نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حب الٰہی کے حصول کے دس امور

📌 قرآن مجید کی اس طرح تلاوت  کرنا کہ ہر لفظ کے معنی ، مفہوم اور اس کے تقاضوں پر غور و فکر اور تدبر کیا جائے ۔ 


📌 فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام تاکہ الله تعالی کا قُرب حاصل ہو ۔ یہ چیز آدمی کو درجہ بدرجہ الله تعالی کی محبت سے آگے بڑھ کر الله کا محبوب بنا دیتی ہے ۔ 


📌۔ ہر حال میں الله تبارک و تعالٰی کے ذکر کا اہتمام ، یہ ذکر زبان ۔ دل  ۔ عمل اور ہر حال و چیز سے ہو ۔ اس میں جتنی سرگرمی ہو گی اسی قدر محبت الٰہی میں آدمی کا حصہ ہوگا ۔ 


📌 اس امر کی کوشش کہ جب نفس کی خواہشات زور لگائیں تو انسان اپنی پسند چھوڑ کر الله کی پسند کو اختیار کرے ۔ یہ چڑھائی کتنی ہی ہمت آزما نظر آئے لیکن وہ ہمت نہ ہارے ۔ 


📌۔ دل الله سبحانہ تعالی کے اسماء و صفات کے مطالعہ ۔۔ ان کے اسرار کے مشاھدہ اور ان کی معرفت کے باغوں کی سیر میں مسلسل لگا رہے ۔ جو شخص الله تعالی کو اسکے اسماء و صفات اور اسکے افعال کی راہ سے پہچانے گا وہ لازماً اس سے محبت بھی کرے گا ۔ 


📌ہمیشہ الله تعالی کے افضال و حسنات اس کی شان اور کرشموں ۔ اسکی ظاہری و باطنی نعمتوں پر نگاہ رکھے ۔ یہ چیز خاص طور پر الله کی محبت پیدا کرنے والی ہے ۔ 


📌 اور سب سے بڑھ کر کہ الله تعالٰی کے حضور دل کو انتہائی عاجزی و انکساری کی حالت میں پیش کئے رکھنا ۔ 


📌 جو اوقات الله سبحانہ و تعالٰی کے آسمانِ دنیا پر نزول کے ہیں (یعنی رات کا آخری تہائی) ان میں اس سے مناجات ۔ اس کے کلام کی تلاوت ۔ طویل قیام کے ساتھ نماز اور آخر میں توبہ و استغفار پر اس کا اختتام 


📌 الله تعالٰی کے سچے دوستوں کی مجالس میں بیٹھنا اور ان  کی اچھی گفتگو کے ثمرات سمیٹنا اور خود اس وقت تک گفتگو نہ کرنا جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ اب بات کہنے میں ہی اپنے حال کی اصلاح اور دوسروں کی مصلحت ہے 


📌ان تمام اسباب و ذرائع سے اجتناب اختیار کرنا جن کی وجہ سے انسان کے دل اور اس کے رب کے درمیان دوری پیدا ہو ۔ 


*انہی اسباب سے محبت کرنے والوں کا گروہ محبت کی منزلیں طے کرکے اپنے محبوب تک پہنچتا ہے*


*محبت الٰہی جانچنے کی کسوٹی جس سے انسان اپنی روزمرّہ کی زندگی میں اپنے ایمان اور اپنی محبت کو جانچ سکتا ہے ۔۔۔ یعنی دوسروں کی محبت الله سبحانہ تعالی*

*کی محبت کے تابع ہو ۔ اس کے برابر یا اس سےبڑھ کر نہ ہو ۔*


اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَىَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...