ڈاکٹر حمید الله سے چند سوالات اور ان کے جوابات : تاریخ قرآن مجید

 سوال ٢ مع جواب:

میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد میں دوسرے سوالوں پر توجہ کرسکتا ہو۔ ایک سوال حروف مقطعات کے متعلق ہے۔ یعنی قرآن مجید میں بعض جگہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ حروف ہیں مثلاً الم، حم، عسق، وغیرہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان الفاظ کی کبھی تشریح نہیں فرمائ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تشریح فرمادی ہوتی تو بعد میں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ اس کے خلاف کوئ رائے دے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر آراء پائ جاتی ہیں۔ الف صاحب یہ بیان کرتے ہیں۔ ب صاحب وہ بیان کرتے ہیں اور یہ چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ اس کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی لوگ نئ نئ رائے دے رہے ہیں۔ لطیفے کے طور پر میں عرض کرتا ہوں۔ 1933ء کی بات ہے۔ میں پیرس یونیورسٹی میں تھا، تو ایک عیسائ ہم جماعت نے ایک دن مجھ سے کہا کہ مسلمان ابھی تک حروف مقطعات کو نہیں سمجھ سکے۔ میں بتاتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ موسیقی کا ماہر تھا، کہنے لگا کہ یہ گانے کی جو لے اور دھن وغیرہ ہوتی ہے ان کی طرف اشارہ ہے۔ کہنے کا منشا یہ ہے کہ لوگ حروف مقطعات کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اپنی حد تک میں کہہ سکتا ہوں مجھے اس کے متعلق کوئ علم نہیں ہے۔ سوائے ایک چیز کے اور وہ یہ ہے کہ ایک حدیث میں کچھ اشارہ ملتا ہے کہ ایک دن کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور پوچھا کہ تمہارا دین کب تک رہے گا؟ کم وبیش اسی مفہوم کے الفاظ انہوں نے اداکیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؟ "الم" تو انہوں نے کہا اچھا تمہارا دین الف (١) ل(٣۰) اور م(٤۰) یعنی اکہتر سال رہے گا الحمدللہ اکہتر سال بعد تمہارا دین ختم ہوجائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر "الر" اور "المر" بھی نازل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا الر ٢٣١ سال المرا ٢٧ سال۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ پر فلاں فلاں لفظ بھی نازل ہوا ہے مثلا لحم عسق وغیرہ۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا اور چلے گئے ہوسکتا ہے کہ انہیں پریشان کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جواب دیا ہو۔ لیکن اس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ حروف کی گویا عددی قیمت ہے۔ جس طر لوگ واقف ہیں کہ الف کے ایک، ب کے دو، ج کے تین اور د کے چار عدد مقرر ہیں اسی طرح عربی زبان میں اٹھائیس حروف ہیں۔ ان سے بہت ہی مکمل طریقے سے ایک ہزارتک لکھ سکتے ہیں تاکہ ہندسہ لکھنے میں اگر کوئ غلط فہمی پیدا ہوتو حروف کے ذریعے اسے دور کیا جاسکے۔ میں نے سنا ہے کہ سنسکرت میں بھی یہ طریقہ موجود ہے لیکن سنسکرت میں حروف تہجی ٢٨ سے کہیں زیادہ ہیں اور اس میں ایک سو مہاسنکھ تک لکھ سکتے ہیں۔ بہر حال ایک ہزار ہماری ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ یہ تھا حروف مقطعات کے متعلق میری معلومات کا خلاصہ۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ میں آپ کو کوئ معلومات فراہم نہیں کرسکتا۔

سوال ٣:
ایک اور سوال ہے۔ اچھا ہوتا اگر وہ نہ کیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ قرآن مجید حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے اس میں مسلمانوں کے لیے زیادہ فخر کی بات ہے وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پڑھے لکھے انسان تھے۔

جواب: 
جیسا کہ میں نے عرض کیا اگر یہ سوال نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر پڑھے لکھے ہوتے تو کیا آپ کی عزت بڑھ جاتی؟ یا امی تھے تو کیا آپ کی عزت گھٹ گئی؟ باقی خود قرآن کریم کہتا ہےکہ میں کسی انسان کی تصنیف نہیں ہوں، میں خدا کا کلام ہوں۔ فرشتے اس کے شاہد ہیں۔ خدا شہادت دیتا ہے کہ خدا کا کلام ہے (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ علا من خلفہ ٤٢:٤١) خود رسول بھی اس میں کوئ اضافہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ترمیم کرسکتا ہے۔ قرآن نے ایک چیلنج بھی دیا ہے جو میری دانست میں اس کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ چیلنج یہ ہے کہ قرآن جیسی ایک سورت یعنی کم از کم تین آیتیں لکھنے کی کوشش کرو۔ دنیا کے سارے انسانوں، سارے جنات کی مدد سے بھی تم نہیں لکھ سکو گے۔ یہ قرآن کا چیلنج تھا۔ اس قرآن کے چیلنج کو آج چودہ سو سال کے بعد بھی کسی نے کوئ ایسا جواب نہیں دیا، جسے لوگ قبول کرسکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں یہ کہنا کہ اگر قرآن مجید کسی انسان کی تصنیف ہو تو اس کی عزت بڑھ جائے گی، میرے نزدیک کوئ یقینی بات نہیں۔ شخصی طور پر مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔

سوال٤:
ایک اور سوال ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئ آیت قرآن مجید سے نکال لی جائے تو کوئ حرج واقع نہیں ہوگا کہ اس قسم کی دوسری آیات موجود ہیں۔ جس سے اس کا مفہوم ادا ہوسکتا ہے۔ اس کمی بیشی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

جواب:
اپنے مفہوم کو میں نے شاید ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا یا شاید آپ نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ قرآن مجید کی کچھ آیتیں نکال لی جائیں۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ قرآن مجید کی جن دو آیتوں کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ وہ دونوں تحریری صورتوں میں نہیں ملیں، ان میں حقیقتاً کوئ ایسی اہم بات نہیں ہے کہ اگر وہ اتفاقاً نکل بھی جائیں تو اس سے قرآن مجید کی تعلیم متاثر ہو۔ مثلاً صرف ایک آیت میں یہ ذکر ہو کہ اللہ کے سوا کوئ معبود نہیں۔ فرض کیجئے یہ آیت نہ رہے تو اس کا امکان تھا کہ اسلام صحیح صورت میں باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جن آیتوں کی طرف مذکورہ روایت میں اشارہ ہوا ہے ان میں ایسی کوئ چیز نہیں مثلاً یہ عبارت کہ (لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تو لو افقل حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ١٢٨:١٩ تا ١٢٩) اس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے نبی ہیں جن کو اپنی امت کے ساتھ بڑی شفقت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی چیز تو ہے لیکن اس میں کوئ ایسی بات نہیں کہ یہ عبارت نہ ہوتی تو اسلام باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ قرآن مجید کی آیتوں کے حذف کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ویسے میں آپ سے عرض کروں گا کہ قرآن کی بعض آیتیں مکرر ہیں۔ ایک ہی آیت بار بار آتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ان میں سے ایک حذف کردی جائے تو ظاہر ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں کوئ کمی واقع نہیں ہوگی۔ مثلاً سورۂ رحمان میں فبای الاء ربکما تکذبان کوئ پندرہ بیس مرتبہ آیا ہے۔ ان میں سے اگر ایک جگہ حذف کرکے دو آیتوں کو ایک آیت بنادیا جائے تو قرآن مجید میں جو چیزیں انسان کی تعلیم کے لیے آئی ہیں ان میں عملاً کوئ کمی نہیں آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کا امکان ہے یا یہ مناسب ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ قرآن مجید کی جس آیت کے متعلق حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کی ضرورت پیش آئی تھی اس میں کوئ ایسی چیز نہیں جو اسلام کی تعلیم پر موثر ہو۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اور آیتیں بھی موجود ہیں۔ یہ تو دراصل نمونہ ہے اس بات کا کہ قرآن کی تدوین میں کتنی عرق ریزی کی گئ ہے۔ یہ تھا میرا منشا۔

سوال ٥:
خواتین کے مبعوث ہونے کے متعلق اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔

جواب:
قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ خدا نے مردوں کو نبی بناکر بھیجا ہے۔ اور عورت کو نبی بناکر بھیجنے کا اس میں کوئ ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے اپنی تقریر میں ابھی ذکر کیا تھا کہ یہودیوں کے ہاں عورت کے نبی ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خدا کا بیان تو یہ ہے کہ ہم نے کسی عورت کو نبی بنا کر نہیں بھیجا لیکن یہودی کہتے ہیں کہ نہیں، ہمارے ہاں نبیہ عورت ہوئ تھی تو اس کا فیصلہ خدا ہی کرے گا۔ میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں اس کا فیصلہ کروں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بہنیں جو یہاں موجود ہیں، الحمد اللہ سب دیندار اور مسلمان ہیں اور کوئ بھی نبوت کے منصب کی امیدوار نہیں ہے۔

سوال ٦:
انجیل برنا باس کی صحت کے متعلق آپ کی کیا تحقیق ہے؟

جواب:
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کی تاریخ میں انجیل برناباس کی کم ضرورت ہے۔ قصہ یہ ہے کہ برنا باس حضرت عیسٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دین قبول کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ اور ایک زمانے میں ان کی بڑی اہمیت تھی۔ سینٹ پال کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کا دشمن رہا، عیسائیوں کو تکلیف دیتا رہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے سفر کرجانے کے بعد ایک دن اس نے کہا کہ مجھے کشف ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین سچا تھا۔ اس دن سے وہ عیسائ بنا۔ مگر لوگوں کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ منافق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جب یہ ہم کو تکلیفیں دیتا رہا تو اب ہم کیسے یقین کرلیں کہ وہ حقیقتاً کایا پلٹ ہوکر دین دار ہوگیا ہے۔

برناباس، جن کو میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ سکتا ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے اطمینان ہے کہ یہ پال پکا اور سچا دین دار ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شہر بیت المقدس میں ایک اجتماع ہوا۔ جہاں اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ حضرت عیسٰ علیہ السلام کا جو قول ہے کہ میں "توریت کے ایک شوشے کو بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں آیا اس کی من وعن تعمیل کی جانی چاہیے؟، اس قانون کو ہم برقرار رکھیں گے یا لوگوں کو اپنے دین کی طرف مائل کرنے کے لیے اس میں کچھ نرمی کریں"۔ یہ یروشلم کونسل کہلاتی ہے۔ وہاں سینٹ پال کا اصرار تھا کہ اس کو باقی نہ رکھا جائے بلکہ توریت کے سخت احکامات کر نرم کردیا جائے۔ برنا باس نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس وقت شدت سے کہا تھا کہ یہ شخص منافق معلوم ہوتا ہے لیکن عیسائیوں نے برناباس کی تازہ ترین شہادت کو قبول نہیں کیا۔ برناباس کو کونسل سے نکال دیا اور سینٹ پال کی بات کو قبول کرلیا۔ عہد نامہ جدید کے ایک باب میں صراحت سے لکھا ہے کہ ہم لوگوں کو روح القدس کی طرف سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اب تم پر پرانے احکام باقی نہیں رہے، سوائے چار چیزوں کے۔ ایک تو یہ کہ خدا کو ایک مانیں، دوسرے یہ کہ اگر کسی بت پر جانور کو ذبح کیا گیا ہوتو اسے نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ فحش کاری نہ کریں۔ اسی طرح ایک اور چیز کا بہ صراحت ذکر ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی پابندیاں اور ممانعتیں تھیں اب وہ تم پر باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ اب لوگ، عیسائ دنیا میں سینٹ پال کی اس رائے پر عمل کرتے ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ کہ "میں توریت کا ایک شوشہ بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں اس کی من و عن تعمیل ہونے چاہیے" اس پر عمل نہیں کرتے۔

انجیل برنا باس، جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے، زمانہ حال کی دستیاب شدہ ایک چیز ہے۔ اس کا کوئ پرانا نسخہ نہیں ملا۔ اور وہ برنا باس کی مادری زبان آرامی زبان میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ اطالوی زبان میں ہے اور اس کے قلمی نسخے کے حاشیے پر جابجاعربی الفاظ بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عیسائ محققین کا خیال ہے بالکہ اصرار ہے کہ یہ مسلمانوں کی تالیف کردہ جعلی انجیل ہے اور یہ حضرت برنا باس کی انجیل نہیں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئ علم نہیں ہے البتہ اس حد تک جانتا ہوں کہ انجیل برنا باس کے دونسخے ایک زمانے میں ملتے تھے۔ ایک وہ جو آسٹریا میں تھا اور جو غالباً اب بھی محفوظ ہے۔ غالباً میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ٹھیک علم نہیں ہے۔ دوسرا وہ نسخہ جو اسپین میں تھا۔ جب آسٹریا کا نسخہ انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا تو اسپین کا نسخہ یکایک غائب ہوگیا۔ غالباً اسے ضائع کردیا گیا بہر حال یہ مختصر سے حالات ہیں، مجھے شخصی طور پر انجیل برناباس کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس میں جابجا ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو اسلامی عقائد سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور عیسائیوں کے جو عام عقائد ہیں اس سے بہت کچھ اختلاف رکھتےہیں۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ اس کو میں شخصی طور پر کوئ زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتا کیونکہ میرے مطالعے کا جو موضوع ہے وہ اس سے ذرا ہٹا ہوا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کوئ واقفیت نہیں ہے۔ ادب سے معافی چاہتا ہوں۔

سوال ٧:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے کونسے سال میں قرآن کا پہلا نسخہ مدون ہوا۔ یہ کون ساہجری سال تھا؟

جواب:
یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کے چند مہینے بعد ہی کا واقعہ ہے۔ یہ ١١ھ کے اواخر کا زمانہ ہوگا۔ یعنی مسلیمہ کذاب سے جو جنگ ہوئ تھی اس جنگ کے فوراً بعد کا ذکر ہے۔

سوال٨:
احادیث مبارکہ میں مختلف آیات کی شان نزول کے متعلق جو بعض اوقات متعارض روایات ملتی ہیں، ان کو کس طرح حل کیا جائے؟

جواب:
سوال ٥:
خواتین کے مبعوث ہونے کے متعلق اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔

جواب:
قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ خدا نے مردوں کو نبی بناکر بھیجا ہے۔ اور عورت کو نبی بناکر بھیجنے کا اس میں کوئ ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے اپنی تقریر میں ابھی ذکر کیا تھا کہ یہودیوں کے ہاں عورت کے نبی ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خدا کا بیان تو یہ ہے کہ ہم نے کسی عورت کو نبی بنا کر نہیں بھیجا لیکن یہودی کہتے ہیں کہ نہیں، ہمارے ہاں نبیہ عورت ہوئ تھی تو اس کا فیصلہ خدا ہی کرے گا۔ میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں اس کا فیصلہ کروں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بہنیں جو یہاں موجود ہیں، الحمد اللہ سب دیندار اور مسلمان ہیں اور کوئ بھی نبوت کے منصب کی امیدوار نہیں ہے۔

سوال ٦:
انجیل برنا باس کی صحت کے متعلق آپ کی کیا تحقیق ہے؟

جواب:
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کی تاریخ میں انجیل برناباس کی کم ضرورت ہے۔ قصہ یہ ہے کہ برنا باس حضرت عیسٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دین قبول کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ اور ایک زمانے میں ان کی بڑی اہمیت تھی۔ سینٹ پال کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کا دشمن رہا، عیسائیوں کو تکلیف دیتا رہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے سفر کرجانے کے بعد ایک دن اس نے کہا کہ مجھے کشف ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین سچا تھا۔ اس دن سے وہ عیسائ بنا۔ مگر لوگوں کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ منافق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جب یہ ہم کو تکلیفیں دیتا رہا تو اب ہم کیسے یقین کرلیں کہ وہ حقیقتاً کایا پلٹ ہوکر دین دار ہوگیا ہے۔

برناباس، جن کو میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ سکتا ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے اطمینان ہے کہ یہ پال پکا اور سچا دین دار ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شہر بیت المقدس میں ایک اجتماع ہوا۔ جہاں اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ حضرت عیسٰ علیہ السلام کا جو قول ہے کہ میں "توریت کے ایک شوشے کو بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں آیا اس کی من وعن تعمیل کی جانی چاہیے؟، اس قانون کو ہم برقرار رکھیں گے یا لوگوں کو اپنے دین کی طرف مائل کرنے کے لیے اس میں کچھ نرمی کریں"۔ یہ یروشلم کونسل کہلاتی ہے۔ وہاں سینٹ پال کا اصرار تھا کہ اس کو باقی نہ رکھا جائے بلکہ توریت کے سخت احکامات کر نرم کردیا جائے۔ برنا باس نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس وقت شدت سے کہا تھا کہ یہ شخص منافق معلوم ہوتا ہے لیکن عیسائیوں نے برناباس کی تازہ ترین شہادت کو قبول نہیں کیا۔ برناباس کو کونسل سے نکال دیا اور سینٹ پال کی بات کو قبول کرلیا۔ عہد نامہ جدید کے ایک باب میں صراحت سے لکھا ہے کہ ہم لوگوں کو روح القدس کی طرف سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اب تم پر پرانے احکام باقی نہیں رہے، سوائے چار چیزوں کے۔ ایک تو یہ کہ خدا کو ایک مانیں، دوسرے یہ کہ اگر کسی بت پر جانور کو ذبح کیا گیا ہوتو اسے نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ فحش کاری نہ کریں۔ اسی طرح ایک اور چیز کا بہ صراحت ذکر ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی پابندیاں اور ممانعتیں تھیں اب وہ تم پر باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ اب لوگ، عیسائ دنیا میں سینٹ پال کی اس رائے پر عمل کرتے ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ کہ "میں توریت کا ایک شوشہ بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں اس کی من و عن تعمیل ہونے چاہیے" اس پر عمل نہیں کرتے۔

انجیل برنا باس، جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے، زمانہ حال کی دستیاب شدہ ایک چیز ہے۔ اس کا کوئ پرانا نسخہ نہیں ملا۔ اور وہ برنا باس کی مادری زبان آرامی زبان میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ اطالوی زبان میں ہے اور اس کے قلمی نسخے کے حاشیے پر جابجاعربی الفاظ بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عیسائ محققین کا خیال ہے بالکہ اصرار ہے کہ یہ مسلمانوں کی تالیف کردہ جعلی انجیل ہے اور یہ حضرت برنا باس کی انجیل نہیں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئ علم نہیں ہے البتہ اس حد تک جانتا ہوں کہ انجیل برنا باس کے دونسخے ایک زمانے میں ملتے تھے۔ ایک وہ جو آسٹریا میں تھا اور جو غالباً اب بھی محفوظ ہے۔ غالباً میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ٹھیک علم نہیں ہے۔ دوسرا وہ نسخہ جو اسپین میں تھا۔ جب آسٹریا کا نسخہ انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا تو اسپین کا نسخہ یکایک غائب ہوگیا۔ غالباً اسے ضائع کردیا گیا بہر حال یہ مختصر سے حالات ہیں، مجھے شخصی طور پر انجیل برناباس کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس میں جابجا ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو اسلامی عقائد سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور عیسائیوں کے جو عام عقائد ہیں اس سے بہت کچھ اختلاف رکھتےہیں۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ اس کو میں شخصی طور پر کوئ زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتا کیونکہ میرے مطالعے کا جو موضوع ہے وہ اس سے ذرا ہٹا ہوا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کوئ واقفیت نہیں ہے۔ ادب سے معافی چاہتا ہوں۔

سوال ٧:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے کونسے سال میں قرآن کا پہلا نسخہ مدون ہوا۔ یہ کون ساہجری سال تھا؟

جواب:
یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کے چند مہینے بعد ہی کا واقعہ ہے۔ یہ ١١ھ کے اواخر کا زمانہ ہوگا۔ یعنی مسلیمہ کذاب سے جو جنگ ہوئ تھی اس جنگ کے فوراً بعد کا ذکر ہے۔

سوال٨:
احادیث مبارکہ میں مختلف آیات کی شان نزول کے متعلق جو بعض اوقات متعارض روایات ملتی ہیں، ان کو کس طرح حل کیا جائے؟

جواب:
غالباً صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ شان نزول کے متعلق ہی نہیں اور چیزوں کے متعلق بھی اگر احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے تو جس طرح ہم ان کو حل کرتے ہیں اسی طرح اس کو بھی حل کیا جاسکے گا۔ اولاً ہم دیکھیں گے کہ یہ روایت صحیح ہے یا وہ روایت صحیح ہے۔ اس کے راوی زیادہ قابل اعتماد ہیں یا اس کے راوی زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ احادیث کے تمام اختلافات رفع کرنے کا یہ طریقہ اس کے متعلق بھی استعمال کیا جائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ شان نزول کے متعلق جو اختلاف ہیں انہیں کوئ بڑی اہمیت بھی حاصل نہیں ہے۔ ان معنوں میں فرض کیجئے ایک راوی یہ کہتا ہے کہ (اقرا باسم ربک الذی خلق) کے بعد سب سے پہلے سورہ "الم" نازل ہوئ۔ دوسرے راوی یہ کہتے ہیں کہ نہیں فلاں سورت نازل ہوئ تو اس اختلاف کی میرے نزدیک کوئ اہمیت نہیں ہے۔ اس سے صحابہ کی واقفیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انہیں جیسا یاد رہا انہوں نے ویسا ہی بیان کردیا۔ اس کے متعلق میں نے حقیقتاً غور نہیں کیا، کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ اس لیے اس وقت اس پر اکتفا کرتا ہوں۔

سوال ٩:
ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کون تھیں؟ کیا صرف وہی حافظہ تھیں یا جناب ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حافظہ قرآن تھیں؟

جواب:
حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک انصاری عورت تھیں جو بہت پہلے ایمان لائ تھیں چنانچہ ان کے متعلق لکھا ہے کہ جنگ بدر (٢ھ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ میں اسلام کے دشمنوں سے جنگ کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے متعلق ایک اور روایت ہے جو اس سے بھی زیادہ عملی یا علمی دشواریاں پیدا کرے گی وہ یہ کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ نے ان کے محلے "اہل دارہا" نہ کہ "اہل بیتھا" کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں ہے اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ ان کا مؤذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے متعلق یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ شاید ابتدائے اسلام کی بات ہو اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منسوخ کردیا ہو لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ اس لیے ہمیں سوچنا پڑے گا۔ ایک چیز جو میرے ذہن میں آئ ہے وہ عرض کرتا ہوں کہ بعض اوقات عام قاعدے میں استثناء کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استثنائ ضرورتوں کے لیے یہ استثنائ تقرر فرمایا ہوگا۔ چنانچہ میں اپنے ذاتی تجربے کی ایک چیز بیان کرتا ہوں۔ پیرس میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئ تھی۔ ہالینڈ کا ایک طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا، اس پر عاشق ہوگیا۔ عشق اتنا شدید تھا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کرلیا۔ ان دونوں کا نکاح ہوا۔ اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئ اور کہنے لگی کہ بھائ صاحب میرا شوہر مسلمان ہوگیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اسے اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھاؤں۔ کیا وہ میری اقتدا میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ کسی عام مولوی صاحب سے پوچھیں گی تو وہ کہے گا کہ یہ جائز نہیں لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا ایک واقعہ حضرت امام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے۔ اس لیے استثنائ طور پر تم امام بن کر نماز پڑھاؤ۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ مقتدی بن کر تمہارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد از جلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں۔ کم از کم تین سورتیں یاد کرے اور تشہد وغیرہ یاد کرے۔ پھر اس کے بعد وہ تمہارا امام بنے اور تم اس کے پیچھے نماز پڑھا کرو۔ دوسرے الفاظ میں ایسی استثنائ صورتیں جو کبھی کبھار امت کو پیش آسکتی تھیں۔ ان کی پیش بندی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتخاب فرمایا تھا۔ ہمارے دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا اور عورتیں بھی حافظہ تھیں؟ مجھے اس کا علم نہیں، ان معنوں میں کہ حافظ ہونے کا صراحت کے ساتھ اگر کسی کے بارے میں ذکر ملتا ہے تو صرف انہیں کے متعلق۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وغیرہ کے متعلق میں نے کبھی کوئ روایت نہیں پڑھی کہ وہ حافظہ تھیں۔ انہیں کچھ سورتیں یقیناً یاد ہوں گی اور ممکن ہے کہ بہت سی سورتیں یاد ہوں لیکن ان کے حافظہ قرآن ہونے کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی، اس کے سوا اور میں کچھ عرض نہٰیں کروں گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں