نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*روزہ کی فرضیت*

فَمَن ۔۔۔ شَهِدَ ۔۔۔ مِنكُمُ ۔۔۔ الشَّهْرَ ۔۔۔۔ فَلْيَصُمْهُ
پس جو ۔۔ پائے ۔۔ تم میں سے ۔۔ مہینہ ۔۔ تو ضرور روزے رکھے اس کے 

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

آیت کے اس حصہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں ماہ رمضان پائے ۔ وہ ضرور روزے رکھے ۔ استثناء صرف مریض اور مسافر کے لئے ہے ۔ 
یہ حکم رمضان کی فضیلت کے پیش نظر دیا جاتا ہے جسے ہم ایک بار پھر خلاصے کے طور پر دھرا لیتے ہیں ۔ 
دنیا کی ہر قوم میں روزہ رکھنے کا دستور ہے ۔ مثلا عاشورہ کے دن موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات ملی ۔ تو یہودیوں میں اس دن کا روزہ شروع ہوا ۔ 
عیسائیوں میں بھی روزہ رکھنے کا قانون موجود ہے ۔ ہندو اور دوسری قوموں میں بھی روزہ کا تصور اور رواج پایا جاتا ہے ۔ تفصیلات مختلف ہیں ۔ لیکن اصل موجود ہے ۔ 
روزے کے بے شمار فوائد ہیں ۔ اس سے صحت اور تندرستی پر اچھا اثر پڑتا ہے ۔ غریب لوگوں کی حالت سے امیر لوگ عملی طور پر واقف ہو جاتے ہیں ۔ پیٹ بھر کر کھانے والوں اور فاقہ کاٹنے والوں میں برابری پیدا ہوتی ہے ۔ روحانی قوتوں میں ترقی ہوتی ہے ۔ حیوانی خواہشوں پر پابندی ہوتی ہے ۔ انسان کے اندر خداترسی مضبوط ہوتی ہے ۔ 
مثلا گرمی کا موسم ہے سخت پیاس لگ رہی ہے ۔ ٹھنڈا پانی موجود ہے ۔ روزہ دار کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ۔ لیکن وہ پانی نہیں پیتا ۔ 
یہ سب اس لئے ہےکہ الله سبحانہ تعالی کے حکم کی عزت اس کے دل میں گھر کر چکی ہے ۔ اب دوسری کوئی قوت اس پر غالب نہیں آسکتی ۔ اور جب رمضان میں روزہ کے ذریعے اس نے اپنے آپ کو الله تعالی کے حکم سے جائز ، حلال اور پاکیزہ خواہشات کو بھی چھوڑنے کا عادی بنا لیا ۔ تو حرام ، ناجائز اور بُری عادتوں کو چھوڑنے میں اسے کوئی دقت محسوس نہ ہو گی ۔ یہ وہ اخلاقی پاکیزگیاں ہیں جن کا پیدا کرنا روزے کا مقصد ہے ۔ 
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ اگر روزہ دار جھوٹ کہنا ، لغو بکنا اور فضول کام کرنا نہیں چھوڑتا تو الله تعالی کو اس کے کھانے پینے کی پرواہ نہیں۔ گویا روزے کا اصل مقصد اخلاق کو سنوارنا ہے ۔ اگر اخلاق درست نہ ہوئے تو روزے کا کیا فائدہ ۔ 
ہم مسلمانوں پر فرض ہے کہ روزے کی اس قدر فضیلت  اور اہمیت کے پیش نظر ہر سال اس مقدس مہینے کے روزے رکھیں ۔ رمضان کا احترام کریں ۔ اور اپنے اندر اخلاقی ، جسمانی اور روحانی خوبیاں پیدا کریں ۔ تاکہ نزول قرآن مجید کا مقصد پورا ہو ۔ اور رمضان المبارک واقعی نزول قرآن کا جشن۔ اور یادگار ثابت ہو جائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...