نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃفاتحہ ۔۔۔۔ تعارف

سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورۃ ہے ۔ ہم اسکے متعلق چند ضروری باتیں بیان کرتے ہیں ۔
یہ مکّی سورۃ ہے ۔ فاتحہ کے معنی ہیں ابتداء کرنے والی ۔ یہ سورۃ قرآن مجید کے شروع میں آئی ہے اس لئے اسے الفاتحہ کہتے ہیں ۔ گویا یہ قرآن مجید کا دیباچہ ہے ۔ اس کا نام آنحضرت علیہ الصلٰوۃُ والسلام نےخود تجویز فرمایا ۔ اس کے اور بھی کئی نام ہیں ۔ مثلاً سورۃُ الشفاء ۔ کہ اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفا حاصل ہوتی ہے ۔
اُمُّ القرآن ۔ کہ یہ قرآن مجید کی اصل ہے ۔ اور قرآن مجید کے سب علوم اس میں جمع ہیں ۔ 
تعلیم المسئلۃ ۔ کہ اس میں الله تعالی نے بندوں کو سوال کرنا سکھایا ہے ۔
السّبعُ المَثانی ۔ کہ اس کی سات آیات ہیں اور وہ بار بار پڑھی جاتی ہیں ۔
سورۃ الحمدِ ۔ کہ اس میں الله تعالی کی تعریف ہے ۔ اسی طرح الکافیہ ۔ کفائت کرنے والی۔ الکنز  ۔ خزانہ  ۔ الاساس ۔ بنیاد اور الصَّلٰوۃ وغیرہ بھی اس کے نام ہیں ۔ جن سے اس سورۃ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ 
اس سورۃ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ یہ نماز میں باربار پڑھی جاتی ہے ۔ الفاظ کے اعتبار سے گو مختصر ہے مگر مضامین اور معنی کے لحاظ سے گویا دریا کوزے میں بند ہے ۔ 
اگر ہم قرآن حکیم کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہیں گے کہ قرآن کریم میں تین مضمون بیان کئے گئے ہیں ۔ اور ان کا بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔ 
اوّل ۔۔۔ یہ کہ زمین وآسمان اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ تعالٰی ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ واحد ہے اور تمام چیزوں کی وہی نگہبانی اور پرورش کرتا ہے ۔
دوم ۔۔۔ یہ کہ ہر انسان اپنے کاموں کا خود ذمّہ دار ہے ۔ اور قیامت کے روز تمام لوگوں کو الله تعالی کے دربار میں حاضر ہونا ہے ۔جہاں اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی ۔ اور انہی کے مطابق جزاء اور سزا دی جائی گی ۔ 
سوم ۔۔۔ یہ کہ دنیا کے ہر مُلک اور قوم میں الله تعالی کی طرف سے رسول بھیجے گئے ہیں ۔ جو لوگوں کو سیدھی اور غلط راہ میں فرق بتلاتے رہے اور نیکی کی ہدایت کرتے رہے ۔ 
قرآن مجید کے یہ تینوں مضامین سورۂ فاتحہ میں چند جملوں میں بیان کر دئے گئے ہیں ۔
جناب ابی سعد بن معلٰی رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ۔ کہ دیکھو میں تمہیں مسجد سے باہر جانے سے پہلے قرآن مجید کی ایک اہم سورۃ بتاؤں گا۔ آپ میرا ہاتھ پکڑ کر چلے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ سورۃ الحمد ہے ۔ جس کی سات آئتیں ہیں ۔ اور وہ بہت بڑا ورد ہے جو مجھے عطا ہوا ہے ۔
جناب عبد الله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام حاضر تھے ۔ کہ ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور کہا کہ یا رسول الله خوشخبری ہو آپ کو الله تعالی نے دو نور عطا فرمائے ہیں ۔ جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے ۔ایک سورۃ الفاتحہ اور دوسرا سورۂ بقرہ ۔ 
آپ نے دیکھا یہ سورۃ کس قدر فضیلت والی ہے ۔ گویا سارے قرآن مجید کا خلاصہ ہے ۔ اس سورۃ کو خاص توجّہ اور غور کے ساتھ پڑھنے ، سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے و عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ الله جلَّ شانُہُ ہم سب کو توفیق بخشے ۔ آمین 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...