عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

 ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ (21)

پھر اسے موت دی، اور قبر میں پہنچا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی ابتدا اور پیدائش بیان کرنے کے بعد اس کی انتہا یعنی موت اور قبر کا بیان ہے۔ انسان کا اختتام مصیبت نہیں ہے بلکہ  درحقیقت الله سبحانہ وتعالی کا خاص انعام ہے۔ موت میں  بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ مؤمن کے لیے موت  ایک تحفہ ہے۔

مرنے کے بعد زمین میں دفن کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کو دوسری مخلوق یعنی جانوروں کی طرح نہیں چھوڑ دیا  کہ مر گیا تو وہیں گل سڑ گیا بلکہ انتہائی احترام سے غسل دے کر کفن پہنا کر قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ 

مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ مردہ انسان کو دفن کرنا واجب ہے۔

 ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ (22)

پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی جب چاہے گا انسان کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور اس سے حساب کتاب لے گا ۔ یعنی جس طرح انسان اپنے پہلی بار پیدا ہونے اور مرنے کے معاملہ میں بےبس تھا اسی طرح دوبارہ زندہ کیے جانے کے معاملے میں بھی بے بس ہے، اللہ تعالی جب چاہے گا اسے زندہ کرکے کھڑا کر دے گا۔  اگر انسان اپنی تخلیق کے پورے عمل پرخود ہی غور کرلے تو اس کے پاس موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے سے انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ (23)

ہرگز نہیں ! جس بات کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا، ابھی تک اس نے وہ پوری نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے۔ یہ حکم اس کی فطرت میں رکھا گیا، پھر پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ اگر وہ اپنی پیدائش کے حالات پر غور کرتا تو اس کے لیے اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر اس نے ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔  نہ تو توحید کا اقرار کیا، نہ رسالت کا اور نہ ہی قیامت کا ۔

بعض مفسرین نے اس آیت کو ایک الگ آیت سمجھنے کی بجائے سابقہ آیت سے منسلک کیا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ جب چاہے گا زندہ کرکے اٹھائے گا ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دنیا کی آبادی اور کائنات کی تکمیل سے متعلق اس کا جو طے شدہ حکم ہے وہ ابھی  پورا نہیں ہوا۔

ربط آیات:24 تا 32 

پچھلی آیات میں تخلیقِ انسانی کی ابتدا اور انتہا کا ذکر تھا۔ مقصد الله تعالی کی قدرت کاملہ اور  ان انعامات  کا بیان تھا جن کا تعلق خود انسان کی ذات اور پیدائش و موت  کے ساتھ ہے، ان دلائل کا انکار کرنے والے انسان کو تنبیہ کی گئی کہ نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان ان میں غور کرکے الله پر ایمان لاتا اور اس کے احکام کی تعمیل کرتا لیکن انسان نے ناشکری کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ اب الله کے  ان انعامات کا ذکر ہے جو پیدائش اور موت کے درمیانی زمانے میں انسان کو عطا کیے گئے ہیں۔ 

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ (24)

پھر ذرا انسان اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان اپنے کھانے پر غور کرے جو لقمہ وہ منہ میں ڈالتا ہے اس کی تیاری میں کون کون سی قوتیں استعمال ہوتی ہیں، جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے ، اس پر ذرا غور کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے ۔ اگر خدا نے اس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا ؟

“النظر” کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کی حقیقت جاننے کے لئے نظر یا خیال  کو متحرک کرنے کے ہیں۔ کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔(المفردات)

اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا (25)

 کہ ہم نے اوپر سے خوب پانی برسایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے مراد بارش ہے۔ الله سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں سب سے پہلے ہم نے بادلوں کو پانی سے بھرا، پھر اپنی قدرت سے اس پانی کو عجیب طریقے سے زمین ہر برسایا اور محفوظ کیا۔

سورج کی حرارت سے سمندروں سے پانی  کی بہت بڑی مقدار کو بھاپ بن کر اوپر اٹھایا جاتا ہے۔ پھر الله کے حکم سے اس بھاپ سے بھاری بادل بنتے ہیں، ہوائیں ان کو لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں۔ عالم بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپ دوبارہ پانی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ یہ پانی  ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستا ہے۔  پانی براہ راست بھی زمین پر برستا ہے اور زمین کے نیچے کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے ، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے ، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے علاوہ  دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر بہتا رہتا ہے ۔ کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں؟ اس کا خالق اس کو رزق دینے کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا انسان زمین پر زندہ رہ  سکتا تھا ؟ بھلا الله تعالی کے سوا کوئی  ہے جو اس بات کی قدرت رکھتا ہے۔ 

 ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا (26)

پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی نے زمین کو نرم  بنایا اور اس میں یہ صلاحیت رکھی کہ وہ پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔  انسان صرف یہ کرتا ہے کہ  زمین کو کھودتا ہے یا اس میں ہل چلاتا ہے اور جو بیج الله تعالی نے پیدا کر دیے انہیں زمین میں دبا دیتا ہے۔  اللہ کے حکم  سے اس مردہ اور بےجان بیج میں زندگی  پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی نرم و نازک کونپل زمین  پھاڑکرباہر نکل آتی ہے۔  آہستہ آہستہ یہی کونپل ایک مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں نشو ونما کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات پیدا نہ کرتا،  جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟

فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا (27)

پھر ہم نے اس میں غلے اگائے۔

وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا (28)

 اور انگور اور ترکاریاں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنا دار ہو جیسے درخت  یا بغیر تنے کے جیسے جڑی بوٹیاں۔ عام طور پر نبات اسے کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو اور جانوروں کے چارے کے لیے ہو؛  لیکن یہ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر بڑھنے والی چیز یعنی نباتات، حیوانات اور انسان سب کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ (المفردات)

حبہ:  سے مراد  گندم، جو، خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج وغیرہ جو دانوں یا دالوں  کی شکل میں ہوتے ہیں۔ 

عنب: انگور کو کہتے ہیں جس کی جمع اعناب ہے، جو غذائیت سے بھرپور بھی ہے اور مزے داربھی۔    قضب:  کھانے کے لیے مختلف سبزیاں جو پکا کر اور بغیر پکائے کاٹ کر کھائی جاتی ہیں۔ جیسے مولی، گاجر، شلجم پیاز، کھیرا وغیرہ ۔ قضب تازہ گھاس، سبزی، تر کاری اور در خت کی ترو تازہ شاخوں کو بھی کہتے ہیں اور انہیں کاٹنے کے لیے بھی لفظ قضب استعمال کیا جاتا ہے۔ 

وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا (29)

اور زیتون اور کھجور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی نے زیتون جیسی زبردست چیز کو پیدا کیا، جوکچا پکا  کھایا جاتا ہے، اس کا تیل بھی انتہائی مفید ہے جو کھانے اور مالش کے کام آتا ہے نیز اس کی لکڑی بھی کارآمد ہے۔ 

نخلاً: کھجور بھی  زبردست چیز ہے، جو غذائیت سے بھر پور ہے۔ اس  کو تازہ یا خشک کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے اور اس سے سرکہ اور مختلف شربت بنائے جاتے ہیں۔ 

وَّحَدَاۗئِقَ غُلْبًا (30)

اور گھنے گھنے باغات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھنے اور گنجان باغات بنائے جن میں مختلف اقسام کی لکڑی، پھل ، پھول، جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں اور ان  کا گھنا سایہ عمدہ ہوتا ہے۔ مختلف ذائقوں والے انتہائی  لذیذ پھل ہوتے ہیں مثلا سیب، انار، خوبانی، بادام  وغیرہ اس کے علاوہ دیگر میوہ جات اخروٹ، جنگلی پیلو اور مختلف اقسام کی بیریاں وغیرہ اور جانوروں کے کھانے کے لیے گھاس اور چارا پیدا فرمایا۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں