نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قرآن مجید میں لفظ قرین کہاں کہاں آیا ہے؟

 خونی رشتوں کے علاوہ دوسرے انسانوں سے دوستی، تعلق ، میل جول ایک انسان کی فطرت میں شامل ہے کیونکہ انسان زندگی گزارنے کے لیے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے اور اکیلا نہیں رہ سکتا ۔اردو میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے، یعنی اگر اچھے دوست اور ساتھی ہوں تو اس میں اچھی عادات کا اثر زیادہ ہو گا اور اگر دوستیاں اور ساتھی برے ہوں تو اس پر برائی کا اثر غالب ہو گا۔ 

قرآن مجید میں جہاں نیک اور اچھے لوگوں کو اولیا ، صاحب اور منعم علیھم  کہا گیا ہے وہیں ایک لفظ قرین  بھی ساتھی کے لیے استعمال ہوا ہے اور متعدد بار آیا ہے۔

 جیسا کہ سورة النساء : آیت 38  میں شیطان کو برا ساتھی یا قرین کہا گیا ہے 

 

وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا


اردو:


اور جو خرچ بھی کریں تو اللہ کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے کو۔ اور ایمان نہ اللہ پر لائیں نہ روز آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہوا تو کچھ شک نہیں کہ وہ برا ساتھی ہے۔


سورة الصافات: آیت 51میں ایک جنتی کا بیان ہے وہ اپنے ساتھی کے بارے میں پوچھے گے جو جہنم میں ہو گا  اس کے لیے بھی قرین کا لفظ لایا گیا ہے۔


قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ


اردو:


ایک کہنے والا ان میں سے کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا۔


دیکھیے ! سورة الزخرف کی آیات 36 اور 38 میں بھی قرین کا لفظ برے ساتھی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ 


 

وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ


اردو:


اور جو کوئی رحمٰن کی یاد سے آنکھیں بند کر لے یعنی تغافل کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔


حَتَّى إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ


اردو:


یہاں تک کہ جب ہمارے پاس آئے گا تو اس شیطان سے کہے گا کہ اے کاش مجھ میں اور تجھ میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا تو برا ساتھی ہے۔


  سورة قٓ کی آیات 23 اور 27 میں بھی برے ساتھی کو قرین کہا گیا ہے۔


وَقَالَ قَرِينُهُ هَذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ


اردو:


اور اس کا ہم نشیں  کہے گا کہ یہ اعمال نامہ میرے پاس تیار ہے۔


قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِن كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ


اردو:


اس کا ساتھی شیطان کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اسکو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپ ہی رستے سے دور بھٹکا ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله کریم ہمیں شیطان اور برے ساتھیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...