جزاء وسزا

مَالِکِ  ۔ یَوْمِ ۔ الدِّیْنِ 3⃣ط
مالک ۔ بدلہ ۔ دن ۔
مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 3⃣ط

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالی کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ کہ وہ بدلہ کی گھڑی کا مالک ہے ۔ آپ ان لفظوں کے معنی سمجھ لیجئے ۔
 مالک ۔۔۔ الله تعالی کی صفت ہے ۔ ہر عقلمند کے لئے یہ بات بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔ کہ کائنات کے ذرے ذرے کا حقیقی مالک الله تعالی ہے ۔ جس نے اس کو پیدا کیا ۔ بڑھایا ، تربیت کی اور جس کی ملکیت ہر چیز پر مکمل ہے ۔ وہ ظاہر کا بھی مالک ہے اور باطن کا بھی ۔ زندہ کابھی مالک ہے اور مُردہ کا بھی ۔ اور اسکی ملکیت ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی ۔ بخلاف انسان کی ملکیت کے کہ ہر حال میں محدود ہے ۔ پہلے نہیں تھی ۔ پھر نہیں رہے گی ۔ اس کے علاوہ اس کی ملکیت ظاہر پر ہے باطن پر نہیں ہے ۔ اگرچہ دنیا میں میں بھی حقیقی مالک تو الله جل شانہ ہی ہے ۔ لیکن اس نے اپنے کرم سے ایک ناقص ملکیت انسان کو بھی دے رکھی ہے ۔ 
آج کی دنیا میں انسان مال  ودولت کا مالک ہے ۔ زمین جائیداد کامالک ہے ۔ لیکن یہ عارضی ملکیت ہے ۔ کوئی حاکم یا قاضی کیسے ہی وسیع اختیارات رکھتا ہو ۔ بہر حال اسکے اختیارات محدود ہی ہوتے ہیں ۔ اور وہ مجرم کو قانون کے مطابق سزا دینے پر مجبور ہوتا ہے ۔  الله تعالی نے مالکِ یومِ الدین  سے بتایا ہے ۔ کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ جس میں کوئی کسی چیز کا ظاہری طور پر بھی مالک نہ رہے گا ۔ نہ کوئی خادم رہے گا ۔ نہ کوئی مخدوم ۔ نہ کوئی آقا رہے گا نہ غلام رہے گا ۔ تمام کائنات کامالک صرف اور صرف الله تعالی ہی ہو گا ۔جسے پورے پورے اختیارات حاصل ہوں گے ۔ چاہے تو وہ مجرم کو بخش دے ۔ چاہے تو سزا دے ۔ اُس پر کوئی حاکم نہیں ۔ 
دِیْن ۔۔۔ اس کے لفظی معنی جزا اور بدلہ کے ہیں ۔ اور قیامت کو روزِ جزا اسی لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ حساب اور بدلہ کا دن ہو گا ۔ روزِ جزا کا مالک ہونے سے مراد یہ ہے ۔ کہ اس روز اس کی صفتِ مالکیت کو بڑے سے بڑا کافر اور منکر بھی دیکھ لے گا ۔ اور کوئی حساب کتاب اور جزا وسزا سے بھاگ نہیں سکے گا ۔ 
دنیا میں جتنے بھی نبی آئے ۔ وہ سب کے سب لوگوں کو بتاتے رہے ۔ کہ ہر انسان اپنے کاموں کا خود ہی ذمّہ دار ہے ۔ اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اس سے اس کے کاموں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اور ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جائے گا ۔ یہ بدلہ اگرچہ دنیا میں بھی ملتا ہے مگر پورا پورا قیامت کو ہی ملے گا ۔ جبکہ زمین اور آسمان کی ہر چیز فنا ہو جائے گی ۔ تمام لوگ الله کے دربار میں جمع ہوں گے ۔ اُس روز اُسی کی بادشاہت ہو گی ۔ وہ لوگوں کے اچھے کاموں پر ثواب اور بُرے کاموں پر عذاب دے گا ۔ اُس روز کسی کو طاقت نہ ہو گی کہ اُس کے فیصلے کی نافرمانی کر سکے ۔ یا اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ۔ یا مجرم کو زبردستی چھڑا کر لے جائے ۔ یا کچھ معاوضہ دے کر نجات حاصل کر لے ۔ 
جو شخص اس روز  کامیاب ہوا ۔ وہ بہت خوش قسمت ہو گا ۔وہ عالیشان باغات اور محلوں میں آباد ہو گا ۔ اُس کے لئے قسم قسم کے میوے اور  شہد اور دودھ کی نہریں ہوں گی ۔ اس کے برعکس اس روز جو شخص نا کام رہا ۔ وہ بہت بد نصیب ہو گا ۔ دوزخ کی آگ کے شعلوں میں جھونکا جائے گا ۔ ( اللھم اجرنی من النار ) ۔
 اُس دن کی پریشانی اور عذاب سے بچنے کے لئے ہمیں اس دنیا میں تیاری کرنی چاہئے ۔ ہمیشہ ایسے کام کریں ۔ جن کا حکم الله تعالی اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے ۔ تاکہ قیامت کے روز ہمیں شرمساری نہ ہو ۔ جہنم کے ہولناک عذاب سے نجات حاصل ہو ۔ اور جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں حاصل ہوں  ۔۔ آمین ثمَّ آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں