جزاء وسزا

مَالِکِ  ۔ یَوْمِ ۔ الدِّیْنِ 3⃣ط
مالک ۔ بدلہ ۔ دن ۔
مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 3⃣ط

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالی کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ کہ وہ بدلہ کی گھڑی کا مالک ہے ۔ آپ ان لفظوں کے معنی سمجھ لیجئے ۔
 مالک ۔۔۔ الله تعالی کی صفت ہے ۔ ہر عقلمند کے لئے یہ بات بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔ کہ کائنات کے ذرے ذرے کا حقیقی مالک الله تعالی ہے ۔ جس نے اس کو پیدا کیا ۔ بڑھایا ، تربیت کی اور جس کی ملکیت ہر چیز پر مکمل ہے ۔ وہ ظاہر کا بھی مالک ہے اور باطن کا بھی ۔ زندہ کابھی مالک ہے اور مُردہ کا بھی ۔ اور اسکی ملکیت ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی ۔ بخلاف انسان کی ملکیت کے کہ ہر حال میں محدود ہے ۔ پہلے نہیں تھی ۔ پھر نہیں رہے گی ۔ اس کے علاوہ اس کی ملکیت ظاہر پر ہے باطن پر نہیں ہے ۔ اگرچہ دنیا میں میں بھی حقیقی مالک تو الله جل شانہ ہی ہے ۔ لیکن اس نے اپنے کرم سے ایک ناقص ملکیت انسان کو بھی دے رکھی ہے ۔ 
آج کی دنیا میں انسان مال  ودولت کا مالک ہے ۔ زمین جائیداد کامالک ہے ۔ لیکن یہ عارضی ملکیت ہے ۔ کوئی حاکم یا قاضی کیسے ہی وسیع اختیارات رکھتا ہو ۔ بہر حال اسکے اختیارات محدود ہی ہوتے ہیں ۔ اور وہ مجرم کو قانون کے مطابق سزا دینے پر مجبور ہوتا ہے ۔  الله تعالی نے مالکِ یومِ الدین  سے بتایا ہے ۔ کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ جس میں کوئی کسی چیز کا ظاہری طور پر بھی مالک نہ رہے گا ۔ نہ کوئی خادم رہے گا ۔ نہ کوئی مخدوم ۔ نہ کوئی آقا رہے گا نہ غلام رہے گا ۔ تمام کائنات کامالک صرف اور صرف الله تعالی ہی ہو گا ۔جسے پورے پورے اختیارات حاصل ہوں گے ۔ چاہے تو وہ مجرم کو بخش دے ۔ چاہے تو سزا دے ۔ اُس پر کوئی حاکم نہیں ۔ 
دِیْن ۔۔۔ اس کے لفظی معنی جزا اور بدلہ کے ہیں ۔ اور قیامت کو روزِ جزا اسی لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ حساب اور بدلہ کا دن ہو گا ۔ روزِ جزا کا مالک ہونے سے مراد یہ ہے ۔ کہ اس روز اس کی صفتِ مالکیت کو بڑے سے بڑا کافر اور منکر بھی دیکھ لے گا ۔ اور کوئی حساب کتاب اور جزا وسزا سے بھاگ نہیں سکے گا ۔ 
دنیا میں جتنے بھی نبی آئے ۔ وہ سب کے سب لوگوں کو بتاتے رہے ۔ کہ ہر انسان اپنے کاموں کا خود ہی ذمّہ دار ہے ۔ اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اس سے اس کے کاموں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اور ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جائے گا ۔ یہ بدلہ اگرچہ دنیا میں بھی ملتا ہے مگر پورا پورا قیامت کو ہی ملے گا ۔ جبکہ زمین اور آسمان کی ہر چیز فنا ہو جائے گی ۔ تمام لوگ الله کے دربار میں جمع ہوں گے ۔ اُس روز اُسی کی بادشاہت ہو گی ۔ وہ لوگوں کے اچھے کاموں پر ثواب اور بُرے کاموں پر عذاب دے گا ۔ اُس روز کسی کو طاقت نہ ہو گی کہ اُس کے فیصلے کی نافرمانی کر سکے ۔ یا اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ۔ یا مجرم کو زبردستی چھڑا کر لے جائے ۔ یا کچھ معاوضہ دے کر نجات حاصل کر لے ۔ 
جو شخص اس روز  کامیاب ہوا ۔ وہ بہت خوش قسمت ہو گا ۔وہ عالیشان باغات اور محلوں میں آباد ہو گا ۔ اُس کے لئے قسم قسم کے میوے اور  شہد اور دودھ کی نہریں ہوں گی ۔ اس کے برعکس اس روز جو شخص نا کام رہا ۔ وہ بہت بد نصیب ہو گا ۔ دوزخ کی آگ کے شعلوں میں جھونکا جائے گا ۔ ( اللھم اجرنی من النار ) ۔
 اُس دن کی پریشانی اور عذاب سے بچنے کے لئے ہمیں اس دنیا میں تیاری کرنی چاہئے ۔ ہمیشہ ایسے کام کریں ۔ جن کا حکم الله تعالی اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے ۔ تاکہ قیامت کے روز ہمیں شرمساری نہ ہو ۔ جہنم کے ہولناک عذاب سے نجات حاصل ہو ۔ اور جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں حاصل ہوں  ۔۔ آمین ثمَّ آمین 

رحمٰن و رحیم

اَلرَّحْمٰنِ ۔                                             الرَّحِیمِ ۔ 2⃣
بہت زیادہ رحم کرنے والا ( اسم مبالغہ ) ۔  بہت بڑا مہربان  ( اسم مبالغہ )  ۔
اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ 2⃣ لا
جو نہایت رحم کرنے والا بہت مہربان ہے ۔ 
الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ ۔ یہ دونوں الله تعالی کی صفات ہیں ۔ رحمان کے معنی  عامُ الرّحمہ ( جس کی رحمت سارے عالم وکائنات پر حاوی اور شامل ہو ) ۔ اور رحیم کے معنی تام الرّحمہ ( جس کی رحمت کامل اور مکمل ہو )  ۔۔۔۔
رحمٰن ۔۔۔ یعنی بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے ۔ تو وہ جسمانی اور روحانی بلاؤں میں گرفتار ہوتا ہے ۔ اُسے سینکڑوں چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس دُنیا میں مومن وکافر ، اچھے بُرے سب رہتے ہیں ۔ انسان ، حیوان ، چرند پرند ، کیڑے  مکوڑے ، نباتات غرض جتنی بھی مخلوق جہاں جہاں موجود ہے ۔ سب کو الله تعالی کی رحمت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس لئے الله جل شانہ نے اپنی صفت رحمان بتائی ۔ یعنی وہ بلا تمیز اپنی تمام مخلوق پر رحمت برساتا ہے ۔ کسی کو اپنے انعامات سے محروم نہیں کرتا  اور بغیر مانگے نعمتیں عطا فرماتا ہے ۔
رَحِیْمٌ ۔۔۔ یعنی  بڑا مہربان ۔ اس لفظ سے اس نے بتایا  ۔ کہ الله تعالی لوگوں کو اُن کے حق سے بہت زیادہ عطافرماتا ہے ۔ جو اُس کے احکامات کی پیروی کریں گے ۔ اُن پر خاص انعامات فرمائے گا ۔  اس نام کو آخر میں لانے سے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ اس دُنیا کے بعد ایک دوسری دُنیا آئے گی ۔ اور جب ہم یہاں سے کوچ کر کے دوسرے جہان میں جائیں گے ۔ تو ہمارے ایمان اور عمل کے لحاظ سے ہم پر الله تعالی کی خاص رحمت کا ظہور ہو گا ۔  رحمان اسکی صفت ِ عام ہے ۔ اور رحیم اُس کی صفتِ خاص ہے ۔ 
رحمٰن ہونے کی صورت میں اُس نے ہماری ہر حاجت کو پورا کرنے کا سامان کر دیا ۔ زمین و آسمان پیدا کئے ۔ سورج ، چاند اور ستارے بنائے ۔ دریا اور سمندر بہائے ۔ جنگل پھیلائے اور پہاڑ کھڑے کئے ۔ نباتات اور جمادات ، حیوانات پیدا کئے ۔ اپنی رحمت کا سایہ والدین کے دل پر ڈالا ۔ کہ وہ اولاد سے بے غرض اور دلی محبت کرتے ہیں ۔ اولاد کو ہر طرح کا آرام پہنچاتے ہیں ۔ بہن بھائیوں میں محبت کا جذبہ رکھا ۔لوگوں میں انسانیت کا درد اور احساس پیدا کیا ۔ الله کے یہ انعام مسلمان  اور کافر سب کے لئے یکساں ہیں ۔ نیک اور بد کی کوئی تمیز نہیں ۔
رحیم۔ ہونے کی صورت میں الله تعالی ہمارے نیک کاموں کا اجر زیادہ سے زیادہ دیتا ہے ۔ اور اس دُنیا کے بعد بھی ہمیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لے گا ؟ اور جنت کا وارث بنائے گا ( ان شاء الله ) ۔ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے  بڑے بڑے نتائج پیدا فرماتا ہے ۔ معمولی معمولی نیکیوں کے اجر زیادہ سے زیادہ دے گا ۔ 
الله جلَّ شانُہ کی ان صفتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے ۔ کہ ہم بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں ۔ اُن کی جو ضرورت ہم پوری کر سکتے ہوں ۔ اُن کی مدد کریں ۔ اور اُن کی لغزشوں سے درگزر کریں ۔ تاکہ دنیا میں الله تعالی کی ان صفات کا اظہار ہو ۔ اور اس کی مخلوق راحت حاصل کرے  ۔۔۔۔
 مسئلہ ۔۔۔۔۔ لفظ رحمان الله جلّ شانہ کی ذات کے ساتھ  مخصوص ہے ۔ لفظ الله کی طرح اسکا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ  رحمان ایک ہی ذات کے لئے مخصوص ہے ، دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال ہی نہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آجکل عبد الر حمٰن ، فضل الرحمٰن  وغیرہ ناموں کو مختصر کر کے رحمٰن کہتے ہیں یہ نا جائز اور گناہ ہے ۔ البتہ لفظ رحیم انسان کے لئے بھی بولا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں  ۔ ہو سکتا ہے کوئی شخص دوسرے سے پوری رحمت کا معاملہ کرے ۔ الله تعالی نے قرآن کریم میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ 
بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ماْخذ ۔۔۔۔
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتّبہ درسِ قرآن  بورڈ
معارف القرآن ۔۔۔۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ الله علیہ

رَبُّ العٰلمین ۔۔۔۔۔۔

اَلْحَمْدُ ۔ لِلهِ ۔ رَبِّ ۔ الْعٰلَمِیْنَ   1⃣لا
تمام تعریفیں ۔ الله تعالی کے لئے ۔ رب ۔ تمام جہانوں کا ۔
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔1⃣لا
تمام تعریفیں الله تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ 

اس آیہ مبارکہ میں چند لفظ آئے ہیں ۔ پہلے آپ انکا مطلب سمجھ لیجئے ۔ 
اَلْحَمْدُ۔ ۔۔۔( ال ۔ تمام  ،  حمد ۔ تعریفیں  ۔ خوبیاں )  عربی زبان میں ال تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ۔ تمام ۔۔ خاص ۔۔ جو ۔۔یہاں پہلے ( تمام ) معنوں میں آیا ہے ۔ حمد سے مراد تعریف اور خوبی ہے ۔ جو مدح اور شُکر سے بلند تر ہے ۔ 
الله ۔۔ الله تعالی کا اسم ِ ذات ہے ۔ کسی اورکے لئے اسکا استعمال نہیں ہو سکتا ۔ نہ کبھی الله کے سوا کسی اور کے لئے استعمال ہوا ہے ۔  یہ کسی اور لفظ سے نہیں بنا ۔ یہ نام اسکی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے ۔ 
رب ۔۔ سے مراد وہ ذاتِ باری تعالی ہے ۔ جس نے سب چیزوں کو وجود عطا کیا ۔ پھر ایک حال سے دوسری حالت کی طرف ترقی دی ۔ یہاں تک کہ درجہء کمال تک پہنچا دیا ۔ رب کے معنی عربی زبان میں تربیت اور پرورش کرنے والا  کے ہیں ۔ یہ لفظ الله تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے ۔ مخلوق میں سے کسی کو رب کہنا جائز نہیں ۔ 
عَالَمِیْنَ ۔۔ سے مراد ہے تمام خلقت ۔ تمام موجودات ۔ تمام جماعتیں اور تمام جہان ۔  عالمین کا واحد عالَم ہے 
اس آیہ مبارکہ میں الله تعالی کی پہچان کرائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حمد وثنا درحقیقت الله تعالی ہی کے لئے ہے ۔ اگر کوئی حاکم انصاف کرتا ہے ۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ الله تعالی نے صفتِ عدل اس کے اندر رکھ دی ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں اگر شفا ہے ۔ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ الله تعالی نے اسے یہ کمال عطا کر دیا ہے ۔ کوئی حسین اور خوبصورت ہے یا کسی کی عادت پاکیزہ ہے ۔ تو اس کے لئے بھی صفت و ستائش  کی اصل حقدار الله تعالی کی ذات ہے ۔ کیونکہ یہ اُسی کا عطیہ ہے 
اس سے معلوم ہوا الحمد لله اگرچہ حمد وثنا کے لئے لایا گیا ہے لیکن اس سے مخلوق پرستی کی بنیاد ختم کر دی گئی ہے ۔ اور دل نشیں طریق پر توحید کی تعلیم دی گئی ہے ۔ غور کیجئے کہ سورۃ الفاتحہ کے اس مختصر سے ابتدائی جملے میں ایک طرف تو حق تعالی کی حمد و ثنا کا بیان ہے اسی کے ساتھ دُنیا کی رنگینیوں میں اُلجھے ہوئے دل ودماغ کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر کے مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ اور رب العٰلمین سے دلیل دی کہ جب تمام کائنات کی تربیت وپرورش کی ذمہ دار صرف ایک ذات الله تعالی کی ہے تو حمد وثنا کی اصل مستحق بھی وہی ذات ہے
اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلام کا الٰہ کسی مخصوص نسل ، کسی مخصوص قوم یا قبیلے کا خُدا نہیں ۔ اسلام سے قبل جتنے مذہب موجود تھے ۔ وہ اس وسیع تصور سے واقف نہ تھے ۔ ہر قوم اللہ کو صرف اپنا خُدا سمجھتی تھی ۔ بنی اسرائیل جیسی توحید پرست قوم بھی  الله کو صرف اپنا خُدا سمجھتی تھی ۔ مگر قُرآن کریم نے ان تمام غلط عقیدوں کو مٹا دیا ۔ اور بتایا کہ اس کائنات کے ہر ذرّہ اور ہر چیز کا رب  صرف الله تعالی ہی ہے 
ہمیں اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے ۔ کہ ہم تمام انسانوں کی خدمت کریں ۔ انسانوں کے علاوہ حیوانات سے بھی ہمدردی رکھیں  ۔ کسی کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں 
ہمارا  تصور محدود نہیں ۔ بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں ۔ کہ ہمارا الله سارے جہانوں کا رب ہے ۔ وہ صرف انسانوں کا نہیں بلکہ ساری مخلوق کا پروردگار  ہے ۔ صرف اس دنیا کا نہیں بلکہ سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ  درس قرآن بورڈ 

سورۃفاتحہ ۔۔۔۔ تعارف

سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورۃ ہے ۔ ہم اسکے متعلق چند ضروری باتیں بیان کرتے ہیں ۔
یہ مکّی سورۃ ہے ۔ فاتحہ کے معنی ہیں ابتداء کرنے والی ۔ یہ سورۃ قرآن مجید کے شروع میں آئی ہے اس لئے اسے الفاتحہ کہتے ہیں ۔ گویا یہ قرآن مجید کا دیباچہ ہے ۔ اس کا نام آنحضرت علیہ الصلٰوۃُ والسلام نےخود تجویز فرمایا ۔ اس کے اور بھی کئی نام ہیں ۔ مثلاً سورۃُ الشفاء ۔ کہ اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفا حاصل ہوتی ہے ۔
اُمُّ القرآن ۔ کہ یہ قرآن مجید کی اصل ہے ۔ اور قرآن مجید کے سب علوم اس میں جمع ہیں ۔ 
تعلیم المسئلۃ ۔ کہ اس میں الله تعالی نے بندوں کو سوال کرنا سکھایا ہے ۔
السّبعُ المَثانی ۔ کہ اس کی سات آیات ہیں اور وہ بار بار پڑھی جاتی ہیں ۔
سورۃ الحمدِ ۔ کہ اس میں الله تعالی کی تعریف ہے ۔ اسی طرح الکافیہ ۔ کفائت کرنے والی۔ الکنز  ۔ خزانہ  ۔ الاساس ۔ بنیاد اور الصَّلٰوۃ وغیرہ بھی اس کے نام ہیں ۔ جن سے اس سورۃ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ 
اس سورۃ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ یہ نماز میں باربار پڑھی جاتی ہے ۔ الفاظ کے اعتبار سے گو مختصر ہے مگر مضامین اور معنی کے لحاظ سے گویا دریا کوزے میں بند ہے ۔ 
اگر ہم قرآن حکیم کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہیں گے کہ قرآن کریم میں تین مضمون بیان کئے گئے ہیں ۔ اور ان کا بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔ 
اوّل ۔۔۔ یہ کہ زمین وآسمان اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ تعالٰی ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ واحد ہے اور تمام چیزوں کی وہی نگہبانی اور پرورش کرتا ہے ۔
دوم ۔۔۔ یہ کہ ہر انسان اپنے کاموں کا خود ذمّہ دار ہے ۔ اور قیامت کے روز تمام لوگوں کو الله تعالی کے دربار میں حاضر ہونا ہے ۔جہاں اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی ۔ اور انہی کے مطابق جزاء اور سزا دی جائی گی ۔ 
سوم ۔۔۔ یہ کہ دنیا کے ہر مُلک اور قوم میں الله تعالی کی طرف سے رسول بھیجے گئے ہیں ۔ جو لوگوں کو سیدھی اور غلط راہ میں فرق بتلاتے رہے اور نیکی کی ہدایت کرتے رہے ۔ 
قرآن مجید کے یہ تینوں مضامین سورۂ فاتحہ میں چند جملوں میں بیان کر دئے گئے ہیں ۔
جناب ابی سعد بن معلٰی رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ۔ کہ دیکھو میں تمہیں مسجد سے باہر جانے سے پہلے قرآن مجید کی ایک اہم سورۃ بتاؤں گا۔ آپ میرا ہاتھ پکڑ کر چلے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ سورۃ الحمد ہے ۔ جس کی سات آئتیں ہیں ۔ اور وہ بہت بڑا ورد ہے جو مجھے عطا ہوا ہے ۔
جناب عبد الله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام حاضر تھے ۔ کہ ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور کہا کہ یا رسول الله خوشخبری ہو آپ کو الله تعالی نے دو نور عطا فرمائے ہیں ۔ جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے ۔ایک سورۃ الفاتحہ اور دوسرا سورۂ بقرہ ۔ 
آپ نے دیکھا یہ سورۃ کس قدر فضیلت والی ہے ۔ گویا سارے قرآن مجید کا خلاصہ ہے ۔ اس سورۃ کو خاص توجّہ اور غور کے ساتھ پڑھنے ، سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے و عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ الله جلَّ شانُہُ ہم سب کو توفیق بخشے ۔ آمین 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیُمِ

بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ  قرآن مجید میں سورۃ نمل کی آیۃ کا حصہ ہے ۔ اور ہر دو سورتوں کے درمین مستقل آیۃ ہے ۔ اسلئے اسکا احترام قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے ۔ اسکو بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ اور جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں اسکو بطورِ تلاوت پڑھنا پاک ہونے سے پہلے جائز نہیں ۔ 
ہاں اگر کسی کام کے شروع میں  جیسے کھانے پینے سے پہلے بطورِ دُعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے 

تعوّذ کے احکام و مسائل ۔۔۔۔۔۔

تعوّ،ذ کے معنی ہیں ۔۔۔ اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔۔۔ پڑھنا ۔ 
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالٰی ہے ۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ۔ یعنی جب تم قرآن پڑھنے لگو تو الله تعالٰی کی پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے۔ 
تلاوتِ قرآن مجید سے پہلے تعوّذ پڑھنا باجماعِ امت  " سنت " ہے خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا باہر  ۔  تعوذ پڑھنا تلاوتِ قرآن  کے ساتھ مخصوص ہے ۔ علاوہ تلاوت دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم الله  پڑھی جائے گی ۔ تعوذ مسنون نہیں  
اوّل۔۔۔ جب قرُان مجید کی تلاوت شروع کی جائے تو اس وقت اعوذ بالله اور بسم الله دونوں پڑھی جائیں 
دوم ۔۔۔ تلاوتِ قرآن مجید کے درمیان میں جب ایک سورۃ ختم ہو کر دوسری سورۃ شروع ہو تو سورۃ توبہ کے علاوہ ہر سورۃ کے شروع میں دوبارہ  بسم الله پڑھی جائے ۔
سوم ۔۔۔  اگر قرآن مجید کی تلاوت سورۃ توبہ ہی سے شروع کر رہے ہوں تو اس کے شروع میں اعوذ بالله اور بسم الله پڑھنی چاہئی  

بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ۔۔۔۔۔۔۔تسمیہ۔۔۔۔۔

ب ۔ اسم ۔ الله ۔ الرَّحمٰنِ ۔ الرَّحیمِ ۔
ساتھ ۔ نام ۔ الله  ۔ بہت مہربان ۔ نہایت رحم کرنے والا۔ 
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  
الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ 

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں ۔ اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔ 
اَللهُ ۔۔۔۔
 الله ایسا نام ہے جو صرف اُسی کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کسی اور کو اس نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ اسے اسم ذات کہتے ہیں ۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ الله واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔ الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ۔زمین بھی اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور آسمان بھی ۔ دریا ، پہاڑ ، نباتات، جمادات ، چاند ، سورج غرض ہر چیز اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ پرندے اُسی کے حکم سے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کی پیداوار اُگاتا ہے ۔ 
رَحْمٰنٌ ۔۔۔۔ ( بہت مہربان )  الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کس مخلوق کو  رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔  یہ اسکی رحمتِ عامہ کا اظہار ہے ۔ کہ وہ سب پر یکساں رحمت فرماتا ہے ۔ اسکی ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور دوسری مہربانیاں  انسان وجانور ، نیک و بد ، کافر و مسلم پر یکساں ہوتی ہیں ۔ اور وہ بن مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔ 
رَحِیْمٌ ۔۔۔۔ ( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وُہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام فرماتا ہے ۔ ایک نیکی کے بدلہ میں ستّر بلند درجے بخشتا ہے ۔ 
 حدیث مبارکہ ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔ 
جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے ۔ کہ میرا دل بالکل پاک ہے ۔ میری نیت میں پورا خلوص ہے ۔ میرا مقصد اعلٰی ہے ۔ میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے ۔ تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ ہمت نہ ہارنی چاہئے ۔ اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہ ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے ۔ تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے ۔ اسی لئے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے ۔ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہ ہو گی ۔ اور اس سے دل کو اطمینان نہ ہو گا ۔ 
ہم درسِ قرآن کی ابتداء اسی کے نام سے کرتے ہیں ۔ اس کی مدد یقیناً ہمارے ساتھ ہو گی اور ہم اپنی زندگی و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ
     میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود 
     اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ 
میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے

اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت تک کے لئے اس پر لعنت کی گئی ۔ 
اب شیطان نے اپنی اس ذلّت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔ سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور اُن کی بیوی کو بہکا کر جنّت سے نکلوا دیا ۔ اور اُس نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ میں قیامت تک آدم کی اولاد کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان ہمارا مستقل دشمن ہے ۔ اس لئے الله تعالٰی نے ہمیں حکم دیا کہ اس طرح الله کے حضور میں دُعا کریں ۔ 
" اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتی/ مانگتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے ۔ اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتی / مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان میرے پاس بھی آئے " 
پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ شیطان تمہارے رگ و ریشہ میں اس طرح اثر کرتا ہے ۔ جس طرح کہ خون تمام جسم میں دوڑتا ہے ۔ شیطان آدمی کو دیکھتا ہے مگر آدمی شیطان کو نہیں دیکھ سکتا ۔ نہ اس کے حملہ سے آسانی کے ساتھ بچاؤ کر سکتا ہے ۔ اس لئے ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیطان کے اثر سے پناہ مانگے ۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے ۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ 
یعنی جب تم قراٰن کی تلاوت کرنے لگو تو الله تعالٰی سے پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے 
  قراٰن مجید کی تلاوت کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ تلاوت کی ابتداء میں 
 اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ 
پڑھا جائے ۔ تاکہ الله جلَّ شانُہ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے ۔ اور اس نیک کام میں شیطان کو بہلانےاور پھسلانے کا موقعہ نہ ملے۔
اٰیات کی غلط تاویل سے معنوں کی حقیقت بدل جاتی ہے ۔ الله تعالٰی ہمیں ہر قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔۔

سورہ القیامہ میں نماز قائم کرنے کا حکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں۔
وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں کہ سب لوگ اٹھا کر کھڑے کئے جائیں گے۔
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اسکی بکھری ہوئی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟
بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کریں گے اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اسکی پور پور درست کر دیں۔
بَلْ يُرِيدُ الْإِنسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر انسان چاہتا ہے کہ آئندہ بھی خودسری کرتا چلا جائے۔
يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہو گا؟
فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سو جب آنکھیں چندھیا جائیں۔
وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چاند گہنا جائے۔
وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں۔
يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دن انسان کہے گا کہ کہاں ہے بھاگنے کی جگہ۔
كَلَّا لَا وَزَرَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں نہیں کوئی جائے پناہ نہیں۔
إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس روز تمہارے پروردگار ہی کے پاس تمہیں جا ٹھہرنا ہے۔
يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس دن انسان کو جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ہوں گے سب بتا دیئے جائیں گے۔
بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بلکہ انسان آپ اپنا گواہ ہے۔
وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اگرچہ عذر و معذرت کرتا رہے۔
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور اے پیغمبر ﷺ وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان کو تیز تیز حرکت نہ دیا کرو کہ اس کو جلد سیکھ لو۔
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سو جب ہم اسے پڑھا کریں تو تم اسکو سنا کرو اور پھر اسی طرح پڑھا کرو۔
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔۔۔۔۔۔۔۔   پھر اسکے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔
كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ۔۔۔۔۔۔   مگر لوگو تم دنیا کو دوست رکھتے ہو۔
وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ۔۔۔۔۔۔۔  اور آخرت کو چھوڑے دیتے ہو۔
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اس روز بعض چہرے رونق دار ہوں گے۔
إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اپنے پروردگار کی طرف نظر کئے ہوں گے۔
وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ۔۔۔۔۔۔  اور بہت سے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔
تَظُنُّ أَن يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خیال کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ کیا جائے گا۔
كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ہاں جب جان گلے تک پہنچ جائے۔
وَقِيلَ مَنْ  رَاقٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور لوگ کہنے لگیں اس وقت کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے۔
وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اور اس جان بلب نے سمجھا کہ اب جدائی کا وقت ہے۔
وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے۔
إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف کھنچے چلے چلنا ہے۔
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ایسے مغرور نے نہ تو پیغمبر ﷺ کو سچا جانا اور نہ نماز پڑھی۔
وَلَكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لیکن جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔
ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   پھر اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا۔
أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خرابی ہے تیری خرابی پر خرابی ہے۔
ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پھر خرابی ہے تیری خرابی پر خرابی ہے۔
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کیا انسان خیال یہ کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟
أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   کیا وہ منی کا جو ٹپکائی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟
ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پھر لوتھڑا ہوا پھر اللہ نے اسکو بنایا۔ سو اسکے اعضاء کو درست کیا۔
فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس کی دو قسمیں بنائیں مرد اور عورت۔
أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کیا اسکو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے۔
سورہ القیامہ 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں