نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*الله تعالی آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں*

وَمَن ۔۔ كَانَ ۔۔۔ مَرِيضًا ۔۔۔ أَوْ ۔۔ عَلَى ۔۔۔ سَفَرٍ 
اور جو ۔۔۔ ہے ۔۔ مریض ۔۔ یا ۔۔ پر ۔۔۔ سفر
فَعِدَّةٌ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔ أُخَرَ ۔۔۔ يُرِيدُ ۔۔۔ اللَّهُ 
پس شمار کرنا ۔۔ سے ۔۔ دن ۔۔ دوسرے ۔۔ وہ چاہتا ہے  ۔۔ الله تعالی 
 بِكُمُ ۔۔۔ الْيُسْرَ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ يُرِيدُ ۔۔۔ بِكُمُ ۔۔۔۔الْعُسْرَ 
تم سے ۔۔۔ نرمی ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ  چاہتا  ۔۔ تم سے ۔۔۔ تنگی 

وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ 

اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اور دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئیے الله تعالی تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا ۔ 

اس آیت میں قرآن مجید نے یہ حقیقت ظاہر کی ہے ۔ کہ دین فطرت یعنی اسلام نہایت آسان اور سہل ہے ۔ اسلام انسان سے سخت مشقتیں ، دشوار ریاضتیں اور ناقابل عمل عبادتیں نہیں چاہتا ۔ بلکہ اسلام میں بہت سی گنجائشیں اور بے شمار سہولتیں رکھ دی گئی ہیں ۔ کمزور مجبور انسانوں کو رعایتیں دی گئی ہیں ۔ اسلامی شریعتمیں کوئی ایسا حکم نہ ملے گا جس میں انسان کے حالات ، عمر ، صحت ، موسم اور دوسری مجبوریوں یا مشکلوں کا لحاظ نہ کر لیا گیا ہو ۔ 
پچھلی آیت میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ جو شخص اپنی زندگی میں رمضان کا مہینہ پائے وہ روزے رکھے ۔ اس سے شائد بعض لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہو کہ اس حکم میں سب آجاتے ہیں ۔ اور معذور کی رعایتنہیں رکھی گئی اس لئے اب حکم دھرا دیا گیا ہے ۔ کہ جو مریض اور مسافر ہو وہ رمضان کے بجائے کسی اور مہینے میں روزے رکھ سکتے ہیں ۔ اور الله تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں ۔ 
اس آیت سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے اگرچہ شریعت کے احکام بظاہر کسی قدر مشکل اور دشوار معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ ہماری کامیابی  ، ترقی اور آسانی ء راہ کے لئے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ الله سبحانہ تعالی ہمارا خالق ، مالک معبود اور ارحم الرحمین ہے ۔ وہ ہر حالت میں ہماری آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھتا ہے ۔ اس کا ہر حکم مصلحت زندگی اور خوش حالی کے لئے ہوتا ہے ۔ 
جن حکموں کو ہم مشکل سمجھتے ہیں ۔ دراصل وہ بھی آسان ہوتے ہیں ۔ ہم اپنی تن آسانی اور سستی کی وجہ سے انہیں مشکل سمجھتے ہیں ۔ واقعی ہم نے آج تک نہیں سنا کہ رمضان کے روزوں کی وجہ سے کوئی مرگیا ہو یا کسی کی صحت خراب ہو گئی ہو ۔ اس کے برعکس روزہ سے صحت بہتر ہوتی ہے روحانیت کا تو کیا ذکر ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...