میری امی ہر روز رات کو ہمیں انبیاء علیھم السلام کے قصے سناتیں ۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے والد اُن کے پیدا ہونے سے پہلے ہی الله تعالی کے پاس چلے گئے تھے ۔ مجھے یہ سن کر بہت تکلیف ہوئی ۔ میں نے اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے بہت دکھ اور اداسی محسوس کی ۔ پھر امی نے بتایا کہ چھ سال بعد ان کی امی بھی انہیں چھوڑ کر الله تعالی کے پاس چلی گئیں ۔ تو میں بے اختیار اپنی امی سے لپٹ گیا ۔
امی جان نے بتایا ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پرورش اُن کے چچا نے کی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔ اور ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی چچی آپ سے بہت محبت کتی تھیں ۔ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ بکریاں چرانے جایا کرتے تھے ۔ جب گھر واپس آتے تو سب بچے کھانے کی طرف لپکتے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم ایک طرف بیٹھ جاتے ۔ آپ کی چچی جب آپ کو دیکھتیں تو خود آگے بڑھ کر آپ کو کھانا دیتیں ۔ بہت دنوں تک جب میری امی مجھے کھانا کھلاتیں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔ اور میں اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے دُکھ اور تکلیف محسوس کرتا ۔
پھر میں بڑا ہو گیا امی جان کی دُنیا سے نکل کر سکول کی دُنیا میں آگیا میری دلچسپیوں کا محور بدل گیا ۔ صبح صبح اُٹھنا ، بھاگم بھاگ سکول جانا ، پڑھنا لکھنا اور کھیلنا رات تک تھک کر سو جانا ۔ ہاں اس دوران میں اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات سنتا اور پڑھتا رہا ۔ کبھی امی سے اور کبھی کورس کی کتابوں سے ۔ مجھے پتہ چلا کہ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم بچپن ہی سے کھیل تماشوں سے دور رہے ۔ میرے نبی سچے اور امانت دار تھے ۔ کبھی جھوٹ نہ بولتے ۔ کبھی بتوں کی عبادت نہ کی ۔شرک نہ کیا ۔ جوانی میں بھی برائی سے کوسوں دور رہے ۔ کبھی شراب نہ پی ۔ جوا نہ کھیلا ۔ اگرچہ یہ سب برائیاں اس وقت عام تھیں ۔ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی پر ظلم نہ کیا ۔ بلکہ ہر ایک سے نرمی اور محبت سے پیش آتے ۔ اور اپنی قوم میں صادق اور امین مشہور تھے ۔
چالیس سال کی عمر میں منصب نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد الله کے حکم سے جب دعوت حق کی تبلیغ شروع کی تو اپنے پرائے سب میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کے دشمن ہو گئے ۔ اور آپ پر اور آپ کے ایمان لانے والے ساتھیوں پر ظلم وستم کرنے لگے ۔ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کفار کے ظلم وستم کو صبر سے برداشت کرتے رہے ۔ اور کافروں کے لئے بھی کبھی بد دعا نہ کی ۔ مکہ میں تیرہ سال تک کافروں کے ظلم وستم کو نہایت حوصلے اور صبر کے ساتھ برداشت کیا ۔ یہاں تک کہ وادی طائف میں کافروں نے آپ کو لہو لہان کر دیا ۔پھر بھی میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لئے بد دعا نہ کی اور الله تعالی سے ان کے ایمان کی دعا کرتے رہے ۔ جب الله تعالی کے حکم سے مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کی تب بھی ظالم کافروں نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ اور بار بار مدینہ طیبہ پر حملہ کر کے میرے نبی صلی الله علیہ وسلم اور اسلام کو ختم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صبر اور حوصلے دلیری اور حکمت سے اور الله رب العزت کی مدد سے اور اچھے اخلاق سے نہ صرف جنگوں میں فتح حاصل کی بلکہ لوگوں کے دل بھی فتح کر لئے ۔
اب میں ینیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہوں ۔ ہر وقت میرا میڈیا ، انٹرنیٹ اور فیس بک سے واسطہ رہتا ہے ۔ جب بھی کسی گستاخ رسول صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں سنتا ہوں میرا خون کھول اٹھتا ہے ۔ جی چاہتا ہے سامنے ہو تو مار مار کر اس کا برا حال کر دوں ۔ میں اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کے چھوٹے چھوٹے واقعات جانتا ہوں اور میں کوئی ریسرچ سکالر نہیں ہوں ۔ میں سیرت نبی صلی الله علیہ وسلم پر کچھ لکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعریف میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رھے گا ۔بلکہ الله جل شانہ نے پوراقرآن اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعریف میں اتارا ہے ۔ میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں کے وہ میرے نبی کی شان کا حق ادا کر سکے ۔ لیکن میں گستاخ رسول صلی الله علیہ وسلم کا منہ توڑنے کی خواہش ضرور رکھتا ہوں ۔
میں اپنے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو اپنی جان ، اپنے مال ، اپنے ماں باپ اور دنیا کی ہر چیز سے عزیز رکھتا ہوں ۔ جب بھی کبھی ایسا موقع آیا کہ مجھے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے کھڑا ہونا پڑا تو میں اپنی جان حرمت نبی صلی الله علیہ وسلم پر قربان کر دوں گا ۔
ان شاء الله تعالی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں