عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10

 عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10


عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ (1)

(پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔



 اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى(2)

 اس لیئے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آپ نے ناگواری محسوس کی اور ایک نابینا  جو سیکھنے کی خواہش لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ 

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری اور رُخ موڑنے کی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔ 

۱- آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے سوچا ام ابن مکتوم اسلام قبول کر چکے ہیں۔ جس وقت چاہیں میرے پاس آ سکتے ہیں اگر ان کے سوال کا فورا جواب نہ  دیا جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر کافروں کی طرف توجہ نہ دی گئی تو وہ اُٹھ کر چلے جائیں گے اور ایمان سے محروم رہ جائیں گے۔ 

۲-آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ کفر و شرک بظاہر بڑے گناہ ہیں اسے زیادہ توجہ دینی چاہیے بنسبت ایک دینی مسئلے کے، جو عبد الله ابن ام مکتوم پوچھنا چاہتے تھے۔

۳-عبد الله ابن ام مکتوم کا بار بار سوال کرنا آدابِ مجلس کے خلاف تھا۔ آپ نے ادب سکھانے کے لیے اعراض کیا۔

لیکن الله تعالی کو نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات پسند نہ آئی اس لیے الله نے آپ کو تنبیہ فرمائی۔ 

اس تنبیہ کی بھی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔

  1. نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کفر و شرک کے خاتمے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ بہت اہم تھا لیکن کافر سرداروں میں ہدایت کی سچی طلب نہیں تھی جب کہ نابینا صحابی ہدایت کے سچے طلب گار  تھے ۔
  2. عبد الله بن ام مکتوم کو جواب دینے میں  یقینی فائدہ تھا وہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بات سن کر اس پر ضرور عمل کرتے۔ جب کہ کفار سے بات چیت کا فائدہ غیر یقینی تھا،  شاید وہ آپ کی گفتگو سن کر ایمان لے آتے  یا شاید وہ ایمان نہ لاتے۔ 


وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّىٰٓ (3)

اور (اے پیغمبر) تمہیں کیا خبر ؟ شاید وہ سدھر جاتا۔

 اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى (4)

یا وہ نصیحت قبول کرتا، اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نہیں جانتے کہ یہ صحابی جو بات پوچھ رہے ہیں اگر آپ انہیں سکھا دیتے یا بتا دیتے تو اس کا ضرور فائدہ ہوتا۔ آپ سے سیکھ کر وہ اپنے نفس کا تزکیہ کر لیتے اور نفس کو ظاہری و باطنی گندگی سے پاک کرکے اس کی صفائی کر لیتے۔ نفس کے تزکیہ سے ان کا ایمان مضبوط ہوتا یا وہ ایمان میں کمال حاصل کر لیتے اور اگر کمال حاصل نہ بھی ہوتا تو کچھ نہ کچھ نصیحت تو ضرور حاصل کر لیتے۔  یعنی نابینا صحابی کے سوال کا جواب دینے کی صورت میں ہر لحاظ سے یقینی فائدہ تھا۔ 

سوال : 

یزّکّٰی  اور یذَّکَّرُ  میں کیا فرق ہے؟ 

جواب:

 یزّکّی کا معنی پاک صاف ہو جانا ہے۔ یعنی نفس کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی سے پاک کر لینا اور یہ متقین کا مقام ہے۔ ” یزکی “ میں مبالغہ ہے۔

یذّکّر:  کا معنی نصیحت حاصل کرنا اور نصیحت کا اثر قبول کرنا ہے۔ یہ ھدایت کے راستے پر چلنے کا ابتدائی حال ہے۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مبتدی کوالله کی یاد دلائی جاتی ہے اور نصیحت کی جاتی ہے جس سے دل میں الله کا خوف اور محبت جگہ بناتی ہے اور دین پر عمل کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ 

یُدریک:   سے خاص طور پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آپ کی دلجوئی اور عزت و تکریم ہے، اگر مسلسل غائب کا صیغہ استعمال کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ کے طرزعمل کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ کو مخاطب نہیں کیا جا رہا اور یہ بات نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے صدمے کی وجہ بن جاتی ۔ پہلے غائب صیغہ اور پھرحاضر صیغہ لانا، دونوں میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا اکرام ہے۔

تبلیغ و تعلیم  کے لیے ایک اہم قرآنی اصول: 

اس موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو کام آ گئے تھے۔

  1. مسلمان کو تعلیم، تعلیم کی تکمیل اور دل جوئی
  2. غیر مسلم کی ھدایت کے لیے ان کی طرف توجہ

الله تعالی کے حکم  سے یہ واضح ہو گیا کہ پہلا کام اہم  ہے اور دوسرے کام کی وجہ سے پہلے میں تاخیر یا کمی کوتاہی کرنا درست نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ  مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کی فکر کرنا غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ 

فائدہ : اس آیت میں علماء کے لیے ایک اہم ہدایت ہے۔ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف متوجہ کرنے اور ان کے شبہات دور کرنے کے لیے ایسے کام کرنا جن سے مسلمانوں میں شبہات یا شکایات پیدا ہوں درست نہیں۔  اصلاح علم اور حفاظتِ علم کو ترجیح دینی چاہیے اور اس کام کو پہلے کرنا چاہیے۔ 

اگلی آیات میں الله تعالی نے اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کیا ہے۔


بے وفا سمجھیں تمہیں اہلِ حرم اس سے بچو!

دیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی 

(اکبر)


اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى(5)

وہ شخص جو بے پروائی دکھا رہا تھا۔

فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى (6)

اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو۔

وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰى (7)

حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی آپ یقینی فائدے کو چھوڑ کر امکان کے پیچھے جا رہے ہیں اور ایسے شخص کی ھدایت کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دین کا طالب نہیں ہے۔ وہ آپ اور آپ کے دین سے بے رُخی اور بے نیازی اختیار کر رہا ہے، اگر اسلام قبول نہیں کرتا اور اپنا تزکیہ نہیں کرتا تو آپ مکلف نہیں؛ کیونکہ آپ نے تبلیغ کر کے اپنا فرض  پورا کر دیا ہے۔ 

 وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰى(8)

اور وہ جو محنت کر کے تمہارے پاس آیا ہے۔

 وَهُوَ يَخْشٰى (9)

 اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے۔

فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى (10)

اس کی طرف سے تم بےپروائی برتتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے شوق سے دوڑتا ہوا آیا ہے۔ یعنی اندھا ہونے کے باوجود کوشش کرکے محض اسلام کی باتیں سمجھنے کے لیے آپ تک پہنچا اور اس کے دل میں الله کا ڈر اور محبت بھی ہے آپ اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے، حالاں کہ یہی شخص توجہ کے قابل ہے۔ 

خشی، الخشیۃ  ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے۔

ان آیات میں واضح طور پرنبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرکے ان کو پکا مسلمان اور قوی مؤمن بنانا، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ 

والله اعلم

یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔ یعنی تعداد سے زیادہ معیار کی اہمیت ہے اور معیار پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں