عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20

 عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20 


كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (11)

ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے۔

فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ (12)

اب جو چاہے، اس سے نصیحت قبول کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت مبارکہ میں الله سبحانہ وتعالی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو منع فرما رہے ہیں کہ آپ آئندہ کبھی ایسا نہ کیجیے۔ اپنے ساتھیوں سے بے رُخی نہ برتیے، مخلص مؤمنوں  کو چھوڑ کر منافقوں  اور مشرکوں  کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ مؤمنوں کو ترجیح دیں۔  قرآن مجید ایک نصیحت ہے اور آپ کے ذمہ صرف اس کی تبلیغ ہے۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اب جس کا دل چاہے وہ قبول کرے جس کا دل چاہے نہ قبول کرے۔ اگر کوئی قبول نہیں کرے گا تو آپ پرگرفت نہیں، آپ اس سلسلے میں ،مشقت و تکلیف میں نہ پڑیں۔ 

ذَکَرَہ، کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ بھی کہ جو شخص چاہے قرآن کی نصیحت کی باتوں کا بار بار تذکرہ کرتا رہے اور یہ بھی کہ قرآن کو زبانی یاد کرلے۔ غرض قرآن کو پڑھنا، اس کی نصیحت پر عمل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا سب بڑے اجر وثواب کے کام ہیں۔

فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ (13)

وہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بڑے مقدس ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں قرآن مجید کی صفات ، شان اور عظمت کا بیان ہے۔  قرآن مجید ایسے صحیفوں میں محفوظ ہے جو مکرم یعنی مقبول اور پسندیدہ ہیں، یا اس سے قرآن مجید کے وہ اوراق مراد ہیں جن میں سے فرشتوں نے لوح محفوظ سے نقل کر کے لکھا، وہ بھی جن میں کاتبینِ وحی  صحابہ کرام رضوان الله علیھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر لکھا اور وہ بھی جن میں ان سے نقل کر کے لکھا گیا اور قیامت تک لکھا جائے گا۔ 

مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ (14)

اونچے رتبے والے ہیں، پاکیزہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرفوعہ سے مراد ان صحیفوں کا الله کے نزدیک عالی شان ہونا اور بلند مرتبہ ہونا ہے یا یہ کہ وہ لوح محفوظ پر ہیں جو انتہائی بلند مقام یعنی الله کے عرش کے نیچے ہے۔ مطہرہ سے مراد یہ ہے کہ  صاف ستھرے صحیفوں میں درج ہے اور زمین پر مخلص اور ایمان والے  اس کے اوراق کو نہایت عزت و احترام  کے ساتھ اونچی جگہ پر رکھتے ہیں۔

فائدہ: قرآن مجید کی اسی عظمت اور پاکیزگی کی وجہ سے جنبی، حیض و نفاس والی عورت اور بے وضو شخص کا اسے  چھونا جائز نہیں۔

بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ (15)

ان لکھنے والوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔

كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ (16)

جو خود بڑی عزت والے، بہت نیک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صحیفے یعنی قرآن مجید ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو نیک اور عزت والے یعنی مکرم ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لکھنے والوں کی تعریف بیان کی ہے، خواہ وہ فرشتے ہوں یا کاتبین وحی، صحابہ کرام ہوں یا دوسرے، فرمایا یہ لوگ اللہ کے ہاں بہت عزت والے اور نہایت نیک ہیں۔ 

اگر سفرة (سفارت) بمعنی سفیر یعنی قاصد ہو تو پھر اس میں علماء کرام بھی شامل ہیں۔ کیونکہ علماء نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور امت کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات امت تک پہنچانے پر مامور ہیں۔ 

قرآن مجید کی یہ تمام صفات اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ الله تعالی کی نازل کردہ کتاب  ہے۔ 

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ (17)

خدا کی مار ہو ایسے انسان پر، وہ کتنا ناشکرا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی آیت میں قرآن مجید کی عظمت و شان کا اظہار کیا گیا۔ کیونکہ کافر الله کی کتاب قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں اس لیے اس آیت میں ان پر لعنت کی گئی ہے اگرچہ  مخاطب انسان کو کیا گیا ہے لیکن اس سے  مراد منکرِ قرآن ہی ہیں۔ 

مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ (18)

(وہ ذرا سوچے کہ) اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انکار کی وجہ عموما انسان کا غرور اور تکبر ہے۔ الله سبحانہ وتعالی انسان کو اس کی اصل بتا کر اس کی حقیقت جتا رہے ہیں کہ انسان دیکھے الله نے اسے کس قدر حقیرشے سے پیدا کیا۔

مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ (19)

نطفے کی ایک بوند سے، اسے پیدا بھی کیا، پھر اس کو ایک خاص انداز بھی دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله جل جلالہ ہی انسان کا خالق ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا ہے اس لیے انسان کو اس کی اوقات جتاتے ہوئے بتایا  کہ تجھے پانی کے ایک  قطرے سے بنایا،  پھر مختلف حالتوں سے گزارنے کے بعد انسان  کی تخلیق خاص اندازے اور بڑی حکمت سے  کی۔ جسامت ، اعضا، قد و قامت، شکل و صورت ، جوڑ و بند ، آنکھ ، ناک ، کان ایک خاص اندازے سے پیدا کیے، ذرا اس کے خلاف ہو جائے تو انسان کی صورت بگڑ جائے۔ 

“قدّرہ” کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی الله تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ مقرر کیا کہ کتنی عمر ہوگی، مال کتنا ہوگا۔ رزق کتنا ملے گا اور کیا کیا عمل کرے گا۔ سعید ہوگا یا شقی۔ 

 ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ (20)

 پھر اس کے لیے راستہ بھی آسان بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت سے کئی صورتیں مراد ہیں۔ 

۱- یہ کہ الله تعالی نے خاص انداز سے انسان کی تخلیق کی۔ اپنی حکمت سے اسے ماں کے پیٹ میں تین اندھیروں کے اندر اس طرح محفوظ رکھا کہ جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی تفصیل سے اس کا علم نہیں۔ جہاں اس کی تخلیق ہوئی اور جہاں وہ بن کر تیار ہوا وہاں سے دنیا میں آنے کا راستہ باوجود تنگ ہونے کے الله تعالی نے اپنی رحمتِ کاملہ سے ایسا آسان کر دیا کہ دو تین کلو وزنی جسم صحیح سالم برآمد ہوتا ہے۔ عام طور پر ماں کو خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ 

فتبارک الله احسن الخالقین۔ 

۲- یہ  کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو  ایسی  قوت اور صلاحیت دی  کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی آسانی سے گزار سکے۔

 ۳- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں ان کی تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء علیھم السلام  اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جو راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں