عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42

 عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42 

وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا (31)

اور میوے اور چارہ۔

۔۔۔۔۔۔

بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہا جاتا ہے اور “ابّاً” اس گھاس کے کہتے ہیں جو کٹنے اور جانوروں کے چرنے کے لئے بالکل تیار ہو۔

مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (32)

سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کی خاطر۔

۔۔۔۔۔

الله سبحانہ و تعالی انسان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں یہ سب چیزیں تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے ہیں۔ جانور تمہارے نفع کے لیے بنائے تاکہ تم ان کا دودھ پیو، گوشت کھاؤ اور ان کے چمڑے سے جوتے، لباس  اور استعمال کی چیزیں بناؤ، ان کے بالوں سے عمدہ گرم شالیں تیار کرو۔ یہ سب الله سبحانہ وتعالی کی عظیم الشان قدرت کے نمونے ہیں۔ 

جس ذات نے پہلی بار پانی کی ایک بوند سے ہزاروں چیزوں کو پیدا کیا وہ دوبارہ  پھر زندہ کر سکتا ہے۔ ان سب انعامات کا تقاضا ہے کہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کیا جائے اور شکر یہی ہے کہ اسی کو وحدہ لا شریک مانا جائے اور اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے۔ 

ربط آیات: 33 تا 42۔  

الله تعالی کی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اصل مضمون یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکی کا بیان ہے۔ حق کی دعوت قبول کرنے والوں کے لیے خوشخبری اور انعامات کا وعدہ اور نہ ماننے والوں کے لیے شدید عذاب کا ڈراوا  ہے۔ 

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ (33)

آخر جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آ ہی جائے گی۔  (اس وقت اس ناشکری کی حقیقت پتہ چل جائے گی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ ابھی تم ہماری نعمتوں کی ناشکری کر رہے ہو جب کانوں کو بہرا کر دینے والی سخت آواز آئے گی، اس دن تمہیں اپنی ناشکری کا مزہ معلوم ہو جائے گا۔ 

اس سے نفخہ ثانیہ ( دوسری بار صور کا پھونکا جانا) اور قیامت کا شور مراد ہے۔ 

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ (34)

 یہ اس دن ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔

وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ (35)

اور اپنے ماں باپ سے بھی۔

وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ (36)

اور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت کے دن کی ہولناکی کا بیان ہے۔ محشرکا دن ایسا سخت اور وحشت ناک ہوگا کہ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ نفسا نفسی کا عالم ہوگا، کسی کو دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ بھائی بھائی سے ، بچے اپنے ماں باپ سے اور شوہر اپنی بیوی اور اولاد سے بھاگتا پھرے گا۔ 

سوال: میدانِ حشر میں آدمی اپنے عزیز و اقارب سے کیوں بھاگے گا؟ 

جواب: علماء نے اس کی کئی وجوھات بیان کی ہیں۔ 

۱- ان حقوق کے مطالبے کا ڈر ہوگا  جو دنیا میں ادا نہ کیے تھے۔ جیسے مفلس قرض خواہ سے چھپتا پھرتا ہے۔

۲- مدد مانگنے کے ڈر سے۔ ایسا نہ ہو کہ عزیز رشتہ داروں کو عذابِ خداوندی سے بچانے کے لیے کچھ نیکیاں دینی پڑ جائیں۔ جیسے قحط سالی میں لوگ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں یا جیسے امیر لوگ فقیروں اور سوالیوں  سے بھاگتے ہیں۔

۳-عزیزوں کی مصیبتیں دیکھی نہ جائیں گی۔ اس لیے ایک دوسرے سے منہ چھپائیں گے۔

۴-اپنی رسوائی کو چھپانے کے لیے بھاگیں گے۔ 

۵-دنیا میں خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ کرتے اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے ، اس کے برے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہ  کی ذمہ داری اس پر نہ ڈالنے لگیں اور اس کے  خلاف مقدمے کے گواہ نہ بن جائیں۔ 


بعض ان سب اسباب کی وجہ سے بھاگیں گے اور بعض ان میں سے کچھ اسباب کی وجہ سے۔

فائدہ:  ان آیات میں ترتیب رشتوں کے تعلق کے اعتبار سے ادنی سے اعلی کی طرف بیان کی گئی ہے۔ 

 لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ (37)

(کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جملہ پہلے جملوں کی وجہ بیان کر رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسا کیا ہوگا جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ وجہ یہی ہے کہ اس دن ہر شخص ایسی حالت میں ہوگا کہ اس کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ یہ حساب کتاب سے پہلے کا حال ہے۔ بعد میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سفارش سے حساب کتاب شروع ہوگا۔ 

احادیث میں مختلف طریقوں اور سندوں سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ( بروایت بعض حضرت عائشہ نے ، اور برویتِ بعض حضرت سودہ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا ، یا رسول اللہ ! کیا ہمارے ستر اس روز سب کے سامنے کھلے ہوں گے؟ حضور نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا۔

 ( نسائی ، ترمذی ، ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، طبرانی ، ابن مردویہ ، بہیقی ، حاکم ) ۔

وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ (38)

 اس روز کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔

ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (39)

ہنستے، خوشی مناتے ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہت سے چہرے روشن ہوں گے جنت کی خوشخبری سُن کر خوش ہوں گے اور ہنستے ہوں گے۔  چہروں کی یہ روشنی اور خوشی اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جانے کے بعد ہوگی۔ 

وَوُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ (40)

اور کتنے چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر خاک پڑی ہوگی۔

تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (41)

 سیاہی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔

اُولٰۗئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (42)

 یہ وہی لوگ ہوں گے جو کافر تھے، بدکار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بہت سے چہروں پر غبار ہوگا، اپنی بداعمالیوں کو دیکھ کر چہروں پر مایوسی کی سیاہی چھا جائے گی۔ یہ وہ کافر و فاجر لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں  پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

میدان محشر میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم  ہوں گے۔ ان کی علامات ان کے چہروں سے نمایاں ہوں گی۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے چہرے ہشاش بشاش کھلکھلاتے اور مسکراتے ہوئے ہوں گے، دلوں  میں بھی خوشی بھری ہوگی اور کچھ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی، رنگ فق اور چہرے بگڑے ہوئے اور بےرونق ہوں گے اور یہ اللہ کے نافرمان اور بدکردار لوگ ہوں گے۔ 

گویا لوگ گروہوں میں بٹنے کی وجہ سے اپنے چہروں سے  پہچان لیے جائیں گے کہ کون شخص شقی ہے اور کون سعید ہے۔ 

(الله کریم روز محشر میں ہمیں روشن چہرے والا بنائے۔ )

مختصر تفسیر سورہ عبس

سرداران قریش کے مطالبہ پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ تاکہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے، وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا اور جو بے نیازی کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔  یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ 

غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔

 انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں