قَالُوا ۔ أَ۔ تَجْعَلُ ۔ فِيهَا ۔ مَن ۔ يُفْسِدُ ۔ فِيهَا ۔
انہوں نے کہا ۔ کیا ۔ تُو بناتا ہے ۔ اس میں ۔ جو ۔ وہ فساد کرے گا ۔ اس میں
وَيَسْفِكُ ۔ الدِّمَاءَ ۔ وَنَحْنُ ۔ نُسَبِّحُ
اور وہ بہائے گا ۔ خون ۔ اور ہم ۔ ہم تسبیح بیان کرتے ہیں ۔
بِحَمْدِكَ ۔ وَنُقَدِّسُ ۔ لَكَ ط
تیری تعریف کے ساتھ ۔ اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں ۔ تیرے لئے
قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ط
انہوں نے کہا کیا تو اس میں اسے بناتا ہے جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری خوبیاں پڑھتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں ۔
یَسْفِکُ ۔ ( وہ بہائے ) ۔ یہ لفظ سفک سے نکلا ہے جس کے معنی خون بہانے کے ہیں ۔
اَلدِّمَاء ۔ ( خون ) یہ دم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں خون ۔
نُسَبِّحُ ۔ ( ہم تسبیح پڑھتے ہیں ) یہ لفظ تسبیح سے بنا ہے ۔ اس سے مراد ہے دل سے الله تعالی کو تمام مخلوق سے بالاتر سمجھنا ۔ اور زبان سے اس کا اقرار کرنا ۔ نیز اس کے مرتبے کے مطابق اس میں تمام اچھی صفتوں کا ماننا ۔
نُقَدِّسُ۔ ( ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں ) یہ لفظ تقدیس سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں پاکیزگی بیان کرنا اور الله تعالی کو تمام بُری صفات اور مخلوق کی صفات سے پاک و برتر سمجھنا ۔
جب فرشتوں نے الله جل شانہ سے خلیفہ بننے کا اعلان سُنا تو کہا ہم اپنے قول و فعل سے آپ کے مقدس اور پاک ہونے کا اقرار کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ زمین کی اس مخلوق سے فساد کا خطرہ ہے ۔ وہ دُنیا میں خونریزی کرے گا ۔ اور اس کی وجہ سے دُنیا تباہی اور بربادی کا گھر بن جائے گی ۔ کیونکہ وہ اپنی خواہش کی پیروی کرے گا ۔ اس سے پوری طرح تیری اطاعت نہ ہو سکے گی ۔
فرشتوں نے عرض کیا اے پروردگارِ عالم ! اگر خلیفہ پیدا کرنے کا یہ مقصد ہے کہ سب طرف تیری تعریف ہو ۔ سب کے سب تیری حمد کے گیت گائیں ۔ اور تیری اطاعت کریں ۔ تو ہم اس خدمت کے لئے حاضر ہیں ۔ ہم ہر وقت تیرا حکم سُننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ اس لئے زمین کی مخلوق پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیری ذات پاک ہے ۔ تیرا ہر کام ٹھیک ہے ۔ لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ زمینی مخلوق میں ایسی مخلوق کیسے ہو سکتی ہے ۔ جو تیری اطاعت اور فرمانبرداری اور تسبیح و تحمید کے لئے ہر وقت تیار رہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں