عم پارہ 30, سورۃ عبس

عم پارہ 30,  سورۃ عبس 


 اسماء سورة

چھیالیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام عبس ہے۔ اس کے علاوہ اسے  سورة الصاخہ اور سورة السفرہ بھی کہتے ہیں۔ 

روابط

  1. سورة النازعات میں قیامت کے واقع ہونے کا بیان  ہے اب سورة عبس کے آخر میں  بھی قیامت  کا ذکر ہے۔
  2. سورة النازعات کے آخر میں بتایا گیا کہ  آپ کا یہ کام نہیں کہ آپ منکروں  کو قیامت کا وقت بتائیں؛ بلکہ آپ قیامت کی سختی  سے ڈرنے والوں کو، ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔  سورة عبس کے شروع میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم   کو آپ کی اسی ذمہ داری کی طرف پوری طرح متوجہ کیا گیا ہے۔ 
  3. سورة النازعات میں فرعون جیسے بادشاہ کی سرکشی اور بے زاری  کا ذکر  ہے اب سورة عبس میں ھدایت کے طلب گارایک نابینا صحابی کے شوق کا بیان ہے۔ 
  4. وہاں الله تعالی کے انعاماتِ  کا ذکر ہے۔ اس سورة میں بھی نعمتوں کا بیان  ہے۔ 
  5. پچھلی سورۃ میں زمین و آسمان کی تخلیق کا بیان  ہے۔ اس سورة میں تخلیقِ انسانی کا ذکر ہے۔ 

لفظی روابط: 

اسی طرح دونوں سورتوں میں لفظی ربط بھی موجود ہے۔ 

  1. دونوں سورتوں میں تزکیہ  لفظ آیا ہے۔
  2. دونوں سورتوں میں خشیت لفظ موجود ہے۔
  3. دونوں سورتوں میں قیامت کو ایک ایک نام دیا گیا ہے۔ الطامة الکبری (النازعات)  اور الصاخہ (عبس)

شانِ نزول 

ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  قریش کے کچھ سرداروں کو  اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ بعض روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ اسی  دوران عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے جو سیدہ خدیجہ رضی الله عنھا  کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتداء میں اسلام قبول کرنے والوں سے تھے۔  نابینا تھے اس لیے انہیں پتا نہیں چلا کہ وہاں قریش کے سرکردہ لوگ موجود ہیں۔  انہوں نے آتے ہی زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں۔ یا رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم! مجھے پڑھائیے اور اس علم میں سے مجھے بھی سکھائیے  جو آپ کو الله نے سکھایا ہے۔  آپ نے ان  کی طرف  توجہ نہ دی، وجہ یہ تھی کہ آپ عبداللہ ابن مکتوم کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ اسلام قبول کر چکے ہیں انہیں بعد میں بتایا جا سکتا ہے، اگر ان سرداروں میں سے کسی نے اسلام قبول کر لیا  تو  اسلام کوقوت مل جائے گی۔ اس پر وحی نازل ہوئی جس میں آپ کو تنبیہ کی گئی۔ 

اس تنبیہ  میں  تبلیغ کا ایک اہم  اصول واضح  کیا گیا یعنی دعوت کے لیے توجہ کا اصل مستحق وہ ہے جو  ہدایت کی چاہت اور خواہش رکھتا ہو۔ 

 اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عبداللہ ابن ام مکتوم رضی الله عنہ کا بڑا اکرام فرماتے تھے۔  مدنی دور میں کئی بار آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے باہر جانے کی صورت میں  ان کو  اپنا نائب مقرر کیا۔ عبد الله ابن ام مکتوم رضی الله عنہ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں بھی حصہ لیا کرتے تھے اور بعض روایات کے مطابق حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں