موڑنے کی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔ 

۱- آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے سوچا ام ابن مکتوم اسلام قبول کر چکے ہیں۔ جس وقت چاہیں میرے پاس آ سکتے ہیں اگر ان کے سوال کا فورا جواب نہ  دیا جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر کافروں کی طرف توجہ نہ دی گئی تو وہ اُٹھ کر چلے جائیں گے اور ایمان سے محروم رہ جائیں گے۔ 

۲-آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ کفر و شرک بظاہر بڑے گناہ ہیں اسے زیادہ توجہ دینی چاہیے بنسبت ایک دینی مسئلے کے، جو عبد الله ابن ام مکتوم پوچھنا چاہتے تھے۔

۳-عبد الله ابن ام مکتوم کا بار بار سوال کرنا آدابِ مجلس کے خلاف تھا۔ آپ نے ادب سکھانے کے لیے اعراض کیا۔

لیکن الله تعالی کو نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات پسند نہ آئی اس لیے الله نے آپ کو تنبیہ فرمائی۔ 

اس تنبیہ کی بھی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔

  1. نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کفر و شرک کے خاتمے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ بہت اہم تھا لیکن کافر سرداروں میں ہدایت کی سچی طلب نہیں تھی جب کہ نابینا صحابی ہدایت کے سچے طلب گار  تھے ۔
  2. عبد الله بن ام مکتوم کو جواب دینے میں  یقینی فائدہ تھا وہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بات سن کر اس پر ضرور عمل کرتے۔ جب کہ کفار سے بات چیت کا فائدہ غیر یقینی تھا،  شاید وہ آپ کی گفتگو سن کر ایمان لے آتے  یا شاید وہ ایمان نہ لاتے۔ 


وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّىٰٓ (3)

اور (اے پیغمبر) تمہیں کیا خبر ؟ شاید وہ سدھر جاتا۔

 اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى (4)

یا وہ نصیحت قبول کرتا، اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نہیں جانتے کہ یہ صحابی جو بات پوچھ رہے ہیں اگر آپ انہیں سکھا دیتے یا بتا دیتے تو اس کا ضرور فائدہ ہوتا۔ آپ سے سیکھ کر وہ اپنے نفس کا تزکیہ کر لیتے اور نفس کو ظاہری و باطنی گندگی سے پاک کرکے اس کی صفائی کر لیتے۔ نفس کے تزکیہ سے ان کا ایمان مضبوط ہوتا یا وہ ایمان میں کمال حاصل کر لیتے اور اگر کمال حاصل نہ بھی ہوتا تو کچھ نہ کچھ نصیحت تو ضرور حاصل کر لیتے۔  یعنی نابینا صحابی کے سوال کا جواب دینے کی صورت میں ہر لحاظ سے یقینی فائدہ تھا۔ 

سوال : 

یزّکّٰی  اور یذَّکَّرُ  میں کیا فرق ہے؟ 

جواب:

 یزّکّی کا معنی پاک صاف ہو جانا ہے۔ یعنی نفس کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی سے پاک کر لینا اور یہ متقین کا مقام ہے۔ ” یزکی “ میں مبالغہ ہے۔

یذّکّر:  کا معنی نصیحت حاصل کرنا اور نصیحت کا اثر قبول کرنا ہے۔ یہ ھدایت کے راستے پر چلنے کا ابتدائی حال ہے۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مبتدی کوالله کی یاد دلائی جاتی ہے اور نصیحت کی جاتی ہے جس سے دل میں الله کا خوف اور محبت جگہ بناتی ہے اور دین پر عمل کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ 

یُدریک:   سے خاص طور پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آپ کی دلجوئی اور عزت و تکریم ہے، اگر مسلسل غائب کا صیغہ استعمال کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ کے طرزعمل کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ کو مخاطب نہیں کیا جا رہا اور یہ بات نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے صدمے کی وجہ بن جاتی ۔ پہلے غائب صیغہ اور پھرحاضر صیغہ لانا، دونوں میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا اکرام ہے۔

تبلیغ و تعلیم  کے لیے ایک اہم قرآنی اصول: 

اس موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو کام آ گئے تھے۔

  1. مسلمان کو تعلیم، تعلیم کی تکمیل اور دل جوئی
  2. غیر مسلم کی ھدایت کے لیے ان کی طرف توجہ

الله تعالی کے حکم  سے یہ واضح ہو گیا کہ پہلا کام اہم  ہے اور دوسرے کام کی وجہ سے پہلے میں تاخیر یا کمی کوتاہی کرنا درست نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ  مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کی فکر کرنا غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ 

فائدہ : اس آیت میں علماء کے لیے ایک اہم ہدایت ہے۔ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف متوجہ کرنے اور ان کے شبہات دور کرنے کے لیے ایسے کام کرنا جن سے مسلمانوں میں شبہات یا شکایات پیدا ہوں درست نہیں۔  اصلاح علم اور حفاظتِ علم کو ترجیح دینی چاہیے اور اس کام کو پہلے کرنا چاہیے۔ 

اگلی آیات میں الله تعالی نے اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کیا ہے۔


بے وفا سمجھیں تمہیں اہلِ حرم اس سے بچو!

دیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی 

(اکبر)


اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى(5)

وہ شخص جو بے پروائی دکھا رہا تھا۔

فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى (6)

اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو۔

وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰى (7)

حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی آپ یقینی فائدے کو چھوڑ کر امکان کے پیچھے جا رہے ہیں اور ایسے شخص کی ھدایت کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دین کا طالب نہیں ہے۔ وہ آپ اور آپ کے دین سے بے رُخی اور بے نیازی اختیار کر رہا ہے، اگر اسلام قبول نہیں کرتا اور اپنا تزکیہ نہیں کرتا تو آپ مکلف نہیں؛ کیونکہ آپ نے تبلیغ کر کے اپنا فرض  پورا کر دیا ہے۔ 

 وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰى(8)

اور وہ جو محنت کر کے تمہارے پاس آیا ہے۔

 وَهُوَ يَخْشٰى (9)

 اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے۔

فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى (10)

اس کی طرف سے تم بےپروائی برتتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے شوق سے دوڑتا ہوا آیا ہے۔ یعنی اندھا ہونے کے باوجود کوشش کرکے محض اسلام کی باتیں سمجھنے کے لیے آپ تک پہنچا اور اس کے دل میں الله کا ڈر اور محبت بھی ہے آپ اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے، حالاں کہ یہی شخص توجہ کے قابل ہے۔ 

خشی، الخشیۃ  ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے۔

ان آیات میں واضح طور پرنبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرکے ان کو پکا مسلمان اور قوی مؤمن بنانا، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ 

والله اعلم

یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔ یعنی تعداد سے زیادہ معیار کی اہمیت ہے اور معیار پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ 


عم پارہ 30, سورۃ عبس

عم پارہ 30,  سورۃ عبس 


 اسماء سورة

چھیالیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام عبس ہے۔ اس کے علاوہ اسے  سورة الصاخہ اور سورة السفرہ بھی کہتے ہیں۔ 

روابط

  1. سورة النازعات میں قیامت کے واقع ہونے کا بیان  ہے اب سورة عبس کے آخر میں  بھی قیامت  کا ذکر ہے۔
  2. سورة النازعات کے آخر میں بتایا گیا کہ  آپ کا یہ کام نہیں کہ آپ منکروں  کو قیامت کا وقت بتائیں؛ بلکہ آپ قیامت کی سختی  سے ڈرنے والوں کو، ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔  سورة عبس کے شروع میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم   کو آپ کی اسی ذمہ داری کی طرف پوری طرح متوجہ کیا گیا ہے۔ 
  3. سورة النازعات میں فرعون جیسے بادشاہ کی سرکشی اور بے زاری  کا ذکر  ہے اب سورة عبس میں ھدایت کے طلب گارایک نابینا صحابی کے شوق کا بیان ہے۔ 
  4. وہاں الله تعالی کے انعاماتِ  کا ذکر ہے۔ اس سورة میں بھی نعمتوں کا بیان  ہے۔ 
  5. پچھلی سورۃ میں زمین و آسمان کی تخلیق کا بیان  ہے۔ اس سورة میں تخلیقِ انسانی کا ذکر ہے۔ 

لفظی روابط: 

اسی طرح دونوں سورتوں میں لفظی ربط بھی موجود ہے۔ 

  1. دونوں سورتوں میں تزکیہ  لفظ آیا ہے۔
  2. دونوں سورتوں میں خشیت لفظ موجود ہے۔
  3. دونوں سورتوں میں قیامت کو ایک ایک نام دیا گیا ہے۔ الطامة الکبری (النازعات)  اور الصاخہ (عبس)

شانِ نزول 

ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  قریش کے کچھ سرداروں کو  اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ بعض روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ اسی  دوران عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے جو سیدہ خدیجہ رضی الله عنھا  کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتداء میں اسلام قبول کرنے والوں سے تھے۔  نابینا تھے اس لیے انہیں پتا نہیں چلا کہ وہاں قریش کے سرکردہ لوگ موجود ہیں۔  انہوں نے آتے ہی زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں۔ یا رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم! مجھے پڑھائیے اور اس علم میں سے مجھے بھی سکھائیے  جو آپ کو الله نے سکھایا ہے۔  آپ نے ان  کی طرف  توجہ نہ دی، وجہ یہ تھی کہ آپ عبداللہ ابن مکتوم کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ اسلام قبول کر چکے ہیں انہیں بعد میں بتایا جا سکتا ہے، اگر ان سرداروں میں سے کسی نے اسلام قبول کر لیا  تو  اسلام کوقوت مل جائے گی۔ اس پر وحی نازل ہوئی جس میں آپ کو تنبیہ کی گئی۔ 

اس تنبیہ  میں  تبلیغ کا ایک اہم  اصول واضح  کیا گیا یعنی دعوت کے لیے توجہ کا اصل مستحق وہ ہے جو  ہدایت کی چاہت اور خواہش رکھتا ہو۔ 

 اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عبداللہ ابن ام مکتوم رضی الله عنہ کا بڑا اکرام فرماتے تھے۔  مدنی دور میں کئی بار آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے باہر جانے کی صورت میں  ان کو  اپنا نائب مقرر کیا۔ عبد الله ابن ام مکتوم رضی الله عنہ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں بھی حصہ لیا کرتے تھے اور بعض روایات کے مطابق حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔


حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں