*دُعا کی دو شرطیں*


فَلْیَسْتَجِیْبُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔   لِیْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلْیُؤْمِنُوا 
تو چاہئیے کہ وہ حکم مانیں ۔۔۔ میرا ۔۔۔ اور چاہئیے کہ وہ ایمان لائیں 
 بِیْ ۔۔۔ لَعَلَّھُمْ ۔۔۔ یَرْشُدُوْنَ۔ 1️⃣8️⃣6️⃣
 مجھ پر ۔۔۔ تاکہ وہ ۔۔۔ ھدایت پائیں ۔

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلّھُمْ یَرْشُدُوْنَ 1️⃣8️⃣6️⃣
تو چاہئیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ نیک راہ پر آئیں ۔ 

اس سے پہلے بیان کیا گیا تھا کہ الله سبحانہ تعالی انسانوں سے بہت قریب ہے ۔ وہ ان کے حالات سے سب سے زیادہ واقف ھے ۔ ان کی حاجات سے آگاہ ھے ۔ ان کی مصلحتوں کو جانتا ھے ۔ ان کی فلاح و بہبود چاہتا ہے ان کی پکار کو سنتا ھے ۔ ان کی دعا قبول کرتا ھے ۔ اور ان کے ساتھ نہایت شفقت اور مہربانی سے پیش آتا ھے ۔ 
آیت کے اس حصے میں الله جل شانہ نے دُعا کی قبولیت کی دو بنیادی شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ 

۱- فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ

وہ میرا حکم مانیں ۔۔۔ جواب ، مستجاب ، اجابت وغیرہ لفظ اسی مادہ سے ہیں ۔ قبول کرنا اور مان لینا اس کے معنٰی میں شامل ھے ۔ دعا کی شرط اوّل یہ ہے کہ دعا کرنے والا الله تعالی کے بتلائے ہوئے طریقوں اس کی ہدایتوں اور حکموں کو مانتا ہے ۔ 

۲- وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ 

اور وہ مجھ پر ایمان لائیں ۔ ایمان ۔ مؤمن وغیرہ اسی لفظ سے نکلے ہیں ۔ ایمان یعنی زبان سے ماننا ۔ دل سے یقین رکھنا ۔ اور اس کے مطابق عمل کا ارادہ رکھنا ۔ قبولیّت دعا کی دوسری شرط ھے ۔ ۔۔۔۔ ان بنیادی شرائط کے علاوہ قرآن مجید میں اور بھی کئی شرائط بیان ہوئی ہیں ۔ مثلا 
صحیح اور درست چیز کے لئے دُعا کرنا 
اخلاص اور یقین کے ساتھ مانگنا ۔ 
حلال روزی ، پاک غذا کھانا ۔ 
اور نیکو کار ، فرمانبردار ہونا وغیرہ 
بعض اوقات ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی ۔ ہمیں مایوس یا دل برداشتہ ہونے کے بجائے سوچنا چاہئیے کہ الله تعالی کا کوئی حکم اور فیصلہ حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا ۔ البتہ ہماری دُعا میں نقائص اور کمزوریوں کا اندیشہ ہو سکتا ھے ۔ ممکن ہے دعا کی قبولیت ہمارے حق میں مضر ہو ۔ اس لئے ہمیں الله تعالی کے فیصلے اور اس کی حکمت پر بہتری کا یقین رکھنا چاہئیے ۔ 
دوسری بات جو ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئیے کہ بعض دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا مناسب نہیں کہ دُعا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ بعض اوقات کسی بیماری میں کوئی دوا مفید نہیں ہوتی ۔ لیکن علاج ترک نہیں کیا جاتا ۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دُعا قبول نہ ہونے پر اسے ترک کر دیا جائے ۔ قبول نہ ہونے میں ضرور کوئی مصلحت ہو گی ۔ 
اور الله تعالی ہماری مصلحت سے واقف ھے ۔ ہماری فلاح چاہتا ھے ۔ لہذا ہمیں بھی چاہئیے کہ رہ رہ کر صرف اسی کے آگے دُعا کریں ۔ اسکے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کریں ۔ کیونکہ یہی کامیابی کی راہ ھے۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*دُعا*

وَإِذَا ۔۔ سَأَلَكَ ۔۔۔ عِبَادِي ۔۔ عَنِّي ۔۔۔ فَإِنِّي۔۔  قَرِيبٌ 
اور جب ۔۔ آپ سے پوچھیں ۔۔۔ میرے بندے ۔۔ میرےمتعلق ۔۔پس میں ۔۔ قریب 
أُجِيبُ ۔۔۔ دَعْوَةَ ۔۔۔ الدَّاعِ ۔۔۔ إِذَا ۔۔۔ دَعَانِ 
میں جواب دیتا ہوں ۔۔ پکار ۔۔ پکارنے والا ۔۔۔ جب ۔۔ وہ مجھے پکارے 

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 
اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میںپوچھیں پس میں تو قریب ہوں  مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے مانگے ۔

عَنّی ۔ ( میرےبارے میں ) ۔ یعنی میری قریبی اوردوری کے بارے میں پوچھیں ۔بعض مذاہب نےالله تعالی کی ذات کو انسان کیرسائی سےاس قدردور اور بلند خیال کیا ہے کہ گویا وہاں تک پہنچنا بالکل ناممکن ہے۔اسلام نے اسغلط عقیدے کو رد کیا  اوربتایا کہ الله تعالی انسان کے نہایت قریب ہے ۔
اِنّی قَرِیْبٌ ۔ مراد یہ ہے کہ الله تعالی علم اور واقفیت کے لحاظ سے بھی انسان کے قریب ہے ۔ اور اسکی دعا سننے اور قبول کرنے کے لحاظ سے بھی اسکے قریب ہے ۔
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ۔۔ کہ میں انسان کی شاہ رگ سے بی زیادہ قریب ہوں ۔ 
 مذہب کی روح یہ ہے کہ انسان سب سے کٹ کر صرف ایک الله کا ہو کر رہے ۔ اسی سے اپنی ہر مراد مانگے ۔ اسی کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ اُٹھائے ۔ اس کی زندگی اور موت اس کی عبادت اور قربانی صرف الله سبحانہ تعالی کے لئے ہو ۔ اس روح کو پیدا کرنے کے لئے الله تعالی نے دُعا کی تعلیم دی ۔اورفرمایا کہ میں انسانوں سے دور نہیں ہوں ۔
 بلکہ جب بھی کوئی شخص تمام جانب سے ہٹ کرپورے اخلاص کے ساتھ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں ۔اسے جواب دیتا ہوں۔اس کی دُعا قبول کرتا ہوں ۔ اسکی تمنّا پوری کرتا ہوں۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ۔۔۔ رات کے آخری پہر تیسرے حصے میں الله تعالی قریب ترین آسمان پر آ کر اعلان کرتا ہے کہ ۔۔۔ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دُعا قبول کروں ۔۔۔ ہے کوئی سوال کرنے والا جس پر نوازش کروں ۔۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا جسے معاف کروں ؟؟؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ۔۔۔ کہ دعاعبادت ہے ۔ 
ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔۔۔الله تعالی اس قدر باحیا اور کریم ہے کہ وہ کسی دعا کرنے والے ہوتھ کو واپس نہیں کرنا چاہتا ۔
لیکن دعا کے قبول ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ ۔۔۔ دل غافل اوربے پرواہ نہ ہو ۔ 
رات کے اس آخری حصے ہی پر کیا موقوف ۔الله جل جلالہ ہر وقت اور ہر جگہ پکارنے والے کی پکارسنتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ خلوص اور ایمانداری کے ساتھ اسے پکارے ۔
اس آیت میں الله تعالی نے انسانوں کے لئے کتنا بھروسہ ، ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے کیسی اُمید ، گنہگار روحوں کے لئے کیسی توقع ، تھکے ماندوں کے لئے کیسا سہارا، بے بسوں کے لئے کیسا آسراء اور کیسی قوت بھر دی ہے ۔ 
انسان اس سے نہ مانگے تو اور کس سے مانگے ؟؟؟ 
مگر کس قدر غافل اورظالم ہے انسان کہ اس سے مانگتے ہوئے شرماتا ہے ۔ اوراسکے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ججھکتا ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*روزے کے دوسرے مقاصد*

وَلِتُكْمِلُوا ۔۔۔۔۔۔  الْعِدَّةَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَلِتُكَبِّرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اللَّهَ ۔۔۔ عَلَى
اور اس لئے کہ تم پوری کرو ۔۔۔ گنتی ۔۔ اور تاکہ تم بڑائی بیان کرو ۔۔ الله تعالی ۔۔ پر 
 مَا ۔۔۔ هَدَاكُمْ ۔۔۔ وَلَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔تَشْكُرُونَ
جو ۔۔ ھدایت دی اس نے تمہیں ۔۔۔ اور تاکہ تم ۔۔۔ شکر ادا کرو 

وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

اور اس واسطے کہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم الله تعالی کی بڑائی بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ھدایت بخشی اور تاکہ تم شکر ادا کرو ۔ 

اس سے پہلے آیت نمبر 183 میں روزے کے بڑے مقصد تقوٰی ( پرھیزگاری) کا ذکر ہو چکا ہے ۔ اب آیت کے اس آخری حصے میں روزے کے تین مزید مقاصد اورسہولتوں کا بیان ہے ۔ 
📌 لِتُکملُا العِدّۃَ ۔ ( تاکہ تم گنتی پوری کرو ) ۔ مراد یہ ہے کہ معذور لوگ  ( کسی وجہ سے روزہ نہ رکھنے والے ) ۔ اپنے روزے کسی اور وقت رکھ لیں ۔ اور رمضان کے مہینے کی گنتی پوری کر لیں ۔ یہ الله تعالی کا فضل و احسان ہے ۔ کہ اگر انسان مقررہ وقت پر اپنا فرض ادا نہ کر سکے اور بروقت اس کے حکم کی تعمیل نہ کر سکے تو اسے دوسرا موقعہ دیا گیا ہے ۔ تاکہ وہ الله سبحانہ تعالی کا فرمان پورا کر لے ۔ اور اس کی خوشنودی حاصل کر لے ۔ گویا شریعت کے احکام کی بجاآوری ضروری ہے ۔ سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ٹالا نہیں جا سکتا ۔ 
📌📌لِتُکَبّرُ اللهَ ۔( تاکہ الله تعالی کی بڑائی بیان کرو ) ۔ مقصد یہ ہے کہ انسان الله جل شانہ کی دی ہوئی ھدایت پر چل کر اس کی عظمت و بزرگی کے گیت گا سکے ۔ یہ بھی الله تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے ہمیں حکمت اور علم سے کام لے کر سیدھی راہ دکھلا دی ۔ جس پر چلنے والا ہر آفت سے محفوظ رہتا ہے ۔ انسان کو چاہئیے کہ الله تعالی کے نام اور اس کے دین کا بول بالا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے ۔ صبح و شام دین کی بلندی میں مصروف رہے اور الله تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہے ۔ مشرق و مغرب میں اس کا نام بلند کرے تاکہ کوئی قوم ھدائت سے محروم نہ رہ جائے ۔ 
لَعَلّکُمْ تَشْکُرُونَ ۔ ( تاکہ تم شکر ادا کرو ) ۔ تیسری غرض یہ ہے کہ ہم الله تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کریں ۔ اور اس کا احسان مانیں ۔ الله تعالی کی نعمتوں کا شکر کرنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ان نعمتوں کو مقرر کردہ طریقے سے استعمال کیا جائے ۔ الله تعالی نے جو سہولتیں ہمیں دی ہیں ان کی ناشُکری اور نا قدری نہ کریں بلکہ اس کی دی ہوئی قوتوں ، طاقتوں ، نعمتوں اور صلاحیتوں کو صحیح اور درست طور پر اس کے احکام کے عین مطابق استعمال کریں ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*الله تعالی آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں*

وَمَن ۔۔ كَانَ ۔۔۔ مَرِيضًا ۔۔۔ أَوْ ۔۔ عَلَى ۔۔۔ سَفَرٍ 
اور جو ۔۔۔ ہے ۔۔ مریض ۔۔ یا ۔۔ پر ۔۔۔ سفر
فَعِدَّةٌ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔ أُخَرَ ۔۔۔ يُرِيدُ ۔۔۔ اللَّهُ 
پس شمار کرنا ۔۔ سے ۔۔ دن ۔۔ دوسرے ۔۔ وہ چاہتا ہے  ۔۔ الله تعالی 
 بِكُمُ ۔۔۔ الْيُسْرَ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ يُرِيدُ ۔۔۔ بِكُمُ ۔۔۔۔الْعُسْرَ 
تم سے ۔۔۔ نرمی ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ  چاہتا  ۔۔ تم سے ۔۔۔ تنگی 

وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ 

اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اور دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئیے الله تعالی تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا ۔ 

اس آیت میں قرآن مجید نے یہ حقیقت ظاہر کی ہے ۔ کہ دین فطرت یعنی اسلام نہایت آسان اور سہل ہے ۔ اسلام انسان سے سخت مشقتیں ، دشوار ریاضتیں اور ناقابل عمل عبادتیں نہیں چاہتا ۔ بلکہ اسلام میں بہت سی گنجائشیں اور بے شمار سہولتیں رکھ دی گئی ہیں ۔ کمزور مجبور انسانوں کو رعایتیں دی گئی ہیں ۔ اسلامی شریعتمیں کوئی ایسا حکم نہ ملے گا جس میں انسان کے حالات ، عمر ، صحت ، موسم اور دوسری مجبوریوں یا مشکلوں کا لحاظ نہ کر لیا گیا ہو ۔ 
پچھلی آیت میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ جو شخص اپنی زندگی میں رمضان کا مہینہ پائے وہ روزے رکھے ۔ اس سے شائد بعض لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہو کہ اس حکم میں سب آجاتے ہیں ۔ اور معذور کی رعایتنہیں رکھی گئی اس لئے اب حکم دھرا دیا گیا ہے ۔ کہ جو مریض اور مسافر ہو وہ رمضان کے بجائے کسی اور مہینے میں روزے رکھ سکتے ہیں ۔ اور الله تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں ۔ 
اس آیت سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے اگرچہ شریعت کے احکام بظاہر کسی قدر مشکل اور دشوار معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ ہماری کامیابی  ، ترقی اور آسانی ء راہ کے لئے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ الله سبحانہ تعالی ہمارا خالق ، مالک معبود اور ارحم الرحمین ہے ۔ وہ ہر حالت میں ہماری آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھتا ہے ۔ اس کا ہر حکم مصلحت زندگی اور خوش حالی کے لئے ہوتا ہے ۔ 
جن حکموں کو ہم مشکل سمجھتے ہیں ۔ دراصل وہ بھی آسان ہوتے ہیں ۔ ہم اپنی تن آسانی اور سستی کی وجہ سے انہیں مشکل سمجھتے ہیں ۔ واقعی ہم نے آج تک نہیں سنا کہ رمضان کے روزوں کی وجہ سے کوئی مرگیا ہو یا کسی کی صحت خراب ہو گئی ہو ۔ اس کے برعکس روزہ سے صحت بہتر ہوتی ہے روحانیت کا تو کیا ذکر ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*روزہ کی فرضیت*

فَمَن ۔۔۔ شَهِدَ ۔۔۔ مِنكُمُ ۔۔۔ الشَّهْرَ ۔۔۔۔ فَلْيَصُمْهُ
پس جو ۔۔ پائے ۔۔ تم میں سے ۔۔ مہینہ ۔۔ تو ضرور روزے رکھے اس کے 

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

آیت کے اس حصہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں ماہ رمضان پائے ۔ وہ ضرور روزے رکھے ۔ استثناء صرف مریض اور مسافر کے لئے ہے ۔ 
یہ حکم رمضان کی فضیلت کے پیش نظر دیا جاتا ہے جسے ہم ایک بار پھر خلاصے کے طور پر دھرا لیتے ہیں ۔ 
دنیا کی ہر قوم میں روزہ رکھنے کا دستور ہے ۔ مثلا عاشورہ کے دن موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات ملی ۔ تو یہودیوں میں اس دن کا روزہ شروع ہوا ۔ 
عیسائیوں میں بھی روزہ رکھنے کا قانون موجود ہے ۔ ہندو اور دوسری قوموں میں بھی روزہ کا تصور اور رواج پایا جاتا ہے ۔ تفصیلات مختلف ہیں ۔ لیکن اصل موجود ہے ۔ 
روزے کے بے شمار فوائد ہیں ۔ اس سے صحت اور تندرستی پر اچھا اثر پڑتا ہے ۔ غریب لوگوں کی حالت سے امیر لوگ عملی طور پر واقف ہو جاتے ہیں ۔ پیٹ بھر کر کھانے والوں اور فاقہ کاٹنے والوں میں برابری پیدا ہوتی ہے ۔ روحانی قوتوں میں ترقی ہوتی ہے ۔ حیوانی خواہشوں پر پابندی ہوتی ہے ۔ انسان کے اندر خداترسی مضبوط ہوتی ہے ۔ 
مثلا گرمی کا موسم ہے سخت پیاس لگ رہی ہے ۔ ٹھنڈا پانی موجود ہے ۔ روزہ دار کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ۔ لیکن وہ پانی نہیں پیتا ۔ 
یہ سب اس لئے ہےکہ الله سبحانہ تعالی کے حکم کی عزت اس کے دل میں گھر کر چکی ہے ۔ اب دوسری کوئی قوت اس پر غالب نہیں آسکتی ۔ اور جب رمضان میں روزہ کے ذریعے اس نے اپنے آپ کو الله تعالی کے حکم سے جائز ، حلال اور پاکیزہ خواہشات کو بھی چھوڑنے کا عادی بنا لیا ۔ تو حرام ، ناجائز اور بُری عادتوں کو چھوڑنے میں اسے کوئی دقت محسوس نہ ہو گی ۔ یہ وہ اخلاقی پاکیزگیاں ہیں جن کا پیدا کرنا روزے کا مقصد ہے ۔ 
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ اگر روزہ دار جھوٹ کہنا ، لغو بکنا اور فضول کام کرنا نہیں چھوڑتا تو الله تعالی کو اس کے کھانے پینے کی پرواہ نہیں۔ گویا روزے کا اصل مقصد اخلاق کو سنوارنا ہے ۔ اگر اخلاق درست نہ ہوئے تو روزے کا کیا فائدہ ۔ 
ہم مسلمانوں پر فرض ہے کہ روزے کی اس قدر فضیلت  اور اہمیت کے پیش نظر ہر سال اس مقدس مہینے کے روزے رکھیں ۔ رمضان کا احترام کریں ۔ اور اپنے اندر اخلاقی ، جسمانی اور روحانی خوبیاں پیدا کریں ۔ تاکہ نزول قرآن مجید کا مقصد پورا ہو ۔ اور رمضان المبارک واقعی نزول قرآن کا جشن۔ اور یادگار ثابت ہو جائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*قرآن مجید کی خصوصیات*

هُدًى ۔۔۔ لِّلنَّاسِ ۔۔۔ وَبَيِّنَاتٍ ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الْهُدَى ۔۔۔وَالْفُرْقَانِ 
ہدایت ۔۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔۔ اور روشن دلیلیں ۔۔۔ سے ۔۔ ھدایت ۔۔ اور حق وباطل میں فرق کرنے والا

هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ 

لوگوں کے لئے ھدایت اور ھدایت کی روشن دلیلیں اور حق کو باطل سے جدا کرنے والا 

آیت کی ابتدا میں رمضان المبارک کی فضیلت واضح کرنے کے لئے الله تعالی نے بتایا کہ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب اسی مہینے میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر اترنی شروع ہوئی ۔ اب یہاں قرآن مجید کی تین خصوصیات بیان فرمائیں ۔ 
ھُدًی ۔ ( ھدایت ) ۔ یہ کہ قرآن مجید تمام بنی نوع انسان کے لئے ھدایت کا سرچشمہ ہے ۔ ہر فرد اپنے خالق حقیقی اور زندگی کی صحیح منزل تک پہنچنے کے لئے صحیص راستہ صرف قرآن مجید ہی سے حاصل کر سکتا ہے ۔ قرآن مجید کے علاوہ راہنمائی کا ہر ذریعہ غلط ہو گا ۔ اس کے سوا ہر راہ گمراہی کی راہ ہو گی ۔ راہ راست کی طرف ھدایت صرف اور صرف قرآن مجید ہی دے سکتا ہے ۔ 
انسان کی زندگی کو مجموعی طور پر کامیابی سے گزارنے کے لئے اس کے ہر پہلو سے متعلق قرآن مجید نے ایسے قاعدے دئیے ہیں جو سیدھے راستے اور حقیقی منزل کی نشاندھی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس آیت میں الله سبحانہ تعالی نے فرمایا ۔ 
ھُدًی للنّاس ۔ ( قرآن مجید تمام نوع انسانی کے لئے ھدایت ہے ) ۔ 
بَیّنٰتٍ مّنَ الھُدٰی ۔ ( ہدائت کی روشن دلیلیں ) ۔ یہ کہ قرآن مجید نے ہدایت اور راہنمائی کے تمام اصولوں اور ضابطوں کو اس قدر کھول کر بیان کیا ہے کہ کہ وہ بالکل صاف سہل اور آسان ہو گئے ہیں ۔ اور ہر شخص انہیں سہولت کے ساتھ سمجھ سکتا ہے ۔ چونکہ قرآن مجید کی خوبی "بَیّنٰت " ( کھل کھلے دلائل ہے ۔ اس لئے قرآن مجید کے اصول عام فہم ، سادہ اور قابل عمل ہیں ۔۔ کوئی بات عقل کے خلاف اور کوئی اصول ناقابل عمل نہیں ۔ 
اَلْفُرقَان ( حق کو باطل سے جدا کرنے والا) ۔ قرآن مجید کی تیسری خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس مقدس کتاب کو پڑھتے ہیں ان میں صحیح فیصلہ کرنے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے ۔ وہ سچ اور جھوٹ ۔۔۔ صحیح اور غلط ۔۔۔ حق اور باطل ۔۔۔ ایمان اور کفر ۔۔۔ اصلاح اور سرکشی ۔۔۔ عبادت اور کفر میں فرق کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ اچھے اور بُرے میں تمیز کر سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن مجید کی صفت  " اَلْفُرقَان ( حق و باطل میں تمیز کرنے والا ) ہے ۔ 
ایسی کتاب جس میں یہ تین خوبیاں ہوں ۔ اس کا ہر حکم انسان کے لئے اندگی کا پیغام نہیں تو اور کیا ہے ؟ 
اس کے ہر حکم میں ان گنت برکتیں اور حکمتیں بھری ہوئی ہیں ۔ 
کاش مسلمان الله جل شانہ کے اس پیغام کو خود بھی سمجھیں اور دُنیا کو بھی سمجھا سکیں ۔ اگر ہم دنیا کے کونے کونے میں الله تعالی کا کلام نہ پھیلا سکے تو یہ امانت میں خیانت ہو گی ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*رمضان کی فضیلت*

شَهْرُ ۔۔۔ رَمَضَانَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔ أُنزِلَ ۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔ الْقُرْآنُ
مہینہ ۔۔۔ رمضان ۔۔ وہ جو ۔۔ اتارا گیا ۔۔ اس میں ۔۔ قرآن 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

رَمَضَان۔ ( ماہ رمضان ) ۔ یہ لفظ رمض سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی دھوپ اور گرمی کی شدت کے ہیں ۔ یہ اسلامی سال کے نویں مہینے کا نام ہے ۔ اسلامی سال شمسی نظام کے بجائے قمری نظام سے چلتا ہے ۔ اور چاند کے مہینے مختلف موسموں میں بدل بدل کر آتے ہیں ۔ اس لئے ماہ رمضان بھی مختلف موسموں میں آتا ہے ۔ اور روزہ دار کو ہر قسم کے موسم میں روزہ رکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ 
الله تعالی نے اس آیت میں رمضان المبارک میں روزے مقرر کرنے کی خصوصیت اور وجہ بیان کی ہے ۔ اور وہ ہے اس ماہ مقدس میں نزول قرآن ۔ 
قرآن مجید یوں تو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا اور تئیس سال کے عرصے میں مکمل ہوا ۔ لیکن اس کی ابتداء اس مقدس مہینے رمضان سے ہوئی ۔ سب سے پہلے سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات حضور کریم صلی الله علیہ وسلم پر غار حرا میں اس ماہ میں نازل ہوئی تھیں ۔ 
احادیث مبارکہ میں یہ بھی آیا ہے کہ " لیلۃ القدر" میں  پورا قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اترا ۔ اور پھر تھوڑا تھوڑا کرکے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا ۔ لیلۃ القدر " رمضان المبارک کی ایک بابرکت رات ہے اور کلام الله میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل بیان کیا گیا ہے ۔ 
احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ سال میں جس قدر قرآن مجید نازل ہو چکا ہوتا رمضان المبارک میں جبرائیل امین آکر آپ صلی الله علیہ وسلم کو سنا جاتے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے سال جبرائیل امین نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو پورا قرآن مجید سنایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے سنا ۔ 
رمضان المبارک میں الله سبحانہ وتعالی کا کلام نازل ہوا تو الله تعالی نے اس کی فضیلت برقرار رکھنے کے اس میں روزے فرض کر دئیے ۔ کلام الله نوع انسانی کی زندگی کے لئے مکمل ھدایت نامہ ہے ۔ اور رمضان کے روزے زندگی کو پاکیزہ بنانے کا ذریعہ ہیں ۔ 
مبارک ہیں جو رمضان پائیں اور اپنی زندگیوں کو پاکیزہ بنا کر متقین کی فہرست میں شامل ہو جائیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں