نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رَبُّ العٰلمین ۔۔۔۔۔۔

اَلْحَمْدُ ۔ لِلهِ ۔ رَبِّ ۔ الْعٰلَمِیْنَ   1⃣لا
تمام تعریفیں ۔ الله تعالی کے لئے ۔ رب ۔ تمام جہانوں کا ۔
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔1⃣لا
تمام تعریفیں الله تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ 

اس آیہ مبارکہ میں چند لفظ آئے ہیں ۔ پہلے آپ انکا مطلب سمجھ لیجئے ۔ 
اَلْحَمْدُ۔ ۔۔۔( ال ۔ تمام  ،  حمد ۔ تعریفیں  ۔ خوبیاں )  عربی زبان میں ال تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ۔ تمام ۔۔ خاص ۔۔ جو ۔۔یہاں پہلے ( تمام ) معنوں میں آیا ہے ۔ حمد سے مراد تعریف اور خوبی ہے ۔ جو مدح اور شُکر سے بلند تر ہے ۔ 
الله ۔۔ الله تعالی کا اسم ِ ذات ہے ۔ کسی اورکے لئے اسکا استعمال نہیں ہو سکتا ۔ نہ کبھی الله کے سوا کسی اور کے لئے استعمال ہوا ہے ۔  یہ کسی اور لفظ سے نہیں بنا ۔ یہ نام اسکی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے ۔ 
رب ۔۔ سے مراد وہ ذاتِ باری تعالی ہے ۔ جس نے سب چیزوں کو وجود عطا کیا ۔ پھر ایک حال سے دوسری حالت کی طرف ترقی دی ۔ یہاں تک کہ درجہء کمال تک پہنچا دیا ۔ رب کے معنی عربی زبان میں تربیت اور پرورش کرنے والا  کے ہیں ۔ یہ لفظ الله تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے ۔ مخلوق میں سے کسی کو رب کہنا جائز نہیں ۔ 
عَالَمِیْنَ ۔۔ سے مراد ہے تمام خلقت ۔ تمام موجودات ۔ تمام جماعتیں اور تمام جہان ۔  عالمین کا واحد عالَم ہے 
اس آیہ مبارکہ میں الله تعالی کی پہچان کرائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حمد وثنا درحقیقت الله تعالی ہی کے لئے ہے ۔ اگر کوئی حاکم انصاف کرتا ہے ۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ الله تعالی نے صفتِ عدل اس کے اندر رکھ دی ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں اگر شفا ہے ۔ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ الله تعالی نے اسے یہ کمال عطا کر دیا ہے ۔ کوئی حسین اور خوبصورت ہے یا کسی کی عادت پاکیزہ ہے ۔ تو اس کے لئے بھی صفت و ستائش  کی اصل حقدار الله تعالی کی ذات ہے ۔ کیونکہ یہ اُسی کا عطیہ ہے 
اس سے معلوم ہوا الحمد لله اگرچہ حمد وثنا کے لئے لایا گیا ہے لیکن اس سے مخلوق پرستی کی بنیاد ختم کر دی گئی ہے ۔ اور دل نشیں طریق پر توحید کی تعلیم دی گئی ہے ۔ غور کیجئے کہ سورۃ الفاتحہ کے اس مختصر سے ابتدائی جملے میں ایک طرف تو حق تعالی کی حمد و ثنا کا بیان ہے اسی کے ساتھ دُنیا کی رنگینیوں میں اُلجھے ہوئے دل ودماغ کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر کے مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ اور رب العٰلمین سے دلیل دی کہ جب تمام کائنات کی تربیت وپرورش کی ذمہ دار صرف ایک ذات الله تعالی کی ہے تو حمد وثنا کی اصل مستحق بھی وہی ذات ہے
اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلام کا الٰہ کسی مخصوص نسل ، کسی مخصوص قوم یا قبیلے کا خُدا نہیں ۔ اسلام سے قبل جتنے مذہب موجود تھے ۔ وہ اس وسیع تصور سے واقف نہ تھے ۔ ہر قوم اللہ کو صرف اپنا خُدا سمجھتی تھی ۔ بنی اسرائیل جیسی توحید پرست قوم بھی  الله کو صرف اپنا خُدا سمجھتی تھی ۔ مگر قُرآن کریم نے ان تمام غلط عقیدوں کو مٹا دیا ۔ اور بتایا کہ اس کائنات کے ہر ذرّہ اور ہر چیز کا رب  صرف الله تعالی ہی ہے 
ہمیں اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے ۔ کہ ہم تمام انسانوں کی خدمت کریں ۔ انسانوں کے علاوہ حیوانات سے بھی ہمدردی رکھیں  ۔ کسی کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں 
ہمارا  تصور محدود نہیں ۔ بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں ۔ کہ ہمارا الله سارے جہانوں کا رب ہے ۔ وہ صرف انسانوں کا نہیں بلکہ ساری مخلوق کا پروردگار  ہے ۔ صرف اس دنیا کا نہیں بلکہ سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ  درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...